اشاعتیں

مئی 19, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

پیرس میں رافیل دستاویزوں کی کوشش

انڈین ائیر فورس کے پیرس میں قائم دفتر میں اتوار کی صبح گھسنے کی کوشش کی گئی یہ دفتر ائیر فورس کی رافیل پروجکٹ مینجمینٹ ٹیم کا ہے جو وہاں بھارت کے لئے 36رافیل جنگی جہاز کی پروڈکشن کی نگرانی کر رہا ہے یہ دفتر فرانس کی دی سالٹ اے وی ایشن کمپنی کے کمپلیکس میں ہے ۔جسے بھارت سرکار نے جنگی جہازوں کا آرڈر دیا ہے ڈیفنس وزارت کے حکام کے مطابق ائیر فورس کی وہاں تعینات ٹیم فرانس میں 36جنگی جہازوں کی پروڈکشن پر نظر کے ساتھ ہندوستانی پائلٹوں کو ٹرینگ کی ذمہ داری بھی سنبھال رہی ہے یہ جاسوسی کا معاملہ ہے پیرس میں قائم ہندوستانی سفارتخانہ فرانس کے حکام کے رابطے میں ہے حکام نے بتایا کہ کچھ نا معلوم لوگ پیرس کے سب سٹی علاقہ میں انڈین ائیر فورس کے رافیل پروجکٹ دفتر میں گھس پیٹھ کی کوشش کر رہے تھے اور اس کی وجہ جاسوسی ہو سکتی ہے یا پھر کچھ اور ذرائع نے بتایا کہ شروعاتی جانچ میں کسی ہارڈ وئیر یا ڈاٹا کہ چور ی کی کوئی خبر نہیں ہے مقامی پولس جانچ کر رہی ہے ۔وہیں رافیل سے جڑے خفیہ دستاویزوں کی چوری کی کوشش تو نہیں ہے حالانکہ ابھی تک انڈین ائیر فورس و وزارت دفاع یا فرانس کے سفارتخانے نے اس واردات پر کوئی با ق

کمار سوامی کی مکھیہ منتری کرسی ڈگمگائے گی؟

لوک سبھا چناﺅکے آئے نتائج کا سیدھا اثر کرناٹک پر پڑنے کا امکان ہے مرکزی وزیر صدا نند گوڑا نے بینگلورو میں بدھوار کو دعوی کیا تھا کہ چوبیس مئی تک کمار سوامی کی قیادت والی کانگریس جے ڈی اےس اتحادی سرکار گر جائے گی ۔انہوںنے کہا کہ ایس ڈی کمار سوامی چوبیس مئی تک مکھیہ منتری رہیں گے ایسی قیاس آرائیاں ہیں ۔چناﺅ کے نتائج کا کرناٹک میں اتحادی حکومت کے وجود پر اثر ڈالے گا ۔ایگزیٹ پول میں جتایا گیا تھا کہ کانگریس جے ڈی ایس اتحاد کے لوک سبھا چناﺅ میں خراب کارکردگی پیش کر سکتی ہے۔دونوں پارٹیوںنے اتحاد کر کے لوک سبھا چناﺅ لڑا تھا اب کرناٹک میں کانگریس جے ڈی ایس سرکار مشکل بحران میں پھنس گئی ہے کرناٹک میں بیتے سال بھاجپا کے سب سے بڑی پارٹی کی شکل میں ابھرنے کے بعد سرکار بنانے کا موقعہ تو مل گیا لیکن وہ ضروری اکثریت ثابت نہیں کر سکی ۔اس کے بعد کانگریس نے تیسرے نمبر کی پارٹی جے ڈی ایس کے ساتھ اتحاد کر سرکار بنائی اور ریاست کی 225ممبری اسمبلی میں دو سیٹیں خالی ہیں ایسے میں اکثریت کا نمبر 112ہے بھاجپا کے 104ممبر اسمبلی ہیں اور اس کے ساتھ ایک آزاد ممبر ایک کے پی جی پی کے ممبر اسمبلی ہیں ۔بھاجپا کو اکثر

