اشاعتیں

اگست 31, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

موٹر وہیکل ایکٹ کی جگہ روڈ ٹریفک ایکٹ لائق تحسین کوشش!

سڑک حادثات کی بڑھتی تعداد پر کنٹرول کرنا انتہائی ضروری ہوگیا ہے۔ یہ تشفی کی بات ہے کہ مودی سرکار ان پر لگام لگانے کیلئے سنجیدہ ہے۔ اس سلسلے میں حکومت پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں موٹر وہیکل ایکٹ کی جگہ سڑک ٹریفک ایکٹ لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ محفوظ سڑک ٹرانسپورٹ کیلئے مجوزہ ایکٹ کا صرف نام ہی نہیں بدلا جانا بلکہ اس کے دائرے میں بہت سی گاڑیوں کو لانا بھی ہے۔سڑک وزیر قومی شاہراہ و ٹرانسپورٹ نتن گڈ کری کے مطابق موجودہ ایکٹ کی زیادہ توجہ صرف موٹر گاڑیوں اور ان کے ڈرائیوروں پر ہی مرکوز رہتی تھی۔ اب حکومت کی کوشش ہے کہ نئے ایکٹ میں پیدل، سائیکل اور رکشہ مسافروں کو سکیورٹی قانون کے دائرے میں لا رہی ہے۔نئے روڈ ٹریفک بل موٹر وہیکل ایکٹ 1988 کی جگہ لے گا۔ بل بغیر ہیلمٹ پہنے اسکوٹر چلانا، شراب پی کر گاڑی چلانا، طے رفتار سے زیادہ تیز گاڑی چلانا، گاڑی میں بیلٹ نہ لگانا، لال بتی پار کرنا جیسے معاملوں کیلئے بھاری جرمانے کے ساتھ لائسنس میں ڈی میرٹ وائچر سسٹم بھی لاگو ہوگا۔ گڈکری نے بتایا امریکہ، جرمنی، کینڈا، جاپان، سنگاپور اور برطانیہ میں سڑک ٹرانسپورٹ و سکیورٹی سے وابستہ قوانین ک

داؤ پر رنجیت سنہا اور سی بی آئی کی ساکھ و غیر جانبداری!

ٹوجی اسپیکٹرم اور کوئلہ گھوٹالوں کی جانچ کررہی سی بی آئی کے ڈائریکٹر رنجیت سنہا پر لگے الزامات اور تنازعے سے کئی بڑے سوال کھڑے کردئے ہیں۔ سنہا کے معاملے پر سپریم کورٹ کے وکیل پرشانت بھوشن نے ایک عرضی دائر کرڈالی۔ ان کا دعوی ہے کہ رنجیت سنہا نے اپنے عہدے کا بیجا استعمال کیا ہے۔ وہ ٹو جی گھوٹالے کے ملزمان اور ملزم کمپنی کے حکام سے مسلسل ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے سرکاری گھر میں انہوں نے تمام ملزمان سے درجنوں بار ملاقات کی۔ اس کے ریکارڈ ان کے گھر کی وزیٹر ڈائری میں بھی درج ہیں۔ ان ڈائریوں کے دستاویزعرضی گذار نے ہسپتال میں پیش کئے۔ اتنا ہی پرشانت بھوشن نے سی بی آئی ڈائریکٹر کی نجی ڈائریوں کی کاپیاں بھی پیش کی ہیں۔ وزیٹر ڈائریوں میں تمام ایسے انکشاف ہوئے ہیں جن کو لیکر سی بی آئی ڈائریکٹر کی نیت پر سنگین سوال کھڑے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں پیش ریکارڈ کے مطابق پچھلے 15 مہینوں کی میعاد میں سنہا نے اپنے گھر پر صنعت کار انل امبانی سے پانچ بار ملاقات کی جبکہ ان کی ایک کمپنی ٹوجی گھوٹالے میں ملزم ہے۔ اس کمپنی کے اعلی افسران جیل بھی جاچکے ہیں۔ اسی گھوٹالے کو لیکر اس میں سب سے سنسنی خ

بھارت۔ جاپان کی دوستی کو نیا رنگ دے گا مودی کا دورہ!

وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی سرکار کے 100 دن پورے ہونے سے عین پہلے جاپانی وزیر اعظم شنجو آبے کے ساتھ مل کرباہمی رشتے کے ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے۔ یوں تو جاپان سے ہماری دوسری بہت پرانی ہے لیکن مودی نے تمام سفارتی اڑچنوں نے آگے بڑھ کر اس میں بھروسہ اور خیر سگالی کی گرمی کی آہٹ پیدا کی ہے۔ یہاں یہ بھی کہنا واجب ہوگا کہ ٹھیک ویسی ہی گرمجوشی جاپان کے وزیر اعظم شنجو آبے کی طرف سے دیکھنے کو ملی۔ بھارت۔ جاپان دوستی کا اثر نہ صرف ایشیا پر بلکہ دنیا کی سیاست پر بھی پڑنا طے ہے۔ گجرات کے وزیر اعلی رہتے ہوئے مودی نے جاپان کے دورہ کئے تھے اسی دوران دونوں لیڈروں کے بیچ بہتر تال میل بن گیا تھا جس کی حکمت عملی دونوں دیشوں کے بیچ ہوئے اہم معاہدوں کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جاپان کی کلچرل نگری کیوٹو کو کاشی سے جوڑ کر مودی نے دونوں ملکوں کے عوام کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ ہمارے آپسی رشتے ڈپلومیٹک اور کاروباری سے زیادہ ایک مشترکہ کلچر کی بنیاد پر ٹکے ہیں۔ جاپان دورہ میں نریندر مودی پردھان منتری سے زیادہ ایسے ڈپلومیٹ کے رول میں نظر آئے جنہوں نے قدیم اور اثر دار ملکوں کو اپنے رشتوں کی گہرائی اور

رقیب الحسن کے سنسنی خیز انکشافات مدد گار تھے دو درجن پولیس افسر وجج!

نیشنل نشانے باز تارہ شاہ دیو معاملے کے ملزم رنجیت سنگھ کوہلی عرف رقیب الحسن نے جارکھنڈ پولیس کے سامنے کئی بڑے انکشافات کئے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق حسن نے بتایا کہ ان کے کئی دہلی کے جج صاحبان سے اچھے رشتے ہیں۔ وہ ان سے مل کر ضمانت دلانے کا دھندہ کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ کروڑوں روپے کماتا تھا۔ اس سلسلے میں کئی جج کے گھر پر اس کا آنا جانا تھا رقیبل نے دو درجن پولیس افسران کے نام بھی بتائے ہیں جو اس کی مدد کرتے رہے ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ دہلی ہوائی اڈے کے پاس واقع مہیپال پور میں ایک ہوٹل میں اس کا کمرہ بک رہتا تھا۔ اگر اس کے کسی جاننے والے کو دہلی میں کوئی کام ہوتا تھا تو وہ اسی کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا۔ رقیب الحسن(رنجیت سنگھ) نے دو درجن پولیس حکام کے بارے میں یہ بھی انکشاف کیا کہ زیادہ تر ڈی ایس پی رینگ کے افسر ہیں۔ اس کے علاوہ چھ جج بھی اس سے ملے ہوئے تھے۔ ان میں ضلع جج اور چیف جسٹس سطح کے افسران بھی تھے۔ رقیبل نے بتایا کہ دہلی کے اشارے پر جھارکھنڈ کے کسی بھی ضلع کے کورٹ کے افسر اس کا کہا مانتے تھے اور اس کا پورا کام جھٹ پٹ کردیتے تھے اور وہ اس کام کے عوض سے ملی رقم کا 80 فیصدی

مودی حکومت کے100 دن نہ اچھا نہ خراب اوسطاً ہے کام کاج!

مہنگائی ،کرپشن، گوڈ گورننس کے اشو پر مرکز میں اقتدار میں آئی مودی سرکار نے100 دن پورے کرلئے ہیں۔ وہیں حکومت کیلئے یہ دن کھٹے میٹھے تجربے والے رہے۔حکومت نے پچھلے100 دنوں میں ایک کے بعد ایک کئی فیصلے لئے ہیں۔ ان میں سے کچھ متنازعہ رہے تو کچھ کی تعریف ہوئی۔ چلئے مودی کے 100 دن کی میعاد کا تجزیہ کریں۔ پرانی دہلی میں پراٹھے والی گلی سے گزرئے تیار ہوتے پراٹھوں کی خوشبو بھوک بڑھا دیتی ہے، رہی بات لذت کی یہ بنانے والے کے ہنر پر ٹکی ہے۔ مودی سرکار کے پہلے100 دن کے کام کاج پر رائے ایسی ہے۔ اب جب حکومت نے پہلا مرحلہ پار کرلیاہے مہنگائی ڈائن کا گانا ابھی بار بار گایا جاتا ہے، کچھ فیصلے بہر حال ایسے ضرور ہوئے ہیں جن سے لگتا ہے کہ لال فیتاشاہی ختم ہوگی اور سسٹم میں بہتری اور عوامی سہولیات کی کوالٹی بہتر ہوگی۔ لوگ دیش میں بڑی تبدیلی چاہتے ہیں اور اس لئے نریندر مودی کو وقت دے رہے ہیں۔ انہوں نے ریل کرائے میں زبردست اضافہ چپ چاپ طریقے سے برداشت کرلیا ہے۔ مہنگائی پر یوپی اے سرکار کے طرز پر سرکار کی بہانے بازی بھی سنی جارہی ہے۔ معیشت میں راتوں رات بہتری نہیں ہوسکنے کی دلیل بھی سنائی دے رہے ہی۔ یہ سب ص

