اشاعتیں

جنوری 10, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

آخر کیوں بھارت پاکستان سے اتنی امیدیں رکھتا ہے

پٹھانکوٹ حملے کے بعد ہندوستانی ایجنسیوں کو اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگی کہ دہشت گرد پاکستان سے آئے اور اس حملے کی سازش پاکستان میں ہی رچی گئی۔ جلد ہی اس حملے کے اکھٹے ثبوت پاکستان کو مہیا کروادئے گئے ہیں لیکن جیسی امید تھی کہ پاکستان اپنے پرانے دھڑلے پر چلتے ہوئے دکھاوتی طور پر کچھ جگہوں پر چھاپے مارنے اور کچھ لوگوں کو حراست میں لینے کی بات کا پروپگنڈہ کروادیا لیکن یہ سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی کہ ماسٹر مائنڈ اظہر کو گرفتار کیا گیا ہے۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ پاکستان سرکار نے اس فون نمبر کے پاکستانی ہونے کی بات سرے سے مسترد کردی ہے جس پر پٹھانکوٹ آکر دہشت گردوں نے اپنے پاکستان میں بیٹھے آقاؤں سے بات کی تھی۔ دراصل پچھلے ہفتے ہی جب پاک وزیر اعظم نواز شریف نے مسلسل دو دن اعلی حکام کی میٹنگ بلائی تھی تو اس کے بعد پاکستانی میڈیا میں سرکاری ذرائع کے حوالے سے یہ خبر آئی تھی کہ بھارت نے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دئے ہیں۔ مولانا مسعود اظہر کو پاکستانی میڈیا کے مطابق حراست میں لے لیا گیا ہے لیکن پاک سرکار کی طرف سے ابھی تک اس کے بارے میں سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ یہ کارروائی دکھاوے کے لئ

کیا بھاجپا کیلئے مالدہ سنجیونی بن سکتا ہے

اترپردیش سے اٹھا ایک من چاہا اشو کیا بھاجپا کیلئے سیاسی طور سے سنجیونی ثابت ہوسکتا ہے؟ اترپردیش کے سیتا پور کے ہندو مہا سبھا کے خودساختہ لیڈر کملیش تیواری نے مسلمانوں کے عقیدت کے مرکز حضرت محمدؐ پراعتراض آمیز تبصرہ کیا کردیا، یوپی سمیت کئی ریاستوں میں سیاست گرم ہوگئی۔ بہار، پورنیہ اور مغربی بنگال(مالدہ) میں وسیع تشدد ہوا۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے تو مالدہ واردات کو فرقہ وارانہ تشدد ماننے سے انکار کردیا اور اسے بی ایس ایف اور مقامی لوگوں کا جھگڑا تک بتادیا۔ مغربی بنگال میں تین مہینے بعد اسمبلی چناؤ ہونے ہیں۔ ٹی وی اسٹار رہیں بھاجپا نیتا روپا گانگولی کی مانیں تو ریاست میں اس طرح کے عناصر کو ممتا حکومت کی پہلے سے ہی سرپرستی ملتی رہی ہے۔ مالدہ تشدد کٹر پسند طاقتوں کے تئیں نرمی کے سبب ہوا۔ حکومت اور مقامی انتظامیہ کا درپردہ طور پر ٹال مٹول والا رویہ ان کے حوصلے کو بڑھاتا ہے۔ بھاجپا اس کے خلاف سڑکوں پر اتر رہی ہے۔ مالدہ میں واقع کالیاچک علاقے میں 3 جنوری کو مسلم مظاہرے ہوئے اور ان پرتشدد مظاہروں اورآگ زنی کے واقعات کا جائزہ لینے پہنچی بھاجپا کی مرکزی ٹیم کو وہاں سے بیرنگ لوٹن

112 سال پرانے سوریہ مندر کے دروازے کھولنے کی یوجنا

کونارک کا سوریہ مندر بھارت کے پاس یہ دنیا کی قدیم ترین وراثت ہے۔کبھی رویندر ناتھ ٹیگور سے لکھا کونارک جہاں پتھروں کی زبان منشٹ سے سریشٹ ہے، آج کل یہ پھر سرخیوں میں ہے۔ اگر آپ مندر گئے ہوں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ تین منڈپوں میں بٹے اس مندر کا اہم منڈپ اور ناٹے شالا تباہ ہوچکے ہیں اور اب اس کا ڈھانچہ ہی باقی ہے۔ بیچ کا حصہ، جسے جگموہن منڈپ یا سوریہ مندر کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں 1901ء میں چاروں طرف سے دیواریں اٹھوا کر ریت بھر دی گئی تھی۔ اب اسی ریت اور دیواروں کو ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، تاکہ اس کے اندر کی دیواروں کی نقاشی لوگ دیکھ سکیں۔اپنی خاص فنکاری اور انجینئرنگ کے لئے دنیا بھر میں مشہور اس مندر کو سیاحوں نے ابھی تک ادھورا ہی دیکھا ہے۔ اس کے لئے ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ اورسی بی آر آئی (سینٹرل بلڈنگ ریسرچ انسٹیٹیوٹ رڑکی) کی ٹیم کام کررہی ہے۔ حال ہی میں سی بی آر آئی کی ٹیم نے اینڈواسکوپک کے ذریعے مندر کے اندر کی کچھ تصویریں اور ویڈیو لئے ہیں جن کی اسٹڈی کی جارہی ہے، ساتھ ہی اس کی ایک چھوٹی سی رپورٹ کی ایک کاپی اے ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر بھیجی جاچکی ہے۔ اب اس پر اے ایس آئی کو ف

نہ امریکہ اور نہ ہی پاکستان حملہ آوروں پر کارروائی کرے گا

ہمیں یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ بھارت سرکار پٹھانکوٹ ایئربیس پر دہشت گردانہ حملے کا پاکستان کو کیا جواب دینا چاہتی ہے؟ یہ محض ایک دہشت گردانہ حملہ نہیں تھا، یہ تو دیش پر حملہ تھا۔ پاکستان نواز دہشت گردوں نے پہلی بار بھارت کے ایک فوجی اہم ادارے پر حملہ کیا تھا۔کیا ہم سمجھیں کہ بھارت سرکار کا جواب یہ ہے کہ پاکستان حملہ آوروں پر کارروائی کرے یا پھر یہ ہے کہ امریکہ پاکستان پر ایسا کرنے کیلئے دباؤ ڈالے؟ بیشک دکھاوے کے لئے امریکہ پاکستان پر کارروائی کرنے کا دباؤ ڈالتا دکھائی دے رہا ہے لیکن کیا ہم امریکہ کے ٹریک ریکارڈ کو نظر انداز کرسکتے ہیں؟ اس کی ہمیشہ سے پاکستان کو لیکر دوہری پالیسی رہی ہے۔ ایک طرف وہ بھارت کی پیٹھ تھپتھپاتا رہتا ہے دوسری طرف پاکستان کو پیسہ اور ہتھیار مہیا کرواتا رہتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کا استعمال بھارت کے خلاف ہونا ہے۔ دراصل جب تک امریکہ پاکستان میں ہے پاکستان اس کی مجبوری بنی رہے گی۔ اسے افغانستان سے ہٹنا ہے اور ایسا کرنے میں اسے پاکستان کی مدد چاہئے اس لئے وہ اوپر سے دکھاوے کیلئے کچھ بھی کرتا رہے لیکن اندر خانے وہ کبھی بھی پاکستان کے خلاف نہیں جاسکتا۔ کم س