بیانوں سے چوکے ،چھکے لگانے والے نو جوت سنگھ سدھو

کرکٹ کی پچ ہو یا سیاسی میدان نو جوت سنگھ سدھو ہمیشہ تنازعات میں رہتے ہیں بات1996کی ہے جب انگلینڈ میں جاری سریز کے دوران کیپٹن محمد اظہر الدین سے اختلاف ہونے کے سبب کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو دورے کو بیچ میں چھوڑ کر وطن واپس آگئے تھے 23سال بعد کردار ضرور بدل گئے ہیں لیکن سدھو کا مزاج آج بھی وہی ہے ایک بار پھر ان کی اپنے کپتان(امریندر سنگھ) سے نہیں بن رہی ہے ۔اس بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ ان کے نشانے پر ہیں ۔بیشک سدھو کی زبان ہی مضبوطی ہے ۔جیسا کہ ہم نے 2019لوک سبھا چناﺅ کمپین میں دیکھا لیکن اکثر وہ جھنجھلاہٹ میں آکر اکثر وہ کئی باتیں کر جاتے ہیں جس سے پارٹی کو فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہو جاتا ہے ۔نوجو ت سنگھ سدھو ایک ایسا نام ہے جو کرکٹ کی دنیا میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد ٹی وی کی گلیمر بھر ی دنیا میں خوب چمکے بھاجپا کا ساتھ چھوڑ کر کانگریس کا ہاتھ تھامنے والے سدھو اس وقت پنجاب کیبنیٹ میں وزیر ہیں ۔مگر اب ایسا تذکرہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے چل رہے ٹکراﺅ اور لوک سبھا کے سیاسی میدان میں انہیں یا ان کی پارٹی کو اتارنے کا موقعہ نا دئے جانے کا ملال ا نہیں ہے ۔سدھو کے متناز

مودی سرکار کو روکنے کےلئے گٹھ بندھن حکومت کی کوشش

بےشک تمام ایگزیٹ پول بھاجپا کو واضح اکثریت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں لیکن اپوزیشن پارٹیوں کو ابھی بھی یقین ہے کہ معلق پارلیمنٹ آنے کا امکان ہے ۔عام چناﺅ کے نتیجوں سے ٹھیک پہلے اپوزیشن خیمے میں ہلچل تیز ہو گئی ہے پورے مہا سمر میں موٹے طور پر غائب رہیں یو پی اے کی چیر پرسن سونیا گاندھی سیاسی طور سے آخری وقت میں سرگرم ہو گئی ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی بھاجپا صدر امت شاہ کی جوڑی سے نمٹنے اور جوڑ توڑ کے لئیے وہ اپوزیشن کے تمام لیڈروں سے بات چیت کر رہی ہیں ۔سونیا گاندھی کی اس مورچہ بندی میں ان کے اہم ساتھی ڈی ایم کے کے سروے سروا ایف ایم کے اسٹالئن ،کانگریس کے ساتھی سرکردہ لیڈر شردپوار ،مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کملناتھ ہیں ۔یو پی اے چیر پرسن کی نگاہیں اس کے علاوہ بہا رکے وزیر اعلیٰ و جے ڈی یو صدر نتیش کمار کے ساتھ لوک جن شکتی پارٹی کے رام ولاس پاسوان کو بھی این ڈی اے سے توڑنے پر ٹکی ہیں ۔در اصل اپوزیشن خیمہ کسی بھی حالت میں بی جے پی یا این ڈی اے کی سرکار بننے نہیں دینا چاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ جمعرات 16مئی 2019کو کانگریس نے ایک بڑی قربانی کرنے کا اشارہ دیتے ہوئے پارٹی کے سینر لیڈر غلام نبی آزاد

