اشاعتیں

دسمبر 8, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

دہلی کی جنتا کے مینڈیٹ کی توہین کررہے ہیں کیجریوال!

یہ ٹھیک ہے اسمبلی چناؤ میں دہلی کی عوام نے کانگریس سرکار کے خلاف منفی مینڈیٹ دیا ہے اور ساتھ ہی ووٹ دیا ہے لیکن ووٹ دیتے وقت یہ نہیں سوچا کہ کانگریس کی جگہ کون لے گا؟ اگر وہ عام آدمی پارٹی کو اکثریت دے دیتے یا بھاجپا کوچار پانچ سیٹیں زیادہ دے کر جتاتے آج دہلی میں سیاسی شش و پنج کے حالات نہ دیکھنے پڑتے۔ آج سبھی پریشان ہیں جو جیتا ہے وہ بھی اور جو ہارا ہے وہ بھی۔ اسمبلی چناؤ میں کسی کو اکثریت نہ دے کر چناؤ جیتے ممبران اسمبلی کو تو الجھن میں ڈال دیا ہے ساتھ ہی وہ امید وار بھی کم پریشان نہیں جو چناؤ ہار گئے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے جیتے ہوئے امیدواروں میں کچھ تو ایسے بھی ہیں جن کو جیت کے بعد ان کے حمایتی جب مبارکباد دینے آتے ہیں تو ان کے پاس چائے پلانے کے لئے پیسہ تک نہیں ہے۔وہ امیدلگائے بیٹھے ہیں کہ ’آپ‘ پارٹی سرکار بنائے اور انہیں اقتدار کا ذائقہ لینے کو ملے گا۔ جو ہارے ہیں انہیں یہ پریشانی ستا رہی ہے کہ انہیں دوبارہ ٹکٹ ملے گی یا نہیں؟ سیاسی گلیاروں میں بڑی پارٹیاں سرکار بنانے کو لیکر گیند ایک دوسرے کے پالے میں ڈال رہی ہیں۔ بھاجپا نے تو لیفٹیننٹ گورنر کو لکھ کر دے دیا ہے کہ وہ سرکار ن

لال، نیلی بتی اسٹیٹس سمبل بن گئی ہے!

دیش کو آزاد ہوئے ساڑھے چھ دہائی گزر چکی ہیں لیکن انگریزوں اور سامنت شاہی کی علامت لال بتی کے رتبے کا چلن آج بھی چل رہا ہے۔ لال یا نیلی بتی والی گاڑیوں میں چلنا ایک اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے جو ہمیں سامنتی کلچر کی یاد دلاتا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے سپریم کورٹ نے ایسی حکم دیا ہے جس سے عام شہری کو راحت اور خوشی محسوس ہوگی۔ حالانکہ اس کو لیکر سپریم کورٹ نے ناراضگی جتائی ہے۔ ویسے یہ پہلا موقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ دونوں مرکز اور ریاستی سرکاروں کو لال بتی اور سائرن والی گاڑیوں کے بیجا استعمال پر جھاڑ پلا چکی ہے ۔ اب اس نے ہدایت دی ہے کہ گاڑیوں میں لال بتی کا استعمال آئینی اور اعلی عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو ہی کرنا ہوگا۔ ان میں صدر ، وزیر اعظم، کیبنٹ وزیر،کچھ سینئرافسر اور کچھ سینئر جج آتے ہیں۔ اس حکم کو سختی سے نافذ کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے کہا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاستی سرکاریں اس فہرست میں بدلاؤ نہیں کرسکتیں ۔ یعنی منمانی ڈھنگ سے لال بتی نہیں بانٹ سکتیں۔ اب تک ہوتا رہا ہے کہ ہر ریاستی سرکار اتنی فراغ دلی سے لال بتی بانٹتی تھی کہ تقریباً ہر سیاسی رسوخ والا آدمی چھوٹا بڑا

شکست کے بعدکانگریس میں اندر اور باہر لیڈر شپ پر اٹھے سوال!

جیسا کہ میں نے اسی کالم میں اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ چار ریاستوں میں کراری ہار سے کانگریس کے اندر اور اس کے ساتھیوں میں لیڈر شپ کے خلاف بغاوتی آوازیں اٹھنے لگیں گی۔ ویسا ہی اب دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آخر ہار کی ذمہ داری کسی کو تو لینی پڑے گی اس سے بھی زیادہ اہم شاید یہ ہے کہ 2014ء کے عام چناؤ کے لئے کانگریس کی قیادت کون کرے گا؟ پہلے بات کرتے ہیں کانگریس کے اندر اس شرمناک ہار کے بعد اٹھی بغاوت کی آوازیں۔ اگر ہم دہلی سے شروع کریں تو سابق وزیر اعلی شیلا دیکشت نے ہار کی سب سے بڑی وجہ پارٹی کے سینئر لیڈروں سے تعاون نہ مل پانے کو بتایا۔ان کا اشارہ صاف طور پر دہلی پردیش کانگریس کے پردھان جے پرکاش اگروال کی جانب ہے۔ یہ صحیح ہے کہ دہلی اسمبلی چناؤمہم میں اکیلی شیلا جی ہی دن رات ریلیوں میں تقریر کرتی نظر آئیں۔ اس کے پیچھے جے پرکاش اور شیلا جی کے درمیان کافی عرصے سے 36 کا آنکڑا بھی ایک وجہ تھی۔ جے پرکاش کا کہنا تھا کہ شیلا جی ہمیشہ اپنی مان مانی کرتی تھیں اور کہیں بھی انہوں نے انہیں ساتھ لینے کی کوشش نہیں کی۔ راجستھان سے بھی اشوک گہلوت حمایتی اب کھل کر نائب صدر راہل گاندھی پر یہ کہتے ہوئے الزام لگ

