اشاعتیں

مئی 18, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

آبیل مجھے مار: اروند کیجریوال کا وبال!

عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال نے بدھوارکو جس طرح پٹیالہ ہاؤس میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ گومتی منوچا کی عدالت میں جس طرح کا برتاؤ کیا اس پر ہمیں تو قطعی تعجب نہیں ہے۔ پہلے بتادیں کہ عدالت میں جو کچھ ہوااس سے سبھی باخبر ہیں۔ کیجریوال بدھوار کو ایک ملزم کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے۔ بھاجپا کے سابق پردھان نتن گڈکری نے ان پر ہتک عزت کا کیس درج کررکھا ہے۔ گڈکری نے الزام لگایا ہے کہ کیجریوال کی بھارت کے سب سے کرپٹ لوگوں میں نام ہونے اور کیجریوال کے جھوٹے بیانوں سے ان کی ساکھ کو ٹھیس پہنچی ہے۔کیجریوال کے وکیلوں نے اپنے موکل کے ذریعے لگائے گئے الزامات کا نہ تو کوئی جواب دیا اور نہ ہی دلیل میں کوئی ثبوت دئے۔ الٹے مجسٹریٹ سے ضمانت مچلکہ پر اڑ گئے۔ مجسٹریٹ گومتی منوچا کی عدالت میں کیجریوال کی طرف سے سینئر وکیل پرشانت بھوشن و راہل مہرہ نے کہا یہ معاملہ سیاسی ہے اور عام آدمی پارٹی کے اصول کے مطابق ضمانت کے لئے مچلکہ نہیں بھریں گے لیکن اس بات کا حلف نامہ دینے کو تیار ہیں کہ وہ عدالت کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہر تاریخ پر عدالت میں حاضر ہوں گے۔ اس پراختلاف کرتے ہوئے گڈکری کی طرف سے پیش ہوئیں سینئ

سنجیدہ،جوابدہ او جذباتی نامزد وزیر اعظم نریندر مودی!

نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو اکثریت کے ساتھ دہلی کے اقتدار تک پہنچنے کے دلچسپ اور اس کی تاریخی اہمیت کی بحث ویسے تو 16 مئی کے نتائج آنے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی لیکن اس بحث میں تب ایک شدید اور تناسبی اور بھروسے کی شکل اختیار کرلی جب نریندر مودی باقاعدہ طور سے بھاجپا پارلیمانی بورڈ اور پھراین ڈی اے کے اتفاق رائے سے نیتا چنے گئے۔ حالانکہ ہم نے بڑے بڑے لیڈروں کے منہ سے یہ جملے کئی بار سنے ہیں کہ پارلیمنٹ جمہوریت کا ایک مندر ہے لیکن منگلوار کو جب دیش اور دنیا نے دیکھا بھارت کے نامزد وزیر اعظم پارلیمنٹ کے اندر قدم رکھنے سے پہلے اس کے دروازے پر ماتھاٹیکتا ہے تو اس سے ہندوستانی جمہوریت کے تئیں بھروسے اور عظم کے ایک پائیدار نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ پارلیمنٹ کے سنیٹرل ہال میں منگلوار کو امنگ کے چوطرفہ لہراتے جذباتی ترنگوں کے درمیان پارلیمانی پارٹی کا لیڈر چنے جانے کے باوجود نریندر مودی نے حکومت اور سیاست کے اپنے ایجنڈے کو جذباتی لہر میں نہیں بہنے دیا اور اپنے جذبات کو قابو رکھتے ہوئے انہوں نے نہ صرف حکومت کی امکانی تصویر کا خاکہ پیش کیا بلکہ سیاسی اخلاقیات کا نیا پیمانہ طے ک

اگر دہلی میں کوئی سرکار نہیں بنی تو اکتوبر میں اسمبلی چناؤ ممکن!

مودی لہر میں بھاجپا نے مرکز میں پرچم لہرایا تو اب دہلی میں صدر راج کے دن ختم ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ دہلی کی سبھی ساتوں لوک سبھا سیٹوں پر ملی شاندار کامیابی سے خوش بھاجپا 60 اسمبلی سیٹوں پر لوک سبھا میں جیتنے کے بعد بھاجپا کا یہ خیمہ اپنی چھاتی ٹھوک کر چناؤ میدان میں اترنے کی وکالت کررہا ہے جبکہ کچھ لیڈر چاہتے ہیں جنتا کو ایک اور چناؤ میں جھونکنے سے بہتر ہے پارٹی دہلی میں سرکار بنانے کی پہل کرے۔ یہ بات دیگر ہے کہ دہلی اسمبلی کے موجودہ نمبروں کو دیکھتے ہوئے بغیر جوڑ توڑ کئے بھاجپا دہلی میں اپنی سرکار نہیں بنا پائے گی۔ پچھلے سال دسمبر میں ہوئے اسمبلی چناؤ میں بھاجپا ۔اکالی اتحاد کو 32 ، عام آدمی پارٹی کو28 اور کانگریس کو8 سیٹیں ملی تھیں۔ دوسری طرف جنتادل (یو) کو 1 اور ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوا تھا۔ واضح اکثریت نہ ملنے سے بھاجپا نے سرکار بنانے سے ہاتھ کھڑے کردئے تھے۔ قریب20 دنوں تک چلے سیاسی ڈرامے کے بعد کانگریس کے تعاون سے کیجریوال سرکار بنی اور یہ حکومت 49 دن چل سکی۔ اب جبکہ بھاجپا کے 3 ممبر اسمبلی ڈاکٹر ہرش وردھن، رمیش ودھوڑی، پرویش ورما لوک سبھا چناؤ جیت چکے ہیں صاف ہے بھاج