کہیں موجودہ بحران سے پاکستان میں فوجی حکومت نہ ہوجائے؟

پاکستان کی اندرونی سیاست ویسے تو اس کا اپنا معاملہ ہے لیکن ایک غیر پائیدار پاکستان بھارت کے مفاد میں نہیں ہے۔ اور وہاں حالات خراب ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان میں نواز شریف کو ہٹانے کیلئے پچھلے کچھ عرصے سے جاری تحریک پہلے سے زیادہ تشویش کا باعث تھی لیکن اب اس کے تشدد میں بدل جانے سے نواز شریف کی جمہوری حکومت پر عدم استحکام کے بادل منڈرانے لگے ہیں۔ سیاست کے ذریعے جب شورش کو ہوا دی جاتی ہے تو ویسا ہی کچھ حال ہوتا ہے جو ان دنوں پاکستان میں چل رہا ہے۔ تحریک انصاف پارٹی کے نیتا عمران خاں اور عوامی پارٹی کے لیڈر مولانا طاہرالقادری جن مطالبات کولیکر پاکستان میں پارلیمنٹ کی گھیرا بندی کئے ہوئے ہیں اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ نواز شریف کے استعفے کی مانگ پر اڑیل عمران خاں اور مولانا طاہر القادری کو پاکستان کے عام چناؤ ہونے کے ایک سال بعد یاد آیا ہے کہ چناؤ میں دھاندلی ہوئی تھی اس کے چلتے اس کو نقصان اٹھانا پڑا؟ عمران خاں کی طرح سے طاہرالقادری کی طرف سے جو دلیل دی جارہی ہے نواز شریف کے استعفیٰ دینے سے دیش کے مسائل کا حل ہوجائے گا، اس کا بھی کوئی جواز سمجھنا مشکل ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستانی فوج ج

مودی کا کاشی مشن: ورلڈہیری ٹیج سٹی بنوانا!

بھارت میں 100 اسمارٹ شہر بنوانے کی اہم اسکیم زمین پر اتارنے کی سمت میں قدم بڑھاتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے جاپان دورے کا آغاز ایک اہم سمجھوتے کے ساتھ کیا جس کے تحت کیوتو کے تعاون اور تجربے سے پردھان منتری کے پارلیمانی حلقے وارانسی کو ایک اسمارٹ سٹی کے طور پر بنایا جائے گا۔ وزیر اعظم نریندر مودی وارانسی پارلیمانی حلقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں نے چناوی کمپین کے دوران کانشی کی کایا کلپ کرنے کا عہد کیا تھا۔ وہ وارانسی کے تاریخی گھاٹوں سے لیکر ترقیاتی کاموں کو رفتار دینا چاہتے ہیں۔ اب کاشی کے باشندوں کو بجلی کٹوتی کا دردجھیلنا پڑ رہا ہے کیونکہ یوپی سرکار نے وارانسی کو نو کٹ زون اعلان کردیا ہے۔ ا سے مقامی لوگ مودی کا کرشمہ مان رہے ہیں۔وزیر اعظم کی ہدایت پر وارانسی میں منی پی ایم او کا حال ہی میں امت شاہ نے افتتاح کیا ہے۔ اس دفتر کے اعلی افسر کاشی کے ترقیاتی کاموں پر نگرانی رکھ رہے ہیں۔ وارانسی اسٹیشن کے اچھے دن آگئے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن کی کایاکلپ کرنے کے لئے ریلوے انتظامیہ جم گیا ہے۔ اس اسٹیشن کیلئے اینٹی گریٹڈ پلان تیار کیا گیا ہے جس میں پانچ سمتوں سے آنے والی ٹرینوں کو ٹھیک

فسادکے ملزم سنگیت سوم کو زیڈ سکیورٹی دینے پر واویلا!

مرکزی سرکار نے اترپردیش کے مظفر نگر میں ہوئے فسادات میں ملزم بھاجپا ممبر اسمبلی سنگیت سوم کو زیڈ زمرے کی سکیورٹی مہیا کرائی گئی ہے۔ مرکز کے اس فیصلے پر ہنگامہ مچنا فطری ہی تھا۔ اترپردیش کے داخلہ سکریٹری کمل سکسینہ نے بتایا کہ ہمیں اس بارے میں کوئی خط نہیں ملا ہے اور ایسے میں موجودہ دی جارہی وائی سکیورٹی جاری رہے گی۔ اترپردیش سرکار نے سکیورٹی دئے جانے کو ریاست کا اشو بتاتے ہوئے کہا کہ مظفر نگر فسادات کے ملزم بی جے پی ایم ایل اے سنگیت سوم کو زیڈ+ سکیورٹی دینے سے پہلے مرکز نے ان سے کوئی جانکاری نہیں لی۔ کمل سکسینہ کا کہنا ہے کہ کسی کو سکیورٹی دینے کے اپنے قاعدے و ضابطے ہیں اور سکیورٹی جاری رکھنے یاواپس لینے کا فیصلہ نوٹی فکیشن بیورو اور ریاستی سرکار کے حکام کی میٹنگ میں لیا جاتا ہے۔ کانگریس سمیت اپوزیشن نے سرکار کے اس فیصلے کو لیکر اس کے ارادے پر سوال کھڑے کئے ہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ دنگے کا ملزم کو زیڈ سکیورٹی دستیاب کرانا متاثرہ افراد کے ساتھ گھناؤنا مذاق ہے۔دوسری طرف بھاجپا کا کہنا ہے خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ اور خطرے کو دیکھتے ہوئے سوم کو یہ سکیورٹی مہیا کرائی گئی ہے۔ حالانکہ فرق

بھاجپا میں اقتدار کی جنگ شہ مات کا کھیل!

بھاجپا اور مودی سرکار میں جاری شہ مات کا کھیل زوروں پر چل رہا ہے۔سنسد کے بجٹ سیشن میں جہاں مرکزی ٹرانسپورٹ وزیر نتن گڈکری کے گھر جاسوسی کے آلات کے پائے جانے کی خبروں نے جہاں مودی سرکار کے اندر سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہ ہونے کے اشارے دئے وہیں دوسری جانب مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور ان کے بیٹے پنکج سنگھ کی مالی بے ضابطگیوں کی خبروں نے ایک بار پھر سرکار کے اندر چل رہی گٹ بازی کو جگ ظاہر کردیا۔ بھاجپا کے سابق قومی صدر اور مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کو ایک مہینے کے اندر مودی ۔ شاہ کی جوڑی نے دوسری بار کرارا جھٹکا دیا ہے۔ سنسد کے بجٹ سیشن کے دوران سرکار کا سب سے رسوخ دار مانے جانے والی کیبنٹ کی تقرری کمیٹی میں راجناتھ کے رسوخ کومحدود کردیا وہیں دوسری طرف گذشتہ دنوں بھاجپا کے نئے قومی صدر امت شاہ نے راجناتھ سنگھ کی بیٹے پنکج سنگھ کی سیاسی پاری کو ریڈ سگنل دکھاتے ہوئے نوئیڈا سے ان کی ٹکٹ کاٹ کر وملا کو میدان میں اتارا ہے۔ یہی نہیں گذشتہ کچھ ہفتے سے راجدھانی کے سیاسی گلیاروں میں یہ افواہیں چل رہی ہیں کہ وزیر اعظم نے مبینہ طور پر کئی موقعوں پر کچھ نیتاؤں کو ان کے اعمال کے لئے پھٹکا لگائی

ہندی، ہندو، ہندوستان؟نجمہ اواچ

مرکزی اقلیت معاملوں کی وزیر نجمہ ہیبت اللہ نے اپنے ایک بیان سے بھلے ہی آر ایس ایس سر سنچالک موہن بھاگوت کو خوش کردیا ہو لیکن ان کے اس بیان پر سیاسی وبال ہونا فطری ہی تھا۔ نجمہ نے انگریزی کے ہندوستان ٹائمس کو دئے ایک انٹرویو میں کہہ دیا کہ ہندوستان میں رہنے والے سبھی لوگوں کو اگر ہندو کہہ دیا تو اس میں غلط کیا ہے؟یعنی سبھی بھارتیہ ہندو ہیں۔ سبھی بھارتیوں کیلئے پہچان کی یکسانیت ہونے کی ضرورت کا اشارہ دیتے ہوئے نجمہ نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتی ہیں کوئی ایسادیش ہے جہاں تین مختلف زبانوں میں تین نام ہوں۔ انہوں نے کہا عربی میں بھارتیہ ہندی اور ہندوستانی کہے جاتے ہیں اور فارسی اور انگریزی میں انڈین کہے جاتے ہیں۔ نجمہ نے کہا ’’ہم ہندی ہیں ، قومیت کی پہچان کے طور پر ہم ہندوستانی ہیں۔جغرافیائی طور سے اور تاریخی طور سے سندھ کے اس پار رہنے والے لوگوں کو ہندو کہا جاتا تھا۔عرب دیشوں میں آج بھی عام طور پر بول چال میں ہندوستانیوں کو ہندو یا ہندی کہا جاتا ہے۔ اس انٹرویومیں نجمہ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح کچھ اسلامی کٹر پنتھی ملک کی ایکتا توڑنے پر اتارو ہیں۔انہوں نے سنگھ چیف موہن بھاگوت کے اس ق