حالیہ اسمبلی انتخابات میں بھاجپا کی جیت کیامودی فیکٹر کو جاتی ہے؟

چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتیجے آنے کے بعد اب یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا یہ نتائج بی جے پی کے پی ایم اِن ویٹنگ نریندر مودی کی لہر کی وجہ سے آئے ہیں یا پھر اس کا سہرہ ان چار ریاستوں کے موجودہ وزرائے اعلی اور اِن ویٹنگ وزرائے اعلی کو جاتا ہے؟ یہ سوال اس لئے اٹھا ہے کیونکہ نریندر مودی نے ان چار ریاستوں میں زور دار طریقے پر چناؤ مہم میں حصہ لیا لیکن ایکطرفہ جیت تین ریاستوں میں ملی۔ چوتھی ریاست دہلی جہاں مودی نے بہت محنت کی۔ پارٹی اکثریت تک نہیں لاسکی۔ یہ ہی نہیں بلکہ دہلی میں تو پارٹی کا ووٹ فیصد پچھلے اسمبلی چناؤ سے بھی گھٹ گیا؟ سب سے پہلے تو ہمارا خیال ہے کہ لوک سبھا چناؤ نہیں جہاں مودی کی مقبولیت کا امتحان ہونے والا ہے یہ اسمبلی انتخابات ہیں جو ریاستی سرکاروں کی کارگزاری، ساکھ، وزیر اعلی کی مقبولیت ، مقامی اشوز پر لڑا گیا نہ کے نریندر مودی کی شخصیت پر لڑا گیا۔ کانگریس تو یہ کہے گی کہ بی جے پی مودی کی لہر کی وجہ سے نہیں کامیاب ہوئی۔ مدھیہ پردیش کے جوتر ادتیہ سندھیہ نے ریاست میں بی جے پی کی جیت کا سہرہ مودی کے سر باندھنے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جیت کی اصلی وجہ مودی نہی

دہلی اسمبلی چناؤ2013 نتائج کے دلچسپ منظر!

دہلی میں کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت نہ دے کر دہلی کے رائے دہندگان نے اس تاریخی چناؤ کا ذائقہ تھوڑا کرکرا ضرور کردیا ہے۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ یا تو بھاجپا کی سیٹیں بڑھا دیتے یا پھر عام آدمی پارٹی کو اکثریت دے دیتے۔ اب کسی کو واضح اکثریت نہ مل پانے کے سبب معلق اسمبلی کے صورتحال سامنے آئی ہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں میں سے کوئی بھی کسی کو حمایت دینے یا لینے کو تیار نہیں ہے۔ حکومت بنانے کے لئے سب سے بڑی پارٹی کی شکل میں ابھر کر آئی بھاجپا کو چار اور دوسرے نمبر پر آئی عام آدمی پارٹی کو 8ممبران کی حمایت چاہئے۔ یہ دونوں کے لئے حاصل کرپانا آسان نہیں ہے۔ ایسے میں کیا متبادل ہوسکتے ہیں نمبر ایک :سب سے بڑی پارٹی کے ناطے بھاجپا حکومت بنانے کا دعوی کرے یا پھر انتظار کرے کے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ صاحب ڈاکٹر ہرش وردھن کو دعوت دیں۔ نمبر دو: بھاجپا کودعوت ملے اور یقینی وقت میں ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کو کہیں۔ بھاجپا اس کو منظور کر بھی لیتی ہے تو اس کے لئے اکثریت ثابت کرنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہے جب کانگریس میں ٹوٹ پھوٹ ہوجائے اور اس کے دو تہائی ممبران حمایت دے دیں۔ لیفٹیننٹ گورنر

اسمبلی انتخابات 2013 کے نتائج کانگریس کیلئے سبق!