جموں و کشمیر میں سیاسی داؤ پیچ کا دور

امید تو یہ تھی کہ ایتوار تک جموں و کشمیر میں نئی حکومت کو لیکر تصویر صاف ہوجائے گی لیکن اب ڈر ہے کہیں پھر سے صوبے میں عدم استحکام کا دور نہ شروع ہوجائے۔ خاص کر آج کے حالات میں جب سرحد پار سے مل رہے غیر سنجیدہ اشاروں کی وجہ سے جموں و کشمیر میں کسی طرح عدم استحکام پیدا کرنے والے منظر کو بلاوا دینے جیسے ہیں۔ نئی سرکار کی تشکیل کے لئے کسی بھی سیاسی پارٹی کے آگے نہ آنے سے ریاست میں صدر راج لگانا پڑا ہے۔ امید تو یہ تھی کہ مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد ان کی جگہ نئی وزیر اعلی ان کی بیٹی محبوبہ مفتی بن جائیں گی لیکن فی الحال اس میں تھوڑی اڑچن آگئی ہے۔ اپنے والد کے انتقال کے غم میں ڈوبی بیٹی محبوبہ نے ابھی تک بھاجپا کے ساتھ سرکار کے قیام کے لئے بات چیت تک شروع نہیں کی ہے۔ محبوبہ نے اتوار کی شام کو بلائی اپنی پارٹی کی میٹنگ میں بھی اس اشو پر کوئی تبادلہ خیالات نہیں کئے۔ وہ صرف تعزیتی میٹنگ تک ہی محدود رہی۔ وزیر اعلی مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد پی ڈی پی اور بھاجپا میں چل رہی کھینچ تان دیش کے مفاد میں نہیں ہے۔ محبوبہ خود سرکار کے قیام میں دیری کررہی ہیں کیا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اپنے والد

آڈ ۔ ایون اسکیم کا مستقبل

راجدھانی میں تجربے کے طور پر آزمائے جارہے آڈ۔ ایوان نمبر سسٹم میں مداخلت سے پیر کے روزدہلی ہائی کورٹ نے انکار کردیا ہے۔عدالت ہذا نے کہا کہ یہ ماہرین کی رائے لیکر اسکیم بنائی گئی ہے، اس کے ذریعے سے دیکھا جاناچاہئے کہ آلودگی میں کمی آتی ہے یا نہیں۔ ایسے میں اس میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چیف جسٹس جے۔ روہنی اور جسٹس جینت ناتھ کی بنچ نے اپنے 12 صفحات پر مشتمل آڈر میں کہا ہے کہ ہم تب تک اس میں دخل نہیں دے سکتے جب تک پالیسی آئین یا قانون کے خلاف نہ ہو۔ آڈ۔ ایون اسکیم کچھ لوگوں کے لئے پریشانی والی ہوسکتی ہے لیکن کورٹ اس بات کے لئے دخل نہیں دے سکتی کہ پالیسی کیسی ہے یا اس سے بہتر کوئی اور پالیسی ہوسکتی تھی یا نہیں۔ حالانکہ عدالت نے دہلی حکومت سے کہا ہے کہ عرضی میں جو سوال اٹھائے گئے ہیں ان ایشوز پر غور کیا جائے۔ مستقبل میں اس طرح کی اسکیم لانے سے پہلے ان سوالوں پر بھی غور کریں۔دہلی سرکار کے وزیر ٹرانسپورٹ گوپال رائے نے کہا ہے کہ یہ اسکیم دہلی والوں کے مفاد میں ہے اور 15 جنوری تک ٹرائل کے بعد ہر ڈیٹا کا تجزیہ کیا جائے گا اس کے بعد ہی اسکیم پر آگے فیصلہ لیا جائے گا۔ یہ اسکیم دہلی میں آلو

بھارت کی سرداری کو انگوٹھا دکھاتے پاک اور چین

پاکستان اور چین دونوں ملکوں نے طے کرلیا ہے کہ وہ بھارت کی عزت ساکھ و سرداری کو چیلنج کریں گے۔ پاکستان آئے دن اپنی ناپاک حرکتوں سے باز نہیں آتا۔ اب اپنے قبضے میں گلگت۔ بلتستان کو پاکستان آئینی درجہ دینے کی تیاری کررہا ہے۔ پاکستان کے اس قدم سے ہندوستان کی مشکلیں اور بڑھ سکتی ہیں، کیونکہ بھارت اس علاقے کو متنازعہ کشمیری علاقے کا حصہ مانتا ہے۔ پاکستان اب جموں و کشمیر کے اٹوٹ حصے گلگت بلتستان کو آئینی طور سے اپنا صوبہ بنانے کی فراق میں ہے۔ اسی کڑی میں اس نے ایک اعلی سطحی کمیٹی بنائی ہے۔ علاقے کے کٹھ پتلی سرکار سے بات چیت کا دکھاوا کیا جارہا ہے۔ پاکستان پہلی بار اپنے آئین میں گلگت ۔ بلتستان کا تذکرہ کرنے جارہا ہے۔ بتادیں کہ پاکستان میں سال1973 میں نافذ آئین میں گلگت۔ بلتستان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ پاکستان میں اس علاقے کے انتظام کی ذمہ داری مبینہ طور پر کراچی معاہدے کے تحت حاصل کی تھی۔ پاکستان نے سازش کے تحت 1974 میں قواعد میں تبدیلی کر یہاں کی مردم شماری ٹیلی میں تبدیلی کی۔ سال2009 ء میں ایک 33 نفری کونسل بنائی۔ مانا جارہا ہے کہ یہ کام وہ اپنے دوست ملک چین کو خوش کرنے کے لئے کررہا ہے جس نے

