دہلی کی جنتا کے مینڈیٹ کی توہین کررہے ہیں کیجریوال!

یہ ٹھیک ہے اسمبلی چناؤ میں دہلی کی عوام نے کانگریس سرکار کے خلاف منفی مینڈیٹ دیا ہے اور ساتھ ہی ووٹ دیا ہے لیکن ووٹ دیتے وقت یہ نہیں سوچا کہ کانگریس کی جگہ کون لے گا؟ اگر وہ عام آدمی پارٹی کو اکثریت دے دیتے یا بھاجپا کوچار پانچ سیٹیں زیادہ دے کر جتاتے آج دہلی میں سیاسی شش و پنج کے حالات نہ دیکھنے پڑتے۔ آج سبھی پریشان ہیں جو جیتا ہے وہ بھی اور جو ہارا ہے وہ بھی۔ اسمبلی چناؤ میں کسی کو اکثریت نہ دے کر چناؤ جیتے ممبران اسمبلی کو تو الجھن میں ڈال دیا ہے ساتھ ہی وہ امید وار بھی کم پریشان نہیں جو چناؤ ہار گئے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے جیتے ہوئے امیدواروں میں کچھ تو ایسے بھی ہیں جن کو جیت کے بعد ان کے حمایتی جب مبارکباد دینے آتے ہیں تو ان کے پاس چائے پلانے کے لئے پیسہ تک نہیں ہے۔وہ امیدلگائے بیٹھے ہیں کہ ’آپ‘ پارٹی سرکار بنائے اور انہیں اقتدار کا ذائقہ لینے کو ملے گا۔ جو ہارے ہیں انہیں یہ پریشانی ستا رہی ہے کہ انہیں دوبارہ ٹکٹ ملے گی یا نہیں؟ سیاسی گلیاروں میں بڑی پارٹیاں سرکار بنانے کو لیکر گیند ایک دوسرے کے پالے میں ڈال رہی ہیں۔ بھاجپا نے تو لیفٹیننٹ گورنر کو لکھ کر دے دیا ہے کہ وہ سرکار نہیں بنانا چاہتی کیونکہ جنتا نے اسے واضح اکثریت نہیں دی۔ اب عام آدمی پارٹی کے پالے میں گیند ہے۔ ان سب کے درمیان جنتا ایک الگ ہی رائے لیکر چل رہی ہے کہ اکثریت نہ ملنے کے باوجوددہلی کی کرسی تو’ آپ‘ کو ہی دینے کے حق میں ہے۔ عام جنتا دہلی میں دوبارہ چناؤ کرانے کے حق میں نہیں ہے۔ لوگوں کی رائے ہے کہ سیاست میں تجربہ حاصل کرنے کے لئے عام آدمی پارٹی کوکرسی ضرور سنبھالنی چاہئے۔ اروند کیجریوال کے نہ حمایت لینے نہ دینے کابیان جنتا کے گلے نہیں اتر رہا ہے۔ نہ وہ حمایت دینے کو تیار ہے نہ لینے کو تیار اور نہ ہی اقلیتی حکومت بنانے کو تیار۔ یہ سیاست ہے یا لوگوں کو گمراہ کر ووٹ لینے کے بعد ذمہ داری سے بھاگنا ہے؟ یہ سوال آپ کے خلاف آنے والے دنوں میں دونوں کانگریس اور بھاجپا اپنے سوالوں کی لسٹ میں شامل کریں گی۔ جمہوریت میں مینڈیٹ سب سے اہم ہوتا ہے نہ صرف جنتا کی یہ مانگ ہے کہ بالکل آپ ہی کی آئینی ذمہ داری بنتی ہے آئین میں اقلیتی حکومت کا ذکر ہے لیکن صرف جنتا کی بھلائی کے مفاد کے لئے کام کرنے والی بھاجپا اور آپ دوبارہ چناؤ کی بات کر لوگوں کو کروڑوں روپے اور وقت اور وسائل کی بربادی کی طرف تو جھونک رہے ہیں بلکہ اپنے جنتا سے کئے وعدوں سے بھی بھاگ رہے ہیں۔ کانگریس کے سابق ایم ایل اے مکیش شرما کا کہنا ہے دونوں ہی پارٹیوں نے جنتا سے جھوٹے وعدے کئے تھے جنہیں وہ پورا نہیں کرسکتیں اس لئے سرکار بنانے سے بچ رہے ہیں۔ ان پارٹیوں کی ضد کی وجہ سے جنتا کو مہنگائی جھیلنی پڑے گی جو راحت کی امید لے کر انہوں نے عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا تھا وہ امید بھی ٹوٹتی نظر آرہی ہے۔ اگر سرکار بنا کر عام آدمی پارٹی محض دو یا تین وعدے بھی پورے کردے تو جنتا کو راحت مل جائے گی۔ بجلی کے داموں میں کٹوتی اور 700 لیٹر پانی مفت دستیاب کرانا ان میں شامل ہے۔ لیکن کیجریوال جانتے ہیں کہ بجلی کے بل 30 فیصد کم کرنا ، فری پانی دینا جیسے وعدے وہ پورے نہیں کرسکتے اس لئے اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ رہے ہیں۔ کانگریس نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ آپ کی سرکار کی حمایت کرسکتی ہے پھر انہیں سرکار بنانے میں قباحت کیوں ہے؟ 28 ممبروں کے باوجود وہ لوک سبھا چناؤ سے پہلے کام کرکے دکھائیں نہ کہ جنتا کی مینڈیٹ کی توہین کرے۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