کیا ہے اسمبلی چناؤ کے نتائج2013 کا پیغام؟جنادیش کانگریس پارٹی کے خلاف ہے۔ یہ کرپشن، گھوٹالوں اور مہنگائی،عورتوں کی عدم سلامتی اور سب سے زیادہ کانگریس کے غرور اور برتاؤ کے خلاف ہے۔ جنتا اب ماننے لگی تھی کہ چاہے وہ مرکز کی کانگریس سرکار ہو یا دہلی کی شیلا دیکشت سرکار ہو ، انہیں اتنا غرور ہوگیا ہے کہ اب انہیں جنتا کے دکھ درد کی قطعی پرواہ نہیں رہ گئی ہے۔ مہنگائی سے گرہستن کس طرح سے مقابلہ کررہی ہیں اس کی کانگریس پارٹی کو قطعی پرواہ نہیں تھی۔نوجوانوں میں اپنے مستقبل کو لیکر کتنی فکر تھی اس سے اس سرکار کو کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ کانگریس نے تو مان لیا تھا کہ وہ زندگی بھر اقتدار پر قابض رہنے کیلئے پیدا ہوئی ہے بھلے ہی جنتا کچھ بھی سوچے، کچھ بھی کہے۔آج سے کچھ برس پہلے تک کرپشن کوئی اشو نہیں تھالیکن بدعنوانی کے سبب جب گھوٹالے پر گھوٹالے کا پردہ فاش ہوا اور پچھلے دو تین سال میں تو سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے تو عوام نے اس گھوٹالوں کو سیدھے مہنگائی سے جوڑنا شروع کردیا۔ عوام ماننے لگی کہ ان گھوٹالوں کی وجہ سے ہی آسمان چھوتی، کمر توڑ مہنگائی ہوئی ہے۔ اسے پکا یقین اس وقت ہوا جب اسے لگنے لگا کہ یہ سرکار

آخر کار نارائن سائیں پولیس شکنجے میں پھنسے!

پچھلے تقریباً دو مہینے سے تمام ریاستوں کی پولیس کو چکمہ دے رہے آسا رام کے بیٹے نارائن سائیں آخرکار پولیس کے شکنے میں پھنس ہی گئے۔ بقول ڈی سی پی کرائم کمار گنیش’’آپریشن نارائن سائن‘‘ گذشتہ دو مہینے سے اس کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے میں لگی ہماری ٹیم کو ڈرائیور رمیش کے جانکار کے ذریعے سوموار دوپہر اطلاع ملی کہ وہ پنجاب میں ہے۔ اس کے بعد ایک ٹیم کو پنجاب کے لئے روانہ کردیا گیا۔وہاں پتہ چلا کہ لدھیانہ میں وہ کچھ دنوں سے ٹھہرا ہوا ہے۔ منگلوار کو لدھیانہ پہنچنے پر پتہ چلا کہ وہ دہلی کی طرف روانہ ہو گیا ہے۔ اس کا پیچھا کرتے ہوئے 31 پولیس والے جب انبالہ پہنچے تو انہیں ایک مشتبہ کار نظر آئی جس کا پیچھا کرتے ہوئے جیسے ہی نارائن کی یہ کار منگلوار رات تقریباً10بجے دہلی سرحد پر پیپلی پہنچی تو کرائم برانچ کی ٹیم نے اسے آخر کار اوور ٹیک کر روک لیا اور گھیر لیا۔ نارائن سائیں کی گاڑی سے پولیس کو کئی مشتبہ اور قابل اعتراض سامان ملا۔ اس کے پتا آسا رام کی گرفتاری کے بعد نارائن سائیں کو یقین ہو چلا تھا کہ اب اس پر بھی ایف آئی آر درج ہوگی۔ پولیس اسے بھی اپنے چنگل میں لے لے گی۔ اسی ڈر سے نارائن سائیں ف

دودھ میں ملاوٹ کرنے والوں کو ملے عمر قید!

کھانے پینے کے سامان میں جتنی ملاوٹ ہمارے دیش میں ہوتی ہے شاید ہی کسی دوسرے دیش میں ہوتی ہو۔اس کی اہم وجہ ہے مرکزی سرکار اور ریاستی سرکاروں کا عوام کے تئیں اسنویدناہونا۔نہ انہیں مردوں کی صحت کی فکر ہے نہ خواتین کی اور نہ ہی بچوں کی۔ ان کی لاپرواہی کا ہی نتیجہ ہے کہ عزت مآب سپریم کورٹ کو دودھ میں ملاوٹ جیسے مدعے پر سختی سے بولنا پڑا ہے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ نے کہا کہ دودھ میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف عمر قید کی سزا کی شرط ہونی چاہئے۔ عدالت نے کہا کہ فی الحال اس جرم سے نپٹنے کے لئے موجودہ قانون (دفعہ272) سخت نہیں ہے نہ ہی فوڈ سکیورٹی ایکٹ کافی ہے۔ سزا کی شرط بھی صرف 6ماہ کی ہے۔ملک میں ریاستی سرکاروں کو اترپردیش ، اڑیسہ اور پشچمی بنگال کی طرز پر قانون میں ترمیم کر سخت سزا، عمر قید کی شرط رکھنی چاہئے۔ سپریم کورٹ نے ریاستوں کے ڈھلمل رویئے پر کڑی ناراضگی جتاتے ہوئے کہا کہ سنتھیٹک دودھ میں ملائے جانے والی اجزاء صحت کے لئے نقصاندہ ہیں۔ اس کے باوجود سرکاریں لاپرواہ ہیں۔ ریاستوں کے جواب پر ناراضگی ظاہرکرتے ہوئے عزت مآب عدالت نے یوپی ،اتراکھنڈ،ہریانہ، راجستھان، دہلی، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور