اشاعتیں

اپریل 22, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

कानून बदल देने से क्या रेप रुक जाएंगे?

जिस दिन राष्ट्रपति ने बच्चियों से बलात्कार पर फांसी से संबंधित अध्यादेश पर हस्ताक्षर किए, उसी दिन देश के अलग-अलग हिस्सों में चार नाबालिगों के साथ दरिन्दगी की गई। इनमें से दो मासूम बच्चियां थीं। देश में प्रतिदिन 55 बच्चियों के साथ एक रिपोर्ट के अनुसार दुष्कर्म होता है। वर्ष 2016 के आंकड़ों के अनुसार बाल यौन उत्पीड़न के करीब एक लाख मामले अदालत में लंबित हैं। कैलाश सत्यार्थी चिल्ड्रेन फाउंडेशन की ओर से बाल यौन उत्पीड़न पर जारी ताजा रिपोर्ट में राष्ट्रीय अपराध रिकॉर्ड ब्यूरो (एनसीआरबी) के आंकड़ों के हवाले से बताया गया है कि 2013 से 2016 के दौरान तीन वर्षों में बच्चों के खिलाफ अपराध की घटनाओं में 84 प्रतिशत की वृद्धि हुई और इनमें से 34 प्रतिशत यौन उत्पीड़न के मामले हैं। वर्ष 2013 में बच्चों के खिलाफ अपराध की 58,224 वारदातें हुईं जो 2016 में बढ़कर एक लाख छह हजार 958 हो गई। बेशक सरकार ने आपराधिक कानून (संशोधन) अध्यादेश 2018 के जरिये 12 साल से कम उम्र की बच्चियों से बलात्कार के दोषियों के लिए मौत की सजा का प्रावधान किया है पर क्या इससे रेप रुकेंगे? इस प्रावधान पर दिल्ली हाई कोर्ट ने सोमवार

कानून बदल देने से क्या रेप रुक जाएंगे?

On the day the President signed the ordinance related to hanging on rape, the same day, in different parts of the country, four minorities were deported. Of these two were innocent children. According to a report with 55 girls daily in the country, there is a rape. According to the figures of the year 2016, about 1 lakh cases are pending in court in the case of child sexual abuse. According to the report of National Crime Records Bureau of NCRB (NCRB) in the latest report on child sexual harassment by the Kailash Satyatti Children Foundation, it has been reported that during the period of 2013 to 2016, 84 percent increase in crime incidents against children in three years And 34 percent of these are cases of sexual harassment. In 2013, there were 58,224 cases of crime against children, which increased to 1 lakh 6 thousand 958 in 2016. Of course, the government has made death penalty for the perpetrators of the rape, under the criminal law (Amendment) Ordinance 2018, but will the

قانون بدلنے سے کیا ریپ رک جائیں گے

جس دن صدر نے بچیوں سے آبروریزی پر پھانسی سے متعلق آرڈیننس پر دستخط کئے اسی دن دیش کے الگ الگ حصوں میں چار نابالغوں کے ساتھ درندگی کی اطلاعات ملیں۔ اس میں دو معصوم بچیاں تھیں۔ دیش میں یومیہ 25 بچیوں کے ساتھ بدفعلی ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال2016 میں اطفال جنسی اذیت کے قریب 1 لاکھ سے زیادہ معاملات عدالتوں میں التوا میں ہیں۔ کیلاش ستیارتھی چلڈرن فاؤنڈیشن کی جانب سے اطفال جنسی اذیت پر جاری تازہ رپورٹ میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعدادو شمار کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ 2013 سے 2016 کے دوران تین برسوں میں بچیوں کے خلاف جرائم کے واقعات میں84 فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ ان میں 34 فیصدی جنسی استحصال کے معاملہ ہیں۔ سال2013 میں بچیوں کے خلاف کرائم کی 58224 وارداتیں ہوئیں جو 2016 میں بڑھ کر 1 لاکھ 6 ہزار 95 ہوگئیں۔ بیشک سرکار نے جرائم قانون (ترمیم) آرڈیننس 2018 کے ذریعے 12 سال سے کم عمر کی بچیوں سے آبروریزی کے قصورواروں کے لئے موت کی سزا کی سہولت شامل کی ہے لیکن کیا اس سے ریپ رکیں گے؟ اس سہولت پر دہلی ہائی کورٹ نے پیر کو سوال اٹھائے ہیں۔ ایک دن پہلے ہی لاگو ہوئے اس قانون پر ہائی کورٹ نے سرکار سے پو

جب ہمارے عزت مآب ہی خواتین جرائم کے ملزم ہیں

عورتوں اوربچیوں کے تئیں بڑھتے جرائم کے خلاف پورے دیش و سماج میں غصہ ہے اور سخت قانون بنانے کی مانگ ہورہی ہے۔ ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریسرچ کی حال ہی میں شائع رپورٹ کی مانیں تو جن آئین سازوں پر قانون بنانے کی ذمہ داری ہے ان میں 48 عزت مآب (ایم پی ۔ ایم ایل اے) ایسے بیٹھے ہیں جو خود عورتوں کے خلاف جرائم کے مقدموں کا سامنا کررہے ہیں۔ تشویش کی صورتحال یہ ہے کہ تین ایم پی (دو لوک سبھا اور ایک راجیہ سبھا) عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کے ملزم ہیں۔ 45 ممبر اسمبلی عورتوں سے ذیادتی کے ملزم ہونے کے باوجود مختلف اسمبلیوں میں موجود ہیں۔ تین ممبران پرتو آبروریزی جیسے سنگین الزامات کے تحت مقدمات چل رہے ہیں۔ مہاراشٹر اسمبلی میں 12 ممبر اسمبلی موجود ہیں جن پر مہلاؤں سے جرائم کا مقدمہ چل رہا ہے۔ مغربی بنگال میں ایسے ممبران کی تعداد11 ہے، بہار اسمبلی میں 2 ممبر اسمبلی عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کے مقدمے لڑ رہے ہیں۔ اڑیسہ اور آندھرا اسمبلی میں 5-5 باغی ایم ایل اے ہیں ، جھارکھنڈ اور اتراکھنڈمیں 3-3 ممبر اسمبلی ہیں۔ کیسے کیسے جرائم : عورتوں کے وقار کو نقصان پہنچانے کی کوشش، اغوا، عورتوں کو زبردستی شادی کے لئے مجبور کر

کرناٹک میں معلق حکومت؟

کرناٹک اسمبلی چناؤ میں ووٹنگ کے محض 20 دن بچے ہیں۔ ریاست میں 12 مئی کو ووٹنگ ہونی ہے۔ بھاجپا ، کانگریس اور جے ڈی ایس کے امیدواروں میں نامزدگی داخل کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ منگل کے روز اس کا آخری دن تھا۔ کانگریس کے سی ایم 40 سال میں کرناٹک کے پہلے وزیر اعلی نے جنہوں نے اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کی ہے۔ اس دوران 15 وزیر اعلی بنے ہیں ، 5 بار صدر راج لگا ہے۔ سدارمیا کا دعوی ہے کہ وہ 165 چناوی وعدوں میں سے 156 پورے کر چکے ہیں۔ اس بار بھی ہر چناؤ کی طرح لوک سبھا چناؤمیں لوک لبھاونے اشو ہیں۔ اب تک مختلف نیوز چینل اور ایجنسیاں اپنے اپنے اوپینین پول جاری کرچکی ہیں۔ اب تک 5 بڑے اوپینین پول آئے ہیں ان میں سے4 میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت ملتی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ سبھی نے ریاست میں معلق حکومت کا دعوی کیا ہے۔ بھاجپا اور کانگریس کے درمیان کانٹے کی ٹکر دکھائی دے رہی ہے۔ حالانکہ بھاجپا کو پچھلے چناؤ سے سیٹوں میں زیادہ فائدہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ وہیں کانگریس کی سیٹیں کم ہوتی جارہی ہیں۔ جے ڈی ایس کنگ میکر کے رول میں ہے صرف سی فور ووٹر نے اپنے اوپینین پول میں کانگریس کو126 سیٹیں دی ہیں۔ پانچ اوپینین پول

55 مہینے میں سب سے مہنگا پیٹرول ۔ڈیزل

محاورہ تو تیل کی دھار دیکھنے کا ہے لیکن ہمارے یہاں اکثر تیل کی مار دیکھی جاتی ہے۔ پیٹرول کی قیمت پچھلے جمعہ کو پچھلے 55 مہینے میں سب سے اونچے پائیدان پر پہنچ گئی۔ پیٹرول 74.40 روپے لیٹر اور ڈیزل سب سے اونچی سطح 65.65 روپے فی لیٹرپہنچ گیا۔ اس سے صارفین کے اوپر پڑ رہے دباؤ کو کم کرنے کے لئے ایکسائز ٹیکس میں کٹوتی کی مانگ تیز ہونے فطری ہی ہے۔ ڈیزل کی قیمتیں نے تو جمعہ کو تاریخ رقم کر دی۔ اس وقت جس قیمت پر بازار میں ڈیزل دستیاب ہے اس پر وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ملا۔پبلک تیل تقسیم کمپنیاں پچھلے سال جون سے روزانہ پیٹرول ۔ ڈیزل کی قیمتیں گھٹا بڑھا رہی ہیں۔ ایتوار کو جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول ۔ ڈیزل کی قیمتیں 19-19 پیسے فی لیٹر بڑھا دی گئیں۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی بازار میں قیمتیں بڑھنے سے گھریلو بازار میں دام بڑھانے پڑے ہیں۔ اس سے پہلے جمعہ کو بھی پیٹرول کی قیمتیں 13 پیسے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمت 15 پیسے فی لیٹر بڑھائی گئی تھی۔ عام جنتا کی نظر سے دیکھیں تو اعتراض تو یہی ہے کہ جب دنیا کے بازاروں میں کچے تیل کی قیمت بہت کم تھی تو اس کا فائدہ ہندوستانی صارفین کو ہی ملا۔

مودی کے لندن دورہ میں ترنگے کی توہین

ویسے تو جب وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ اور انگلینڈ کے دورہ پر جاتے ہیں تو بھارت کے وزیر اعظم کے خلاف مٹھی بھر خالصتانی و کشمیری حمایتی احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔ میں بہت سال پہلے شری اٹل بہاری واجپئی کے ساتھ امریکہ و انگلینڈ کے دورہ پر گیا تھا تب بھی ایسے چھوٹے موٹے مظاہرے ہوئے تھے لیکن اس بار جب گزشتہ ہفتہ پی ایم مودی لندن گئے تھے تو وہاں مظاہرہ بہت مشتعل تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں سکھ اور کشمیریوں نے جم کر نعرے بازی کی۔ لندن میں پارلیمنٹ اسکوائر پر علیحدگی پسندوں نے بھارت کے قومی جھنڈے کو جلانے کی کوشش کی۔ اس کے لئے برطانیہ کے محکمہ خارجہ نے حکومت ہند سے معافی مانگی۔ برطانوی حکومت نے معاملہ کی جانچ کے لئے لندن میٹرو پولیٹن پولیس کی خاص ٹیم بنائی ہے۔ اس معاملہ کا اثر وزیر اعظم نریندر مودی کے لندن قیام کے پروگراموں پر پڑا۔ وزارت خارجہ کے مطابق وزیراعظم کے قیام کی میعاد میں 6 گھنٹے کی کٹوتی کی گئی۔ کامن ویلتھ دیشوں کے سربراہ مملکت کی چوٹی کانفرنس میں حصہ لینے پہنچے مودی کی 10 سربراہوں سے باہمی ملاقاتیں ہونی تھیں لیکن انہوں نے آسٹریلیا کے وزیر اعظم میلکم ٹرنبول ،بنگلہ دیشی کی وزیر اعظم

بی سی سی آئی کو آر ٹی آئی کے تحت لانے کا مسئلہ

آئینی کمیشن نے پچھلے ہفتے سفارش کی ہے کہ بھارتیہ کرکٹ کنٹرول بورڈ کو اطلاعات حق کے تحت قانون کے دائرے میں لایا جاناچاہئے۔ کمیشن نے آگے کہا یہ پبلک حق کی تشریح میں آتا ہے اور اسے سرکار سے اچھا خاصہ مالی فائدہ بھی ملتا ہے۔ سپریم کورٹ نے جولائی 2016 میں کمیشن سے اس بارے میں سفارش کرنے کیلئے کہاتھا۔ اس نے پوچھا تھا کہ کرکٹ بورڈ کو اطلاع کا حق قانون کے تحت لایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ کمیشن نے سرکار سے کہا کہ بی سی سی آئی کو آر ٹی آئی کے تحت لانا بورڈ کے کام کاج کو شفاف بنانے کی سمت میں بڑا قدم ہوسکتا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے بی سی سی آئی سرکاری ادارہ کی طرح ہے اور دیگر کھیل فیڈریشنوں کی طرح بی سی سی آئی بھی کھیل فیڈریشن ہے۔ جب دوسرے کھیل آر ٹی آئی کے دائرے میں آسکتے ہیں تو بی سی سی آئی کیسے بچ سکتی ہے؟ کیونکہ آئینی کمیشن کی سفارشیں مجبوری نہیں ہوتیں اس لئے ایسا کرنا مشکل ہے کہ سرکار آئینی کمیشن کی رپورٹ کو لیکر کسی نتیجے پر پہنچتی ہے لیکن یہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ یوپی اے سرکار کے وقت میں بھی کھیل بل کے ذریعے بی سی سی آئی کو جوابدہ بنانے کی پہل پروان نہیں چڑھ سکی تھی۔ بی سی سی آئی اطلاعات حق قان

کم جانگ کے اعلان سے دنیا نے راحت کی سانس لی

بہت دنوں سے ٹکراؤ کے بعد آخرکار اچھی خبر آئی ہے۔ نہیں تو ایک وقت تو ایسا لگ رہا تھا کہیں تیسری عالمی جنگ نہ چھڑ جائے۔ نارتھ کوریا اور امریکی بلاک میں تو نیوکلیائی جنگ تک کی نوبت آگئی تھی لیکن خطرہ ٹل گیا لگتا ہے۔ نارتھ کوریا کے تانا شاہ کم جانگ ان نے سنیچر کو اپنے فیصلے سے دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ انہوں نے اعلان کیا ان کا دیش اب نیوکلیائی و لمبی دوری کے میزائلوں کا تجربہ نہیں کرے گا۔ دیش کے نیوکلیائی تجربہ گاہ پنگیٹی کو بھی بند کردیا جائے گا۔ کم کے اعلان پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ اب نارتھ کوریا نیوکلیائی تجربہ نہیں کرے گا۔ پوری دنیا کے لئے یہ اچھی خبر ہے۔ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ کم جانگ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو لیکر بھی کافی خوش ہوں۔ وہیں ساؤتھ کوریا نے بھی اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے۔ پچھلے سات برسوں میں نارتھ کوریا نے 89 میزائل تجربہ کئے ہیں اور نارتھ کوریا کا نیوکلیائی مرکزپنگیٹی ہے جو 2006 سے چل رہا ہے۔ یہاں 2016-2017 میں ہوئے پانچویں اور تجربہ اہم تھے۔ ان تجربوں میں ایک کمپیکٹ نیوکلیئر ڈیوائز کا استعمال ہوا تھا جسے کم اور درمیانی انٹرمیڈیم اور انٹر کونٹینینٹل

کیا اب بھی جج لوہیا معاملہ پر مکمل روک لگے گی

ہندوستانی سپریم کورٹ نے جسٹس لوہیا کی موت پر دائر مفاد عامہ کی عرضیوں کو مسترد کرتے ہوئے جو ریمارکس دئے ہیں وہ کافی اہم ترین ہیں۔ عدالت نے کہا کہ سیاسی مقاصد کی تکمیل اورسرخیوں میں آنے کے لئے مفاد عامہ کی عرضیوں کا استعمال ہورہا ہے۔ ایسے معاملوں پر اس کو لیکر دیش بھر میں طوفان کھڑا ہوگیا ہے۔ اس کے سلسلے میں اگر عدلیہ ایسی رائے زنی کررہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہی ہے کہ جو اشو تھا ہی نہیں اسے جان بوجھ کر مشتبہ اور مضحکہ خیز بنایا گیا ہے۔ تنازع شاید ابھی بھی ختم نہ ہو، لیکن سپریم کورٹ نے اپنی طرف سے جسٹس برج گوپال کرشن لوہیا کے معاملہ میں مکمل طور پر روک لگادی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے ان کی موت جن حالات میں ہوئی اس کی آزادانہ جانچ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ معاملہ میں اٹھائے جارہے تمام اعتراضات کو خارج کرتے ہوئے چیف جسٹس دیپک مشرا کی رہنمائی والی بنچ نے ان ججوں کی گواہی کو اہم مانا تھا جن کا کہنا تھا جسٹس لوہیا کی موت دل کا دورہ پڑنے کے سبب ہوئی تھی۔ حالانکہ تمام سیاسی اسباب سے کئی لوگ ان کی موت کو پراسرار مان رہے تھے۔ اس کے لئے کافی بڑی کمپین چلائی جارہی تھی۔ تقریباً ساڑھے تین سال پہلے ای

چیف جسٹس کیخلاف مواخذہ کا نوٹس

کئی دنوں سے چل رہی چہ میگوئیوں کے بعدکانگریس لیڈر شپ میں اپوزیشن نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف مواخذہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سات پارٹیوں کے لیڈروں کے دستخط والی درخواست راجیہ سبھا کے چیئرمین کو سونپ دی گئی ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ جب دیش کے سب سے بڑے جج کے خلاف امپیچمنٹ چلانے کا ریزولیوشن لایا گیا ہے۔ راجیہ سبھا کے چیئرمین وینکیانائیڈو کو 71 ممبر کے دستخط والے مواخذہ ریزولیوشن کا نوٹس دینے کے بعد ان پارٹیوں نے کہا کہ آئین اور عدلیہ کی حفاظت کے لئے ہمیں بھارتی من سے یہ قدم اٹھانا پڑا ہے۔ کانگریس نیتا کپل سبل نے 12 جنوری کی چار ججوں کی پریس کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ جوڈیشیری کا معاملہ اندر ہی سلجھ جائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اس قدم کا جسٹس لوہیا معاملہ اورایودھیا کیس کی سماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مواخذہ کیا ہے؟ یہ مقدمہ چلانے کی ایک کارروائی ہے جس کا استعمال صدر اور سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ججوں کو ہٹانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس کا ذکر آئین کی دفعہ 61،124(4)(5) ، 217 اور 218 میں ملتا ہے۔ مواخذہ کی تجویز صرف تب لائی جاسکتی ہے جب آئین