ان ایگزیٹ پولزکا ٹریک ریکارڈ

ساتویں مرحلے کے پولنگ کا وقت گزرنے کے بعد ہی لوک سبھا چناﺅ 2019کے ایگزیٹ پول اتوار کی شام آنے شروع ہو گئے تھے حالانکہ ووٹوں کی گنتی 23مئی جمعرات کو ہوگی ۔لیکن الگ الگ ایجنسیوں کے پول مختلف چینلوں پر آتے ہی سیاسی بحث کا نیا دور شروع ہو گیا ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے جیسے اصلی نتیجے بھی ایسے ہی ہوں گے کہ کوشش ہوتی ہے ۔نتیجوں کو لے کر ایک تصویر سامنے آئے لیکن بھارت کا تجربہ رہا ہے کہ اس طرح کے پول سے غلط فہمی زیادہ پھیلتی ہے اگر ہم ماضی گزشتہ کے ایگزیٹ پول کو دیکھیں تو یہ اندازے کئی بار غلط ثابت ہوئے ہیں ۔اکثر سوال اٹھتا کہ ایگزیٹ پول پختہ تجزیہ کرتا ہے یا پھر اسے محض اندازے اور ٹرینڈ کے طور پر تیار کیا جاتا ہے اگر ہم پچھلے اہم چناﺅں اور ان کے ایگزیٹ پول پر نظر ڈالیں تو پائیں گے کہ اصل نتیجہ اور ایگزیٹ پول میں کافی فرق نظر آتا ہے 2004کے لوک سبھا چناﺅ میں این ڈی اے کو اقتدار سے باہر ہونے کا اندازہ کوئی نہیں لگا پایا تھا ۔وہیں تیسرے مورچے کے مضبوط پردردشن کا تجزیہ سبھی نے کیا تھا جس کا نتیجہ ایگزیٹ پول غلط ثابت ہونے کی شکل میں سامنے آیا 2004کے چناﺅ میں زیادہ تر ایگزیٹ پول یعنی چناﺅ کے بعد

کیا ہر سیٹ پر مودی چناﺅ لڑ رہے تھے؟

2019کا لوک سبھا چناﺅ باقی انتخابات سے مختلف رہا ایسا لگتا تھا سارے 542لوک سبھا سیٹوں پر ایک ہی شخص چناﺅ لڑ رہا ہے آپ کسی سے پوچھو کہ آپ کس کو ووٹ دیں گے ؟جواب آتا تھا نریندر مودی کو آپ اگر ان سے چناﺅ لڑ رہے اس علاقہ کے امیدوار کا نام پوچھیں تو بہت سو کو تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کے علاقہ سے امیدوار کون ہے ؟کیا پی ایم نریندر مودی دیش میں ایک حکمت عملی کے تحت امیدواروں کی جگہ سیدھے اپنے لیئے ووٹ مانگ رہے تھے ؟کیا اس حکمت عملی میں امیدوار گویا اور مودی کا چہرہ ہی ہر پارلیمانی حلقہ میں پیش کرنے کی حکمت عملی نے اپنا اثر دکھا دیا ۔کم سے کم ایگزیٹ پول تو یہی کہہ رہے ہیں کہ اس چناﺅ کے سفر میں بی جے پی کی گو ڈپلومیسی نظر آئی اس سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ 2019کا لوک سبھا چناﺅ اب تک کا سب سے اثر دار صدارتی اسٹائل کا چناﺅ رہا ہے 2014میں بھی بی جے پی مودی لہر کے بھروسے 282سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی لیکن تب وہ اپوزیشن میں تھی اس مرتبہ مودی نے اقتدار مخالف لہر کے سامنے خود کو کھڑ اکر چناﺅ کی سمت موڑنے میں کامیابی حاصل کر لی ۔دراصل اپوزیشن کو اس بات کا احساس تھا کہ این ڈی اے کے پانچ سال کے عہ

چناﺅی دنگل ختم ہوا،اب داﺅں کی جنگ

2019لوک سبھا چناﺅ کا پروسیز 9مئی کو آٹھ ریاستوں میں 59سیٹوں پر پولنگ کے ساتھ ختم ہو گیا ہے ۔اب میدان میں لڑائی ختم اب داﺅں کی جنگ چھڑی ہوئی ہے 23مئی تک جب ای وی ایم کھلے گی داﺅں کا یہ سلسہ جب تک جاری رہے گا اور 19مئی کی شام چھ بجے سے ایکزٹ پول شروع ہو گئے اور سب نے 23مئی تک ہر ٹی وی چینل پر بحث دکھانے کا ودہ کیا ہے ۔اور سب کو ہر ٹی وی چینل پر بحث دیکھنے کو ملے گی کون پارٹی جیت رہی ہے ۔جو جیت رہا ہے وہ خاموش رہے گا جو ہار رہا ہے وہ نتیجوں کو غلط بتائے گا مثال دے گا فلاں ،فلاں ایگزیٹ پول غلط ثابت ہوئے تھے اپنی آخری ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ جمہوریت میں چناﺅ سرکار بنانے کے لئے ہوتے ہیں کھرگون میں ایک ریلی میں کہا کہ سیاسی پارٹیاں اور امیدوار آپ سے اپنی اپنی نیت اور پالیسی کے حساب سے ووٹ مانگتے ہیں ۔لیکن 2019کا چناﺅ دیگر انتخابات سے مختلف ہے اس چناﺅ کی قیادت جنتا کر رہی ہے ۔دیش آج کشمیر سے کنیا کماری اور کچھ سے کانگروپ پورا دیش کہہ رہا ہے اب کی بار پھر مودی سرکار اور تین چار دن سے میں یہ سن رہا ہوں اب کی بار تین سو سے پار انہوںنے کہا کہ دہشت گردی نکسل وار کو ختم کرنے کا

آخری دو پریس کانفرنس کا قصہ

ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں ممکنہ طور پر ایسا پہلی بار ہوا جب وزیر اعظم عہدے کے دو دعویدار ایک وقت پر ایک ہی شہر میں اپنے اپنے ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ پریس کانفرنس میں مکمل سیاسی داﺅں پیچ کے ساتھ موجود تھے ۔خاص بات یہ رہی کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پانچ برس کے اپنے عہد میں کسی پریس کانفرنس میں شرکت کی تھی جمعہ کی شام لمبے چناﺅ کمپین کے اختتام پر بھی یہی لمحے تھے اور دونوں نیتا اپنی چناﺅی ریلیاں ختم کر راجدھانی لوٹے تھے ۔بھاجپا صدر امت شاہ کی پریس کانفرنس میں پردھان منتری نریندر مودی کی موجودگی حیرت انگیز رہی کیونکہ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ پارٹی صدر کی پریس کانفرنس میں پردھان منتری پہلی بار شام ہو دوسری بات ایک بھی سوال کا جواب نہ دیں یہ سمجھ میں نہیں آیا ۔آخر جب پانچ سال میں وزیر اعظم نے ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی تو امت شاہ کی پریس کانفرنس میں شرکت کرنے کا مقصد کیا تھا بھاجپا ہیڈ کوارٹر میں پارٹی صدر امت شاہ کی پریس کانفرنس پہلے سے طے تھی لیکن سب کو چونکاتے ہوئے زیر اعظم مدھیہ پردیش کے کھرگون میں اپنی آخری ریلی کے بعد سیدھے بھاجپا ہیڈ کوارٹر پہنچے تھے ۔انہوںنے اخباری نمائندوں کے خط

ذات پات کے تجزیہ میں پھنسے منوج سنہا

شہیدوں کی سرزمین سے مشہور پوروانچل کی غازی پور سیٹ اس مرتبہ وکاس بنام ذات پات کی لڑائی ہے ۔غازی پور سے بھاجپا امیدوار مرکزی وزیر مماثلات و ریل منوج سنہا کے وکاس کاموں کا خوب تذکرہ کر رہے ہیں لیکن سپا بسپا اتحاد کا ذات پات کا تجزیہ بھاجپا کے لئے سخت چیلنچ بن گیا ہے ۔اس مرتبہ غازی پور لوک سبھا سیٹ پر سنہا کے خلاف گٹھ بندھن کے امیدوار افضال انصاری ہیں ۔پوروانچل کے دبنگ مختار انصاری کے بھائی افضال 2004سے 2009تک یہاں سے ایم پی رہے 2014میں لوک سبھا چناﺅ میں مودی لہر کے درمیان سخت مقابلے میں منوج سنہا 33ہزار ووٹ سے کامیاب ہوئے تھے جبکہ سپا بسپا نے الگ الگ چناﺅ لڑا تھا اب ان دونوں کے ساتھ آنے سے غازی پور سیٹ پر سماجی تجزیہ پوری طرح سے بدل گیا ہے ۔یہاں سب سے زیادہ یادو ووٹر ہیں اس کے بعد دلت اور مسلم ووٹر ہیں ان تنیوں برادریوں کے ووٹ کی تعداد غازی پور ،پارلیمانی سیٹ کے کل ووٹوں کی تعداد کی تقریبا آدھی ہے ۔جو منوج سنہا کے لئے چنوتی بنے ہوئے ہیں ۔غازی پور کے مقامی لوگ مانتے ہیں کہ ضلع میں کام ہوا ہے لیکن ہار جیت کے بارے میں کوئی صاف رائے نہیں بتاتا منوج سنہا حلقہ میں پچھلے پانچ برسوں میں ہوئے ک