اترپردیش میں پنچایتوں پر سپا کا پرچم لہرایا

ساکھ اور کارگزاری تقریباً تقریباً سبھی مورچوں پر امیدوں سے کم اترنے کے باوجود اترپردیش ضلع پنچایت پردھان چناؤ میں سماجوادی پارٹی کی شاندار جیت چونکانے والی ضرور ہے۔ ریاست میں پنچایت کی جنگ میں ایک بار پھر اقتدار کی دھمک بھاری پڑی۔ اترپردیش کی 74 میں سے59 ضلع پنچایتوں پر سماجوادی پارٹی نے پرچم لہرایا ہے جبکہ بھاجپا 6 ، بسپا 4 مقامات پر ہی کامیاب رہی۔ کانگریس اور راشٹریہ لوکدل کو بھی 1-1 سیٹ پر کامیابی حاصل ہوئی جبکہ سپا کے تین باغیوں نے پارٹی کے سرکاری امیدواروں کو پٹخنی دے دی۔ سپا کے آگے وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقے بنارس میں بھی بھاجپا نے اپنی پارٹی کا اتحاد کارگر نہیں رہا۔ یہاں سپا امیدوار اپراجتا نے 48 کے مقابلے30 ووٹ حاصل کر مشترکہ امیدوار اجیت سونکر کو 13 ووٹوں سے ہرادیا۔ فطری ہے کہ سماجوادی پارٹی سے اپنی سرکار اور ترقیاتی کاموں کے تئیں عوام کے مناسب رخ کو انعام بتائے، بھاجپا کا تو حال یہ رہا کہ پارٹی نہ تو پردھان منتری نریندر مودی کے چناوی حلقے بنارس کو بچا پائی اور نہ پردیش پردھان ڈاکٹر لکشمی کانت واجپئی کے گڑھ میرٹھ میں بھی ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔ جبکہ کانگریس نے بہ

پٹھانکوٹ حملے میں ہماری سکیورٹی ایجنسیوں میں تال میل

ایک ہفتہ پہلے آتنکی حملے کا شکار بنے پٹھانکو ٹ ایئر بیس کا سنیچر کو وزیر اعظم نریندر مودی نے دورہ کیا۔ انہوں نے حالات کا جائزہ لیکر سکیورٹی کا بھی تجزیہ کیا۔ بعد میں پی ایم او نے ٹوئٹ کرکے بتایا کہ سکیورٹی فورس نے آتنک وادیوں کے خلاف جس طرح سے کارروائی کی اس پر پردھان منتری نے تشفی ظاہر کی۔ تال میل سے الگ الگ فیلڈ یونٹوں کے ذریعے کی گئی کارروائی اور جوانوں کی بہادری کی پی ایم نے تعریف کی۔ جوانوں کی بہادری کی تو تعریف ہونی چاہئے ہی لیکن جہاں تک سکیورٹی ایجنسیوں میں تال میل کا سوال ہے اس سے ہمیں مطمئن نہیں ہونا چاہئے۔ ماہرین کے مطابق اگر آپریشن اتنا لمباکیا (100 گھنٹے) تو اس کے پیچھے سکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان تال میل کی کمی ہونا ہے۔ ماہرین نے آپریشن میں ایک ساتھ کئی ایجنسیوں کو لیکر سوال اٹھائے ہیں۔ سابق فوج کے سربراہ جنرل وی پی ملک نے آپریشن میں سینا کواہم کردار دینے پر زور دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ آپریشن کے دوران سکیورٹی ایجنسیوں کے بیچ تال میل کی کمی نظرآئی۔ آپریشن میں این ایس جی ، پنجاب پولیس ایئرفورس اور فوج بھی لگی ہوئی تھی لیکن فوج کو کافی پہلے ہی بلا لینا چاہئے تھا۔ ایسے میں جوا

مفتی کے جانے کا اثر کشمیر کی سیاست پر پڑے گا

جموں و کشمیر کے وزیر اعلی مفتی محمد سعید کا جانا افسوسناک تو ہے ساتھ ہی ساتھ ان کے وارث کے لئے کئی چنوتیاں چھوڑگیا ہے۔ دیش کے سب سے اشانت اور اٹھا پٹخ والے صوبے کو پٹری پرلانے میں جو سمجھداری، سنجیدگی،ملک کسی سیاستداں سے چاہ رہا تھا اس کے قریب تک جانے کا حوصلہ مفتی صاحب نے ہی دکھایا۔مفتی کے جانے کا اثر کشمیر، پی ڈی پی، بی جے پی اور دیش سبھی کو کسی نہ کسی شکل میں محسوس ہوتا رہے گا۔ گذشتہ کچھ سالوں میں سعید کا قد اتنا بڑا ہوگیا تھا کہ اس کی چھتر چھایا میں کافی چیزیں محفوظ محسوس کی جاتی تھیں۔ سعید کشمیر میں ایک طرح کے سنتولن کے پرتیک تھے۔ کشمیرمیں الگاؤوادی اور گرم پنتھی نیتا بھی کہتے کچھ بھی رہتے ہوں لیکن وہ بھی مفتی کا سنمان کرتے تھے۔ بی جے پی کے ساتھ سرکار بنا کر مفتی نے اپنی اسٹیٹ مین شپ کا ثبوت دیا۔ یہ بڑا رسک تھا لیکن یہ رسک لے کر بھی انہوں نے بھارت اور لوک تنتر کے تئیں اپنی ذمہ داری اور مضبوطی سے ثابت کی۔ جموں و کشمیر میں اب جبکہ محبوبہ مفتی کا وزیر اعلی بننا طے سا ہے، سہیوگی دل کے طور سے شامل بھاجپا کے لئے یہ چنوتی بن سکتی ہیں۔ پارٹی حالانکہ اس بدلاؤ کے لئے پہلے سے ہیں من بنانے

پٹھانکوٹ حملہ آوروں کو کہیں ڈرگ اسمگلروں نے پناہ تو نہیں دی

پٹھانکوٹ میں آتنک کے خلاف 100 گھنٹے سے زیادہ آپریشن تو ختم ہوگیا ہے پر یہ سوال جوں کا توں ہے کہ آخر کار بھارتیہ سرحد میں آتنکیوں کو پناہ کون دیتا ہے؟مانا جارہا ہے کہ آتنکیوں نے ڈرگ سمگلروں کے روٹ کا استعمال کیا۔ ڈرگ اور آتنک کے اس خطرناک گٹھ جوڑ کی جانچ چل رہی ہے۔ کیا پنجاب میں پھیلے نشے و ہتھیار سمگلنگ کا نیٹ ورک تو آتنکیوں کا مددگار تو نہیں بنا؟ سرحد پر ہیروئن ،حشیش کی سمگلنگ کرنے والے اسمگلروں کے تعلق پاکستانی اسمگلروں سے ہیں۔ کئی بار اسمگلر ہتھیار اور آر ڈی ایکس کی اسمگلنگ کرتے ہوئے پکڑے جاچکے ہیں۔ کئی بار پاکستانی اسمگلر بھارتیہ سرحد میں گھس پر یہاں کے اسمگلروں کے پاس رہ چکے ہیں۔ کچھ سال پہلے لگ بھگ 5 شہری سرحد پر لگی کٹیلی تار پار کر فیروز پور چھاؤنی ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے تھے۔ ان میں سے ایک کو قابو کیا گیا تھا باقی فرار ہوگئے تھے۔ خفیہ ذرائع کے مطابق اس میں حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ بھارتیہ اسمگلروں نے پٹھانکوٹ میں حملہ کرنے آئے آتنکیوں کو پناہ دی ہو۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ بھارت۔ پاک سرحد پر رہنے والے زیادہ تر لوگوں کے پاس پاکستانی موبائل کمپنی کے سم کارڈ ہیں۔ پنجاب پولیس کے سابق