ہار کے سبب نہیں سونیا ۔راہل کو بچانے کیلئے بلائی گئی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ!

جیسا کے امید تھی کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس محض ایک خانہ پوری اور گاندھی کنبے کو بچانے کے لئے بلایا گیا تھا اور یہ ہی ہوا بھی۔ لوک سبھا چناؤ میں اب تک کی سب سے بری ہار کے بعد دیش بھر میں کانگریس میں اٹھ رہے ناراضگی کے تیوروں کو دیکھتے ہوئے پیر کو ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کی خاص اہمیت تھی۔لوک سبھا چناؤ میں اب تک کی سب سے بڑی شکست جھیلنے کے بعد کانگریسی ورکر پوری طرح صدمے میں ہیں اور جگہ جگہ ان میں ناراضگی کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ جن 13 ریاستوں میں کانگریس کا کھاتہ نہیں کھلا ہے وہاں زیادہ گھمسان شروع ہوگیا ہے۔ لیڈر اور ورکر ناراض ہیں۔ دہلی ، جموں وکشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، راجستھان، گجرات، گووا، اڑیسہ، جھارکھنڈ، تریپورہ ، سکم، ناگالینڈ، تاملناڈو میں پارٹی کو ایک بھی سیٹ نہیں مل سکی۔سرخیوں میں کیسے رہیں یہ کانگریس کے کچھ بڑے نیتاؤں کو اچھی طرح سے آتا ہے۔ چناؤ کے بعد الہ آبادمیں ہرطرف بھاجپا کا تذکرہ چھایا ہوا تھا اسی درمیان کچھ کانگریسیوں نے سول لائن میں واقع سبھاش چوراہے پر متنازعہ بینر لگا کر نئی بحث شروع کردی ہے۔ شہر کے دو کانگریسی عہدیداروں نے بینر کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش

نتیش کا ڈرامہ، مودی کی تنقید بھاری پڑی!

عام چناؤ میں مودی لہر نے جن پارٹیوں کے خواب چکنا چور کردئے ان میں جنتادل یو بھی شامل ہے۔ اسے صرف دو سیٹیں مل سکی ہیں جبکہ پچھلی لوک سبھا میں اس کے پاس20 ایم پی تھے۔ان پٹی ہوئی پارٹیوں میں آج کل استعفے کا دور چل رہا ہے۔ دراصل نتیجوں کی شکل میں آئے مینڈیٹ میں مودی کے تئیں زیادہ عوام میں بھروسہ بڑھا ہے۔ اس سے زیادہ اشارے ان طاقتوں کو مسترد کرنے کے ہیں جو سیکولرازم کی آڑ میں مودی کو دیش کے لئے خطرہ بنا کر پیش کررہی تھیں اس لئے اتنے وسیع مینڈیٹ کے پاس اب ان کے پاس دلیل گڑھنے کے لئے بھی کوئی مسالہ نہیں بچا ہے۔ مودی کی مخالفت والے نتیش کمار بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ انہوں نے ہار کی اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوئے بہار کے وزیر اعلی کی کرسی چھوڑدی ہے۔ لوک سبھا چناؤ میں تو نتیش کی جو بھد پٹی وہ تو ہوئی اسمبلی کی پانچ سیٹوں پر ہوئے ضمنی چناؤ میں بھی جنتادل (یو) کو محض ایک سیٹ مل سکی۔ دراصل بھاجپا سے رشتہ توڑنے کے اپنے فیصلے کے سبب لمبے عرصے سے وہ پارٹی کے اندر تنقید کے گھیرے میں تھے۔ سرکار چلانے کے لئے جن آزاد ممبران کی نتیش کمار نے حمایت لی تھی وہ بھی وزارت نہ ملنے سے ان سے ناراض تھے۔ بتایا جاتا ہ

مودی کا خوف دکھانے والی سیاسی پارٹیوں کو مسلم نوجوانوں کا کرارا طمانچہ!

مودی کی ہوا جس کو نظر نہیں آئی اس کے پاؤں مودی کے آندھی میں اکھڑ گئے۔ یہ سب سے زیادہ فٹ اترپردیش پرہوتا ہے۔ یہ ہی ملائم اور مایاوتی دن رات مودی کوکوستے نہیں تھکتے تھے۔ مودی کی ایسی سونامی آئی کہ مایاوتی کی پارٹی کا تو صفایا ہی ہوگیا اور گھر میں ہی تھم گئے سائیکل کے پہئے۔ مودی کی لہر اور سونامی پر اٹھے سوالات نے اتنا خوفناک بنادیا کہ اپوزیشن کے لئے کنبے کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔ اترپردیش میں شاندار کامیابی سے لوٹی خود بی جے پی نے بھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ رام لہر اور اٹل جی کی کویتائیں بھی یوپی میں جنتا میں جوش پیدا نہیں کرسکی تھیں جو مودی کی سونامی نے کر ڈالا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھاجپا نے ان سیٹوں پر بھی اس مرتبہ بھگوا پرچم لہرادیا جن کو جیتنا اس کے لئے خواب سے کم نہیں تھا۔ نریندر مودی کی آندھی میں مودی کے خلاف مسلم ووٹروں کو منظم کرنے کی اپوزیشن پارٹیوں کی سیاست اس مرتبہ پوری طرح فیل ہوگئی۔ اترپردیش ، بہار جیسی ریاستوں میں مسلم ووٹروں کا سیاسی طور سے پولارائزیشن کرنے والی سیاسی پارٹیاں اور اقلیتی ووٹوں کے سوداگر مودی لہر میں کیوں بہہ گئے یہ کافی دلچسپ ہے۔ایسا مانا جارہا ہے کہ پ

اتراکھنڈ کی کانگریس سرکار کا مستقبل ادھر میں لٹکا!

لوک سبھا چناؤ میں کانگریس کی انتہائی خراب پرفارمینس کے سائیڈ ایفکیٹ جلد ہی دکھائی دینے لگے ہیں۔آسام کے وزیر اعلی ترون گگوئی نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ادھر بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے بھی اپنا عہدہ چھوڑدیا ہے۔اب اتراکھنڈ میں کانگریس حکومت کا مستقبل تھوڑا ڈانواڈول لگ رہا ہے۔ کانگریس چھوڑ بی جے پی میں آئے پی ڈی گڑھوال کے ایم پی رہے سرکردہ لیڈر ستپال مہاراج نے کہا کہ اب جلد ہی دہرہ دون میں بھی کمل کھلے گا۔ ان کا کہنا ہے اتراکھنڈ کانگریس کے ممبران اسمبلی اور وزرا کا بھی بی جے پی میں خیر مقدم ہے۔ ستپال نے لوک سبھا چناؤ کے عین وقت پر کانگریس کا دامن چھوڑ کر بھاجپا میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ وزیر اعلی ہریش راوت اسی دن سے اپنی حکومت بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ستپال مہاراج کی اہلیہ امرتاراوت خود کانگریس سرکار میں وزیر ہیں۔سرکار میں ستپال کے قریبی اب بھی چار پانچ ایم ایل اے ہیں۔ جب دو مہینے پہلے ستپال نے کانگریس چھوڑ کر بھاجپا کا دامن تھاما تھا تبھی سے سرکار پر خطرہ منڈلا رہا تھا لیکن اس وقت عام چناؤ کو دیکھتے ہوئے بی جے پی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتی تھی جس سے چناؤ پر اث

حیرت انگیز، ناقابل یقین اور تاریخی ٹرننگ پوائنٹ ہے یہ چناؤ!

یہ تو کمال ہی ہوگیا جنہیں مودی کی ہوا نہیں دکھی اب مودی کی آندھی میں ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ دیش واسیوں نے تشٹی کرن، جاتیواد اور سماجک سمی کرنوں کو نکارتے ہوئے ایک جٹ ہوکر وکاس کے لئے، بہتر مستقبل کیلئے نریندر مودی کو ووٹ دیا۔ایگزٹ پول بھی غلط ثابت ہوئے۔ جتنی سیٹیں عام طور پر بھاجپا کو دکھائی جارہی تھیں اس سے بھی زیادہ آئیں۔ ٹائمس ناؤ جیسے ٹی وی چینل جس نے بھاجپا کو 249 ، کانگریس کو148 اور دیگر کو 146 سیٹوں کی بھوشوانی کرکے جنتا کو گمراہ کیا انہیں منہ کی کھانی پڑی۔ سب سے قریب ایک بار پھر نیوز24 ٹوڈے چانکیہ ثابت ہوا جس میں بھاجپا 340، کانگریس کو70 اور دیگر کو133 سیٹیں دی گئی تھیں۔ نومبر کے دہلی اسمبلی انتخابات کے وقت بھی ان کا ہی سروے صحیح ثابت ہوا تھا۔عام طور پر سوائے ٹائمس ناؤ۔ او آر جی کے باقی سبھی سروے صحیح ثابت ہوئے۔تین دشک بعد نریندر مودی کی لہر پر سوا بھاجپا نے اکیلے دم پر 272+ سیٹوں سے آگے پہنچنے کا کرشمہ کردکھایا۔ پردھان منتری امیدوار کے طور پر مودی نے بڑودہ سیٹ پر 5لاکھ70 ہزار ووٹ سے جیت کر بھارتیہ چناؤ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔وارانسی سے بھی ان کی جیت شاندار رہی انہوں نے