سنگھ کے گڑھ ایم پی میں کانگریس کی چنوتی

لو ک سبھا چناﺅ آخری مرحلے آج 19مئی مدھیہ پردیش میں جن سیٹوں پر مقابلہ ہونا ہے سال 2014میں بھاجپا نے مالوا نمکاڈو کی یہ سیٹیں جیت کر تاریخ رقم کی تھی لیکن اسمبلی چناﺅ میں ملی کامیابی سے گدگد کانگریس کم سے کم چار سیٹیں جیتنے کی امید کر رہی ہے وہیں بھاجپا مودی کے دم پر پچھلا نتیجہ دہرانے کا دعوہ کر ہی ہے اس نے چھ سیٹوں پر اپنے امیدوار بدلے ہیں ۔مغربی مدھیہ پردیش کا علاقہ شروع سے ہی آر ایس ایس کے زیر اثر رہا چناﺅ ہو یا نہ ہو سنگھ وہ ان کی انجمنوں کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں اور بھاجپا جیسی طاقت بھی یہی ہے وہیں کانگریس عام طور پر چناﺅ کے وقت ہی میدان میں دکھائی پڑتی ہے کئی لوگ کہتے ہیں کانگریس کی مہم ون ڈے اور ٹی 20کی طرح ہوتی ہے کمرشیل راجدھانی اندور سنگھ کا گڑھ ہے لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن نے 1989میں جیت کی شروعات کی تھی وہ تیس سال سے برقرا ر ہے تائی کے نام سے مشہور سمترااس مرتبہ میدان میں نہیں ہیں تائی کے انکار کے بعد بھاجپا نے لاوانی کو میدان میں اتارا ہے کانگریس نے پنکج سنگھوئی کو پھر موقع دیا ہے سنگھوئی وزیر اعلیٰ کملناتھ کی پسند ہیں ۔اور انہیں بھاجپا کی اندرونی رشہ کسی کا فائدہ مل

اب بنارس میں مودی کا مقابلہ خود مودی سے

وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف یوں تو 25امیدوار کھڑے ہیں لیکن مودی کا مقابلہ خود ہی سے ہے ۔پچھلی بار 2014میں مودی کےخلاف 41امیدوار تھے اور وہ 371784 ووٹ سے جیتے تھے لیکن اس مرتبہ یہ تعداد گھٹ کر 25ہو گئی ہے ا س کے باوجود ان کے خلاف ایک چھوٹا بھارت چناﺅ لڑ رہا ہے یہ اسپیشل 25امیدوار آندھرا پردیش مہاراشٹر ،چھتیس گڑھ ،بہار،کیرل،اتراکھنڈ سمیت کئی ریاستوں کے ہیں اور ان سے ہر ایک یہاں کچھ نہ کچھ اشو اٹھانے آئے ہیں ۔مہاراشٹر کے ایک کسان آنند راﺅ پاٹل مہاتما گاندھی کی طرح کپڑے پہنتے ہیں گلے میں ان کا فوٹو لٹکا ہوا ہے وہ کہتے ہیں میں یہاں مودی کو ہرانے نہیں آیا ہوں بلکہ ان کی توجہ کسانوں کی بد حالی اور کرپشن کہ طرف دلانے آیا ہوں ہاکی کھلاڑی اولمپین مرحوم محمد شاہد کی بیٹی ہنا شاہد بھی مودی کے خلاف چناﺅ لڑ رہی ہیں وہ پارلیمنٹ اس لئے جانا چاہتی ہیں تاکہ عورتوں کا اشو اُٹھا سکیں حالانکہ میں جانتی ہوں کہ میں مودی کو نہیں ہرا سکتی لیکن کسی کو اس لئے گھر نہیں بیٹھنا چاہیے کہ مودی ایک مضبوط امیدوار ہیں ایسے ہی سپا اور کانگریس سمیت 25امیدوار میدان میں ہیں ۔ اس میںشالنی یادو،اور کانگریس کے سابق ممبر اس