اشاعتیں

دسمبر 15, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کیجریوال کا نیا ڈرامہ! سرکار بنائے یا نہیں فیصلہ رائے شماری سے؟

عام پارٹی کے ذریعے سرکار بنانے یا نہ بنانے کاڈرامہ بدستور جاری ہے بگ باس کے ریئیلٹی شو کی طرح اب کیجریوال بھی ا پنے حمایتیوں سے بوجھ رہے ہیں وہ سرکار بنائے یا نہ بنائے؟ آپ پارٹی کے تھنگ ٹینک گروپ کے اہم ممبر یوگیندر یادو نے کہا کہ میں اس بات سے متفق ہوں کہ ہمارے پاس اخلاقی مینڈیٹ ہے حالانکہ سرکار بنانے کے لئے ضروری نمبر نہیں ہے اس لئے ہم جنتا سے معلوم کررہے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ ایک دوسرے نیتا منیش سسودیا نے کہا ہمارا مقصد سرکار بنانے کا نہیں ہم چار لوگ ا ایک کمرے میں فیصلہ لے لیں ہمارے لئے جنتا کا فیصلہ ہی سرتسلیم ہے ۔ صحیح معنوں میں یہی جمہوری ڈھھنگ ٹھیک بھی ہے اگر اکثریت میں جنتا ہمیں حکوم دے گی تو ہم سرکار بنائے گے صرف ایک بار جنتا کو چناؤ کا موقع دے کر کامیاب لیڈروں کے فیصلے ان پر تھوپنا ٹھیک نہیں ہے ادھر بدھوار کو عام آدمی پارٹی کنوینر اروندر کیجریوال نے کہا کہ وہ شخصی طور سے دہلی میں مشترکہ سرکار کے خلاف ہے لیکن پارٹی کے اندر اس معاملے پر اختلاف کے بعد ہم نے دہلی کی جنتا سے رائے شماری کرانے کافیصلہ کیا ان کاکہنا ہے کہ وہ عوام کے فیصلہ کا احترام کریں گے چاہے وہ پارٹی کے لئے ہو

آخر کار لوکپال بل کیلئے انا کا خواب پورا ہوا

46 سالوں کی کوششوں کے بعد آخر کار دیش کو اب ایک تاریخی لوکپال قانون مل گیا ہے۔ راجیہ سبھا میں پہلے ہی بل کو پاس کردیا تھا اور بدھ کو لوک سبھا نے بھی لوکپال و لوک آیکت بل 2013 کو صوتی ووٹ سے پاس کردیا۔ سماجوادی پارٹی کو چھوڑ کر باقی دیگر پارٹیوں خاص کر بھاجپا لیفٹ، بسپا وغیرہ نے بل کی حمایت کی ہے۔بل کا احتجاج کررہی سپا کے ممبران ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔2011ء میں جب انا ہزار اسی لوکپال کو لیکر دہلی کے رام لیلا میدان میں انشن پر بیٹھے تھے تبھی لگنے لگا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب سرکار اور سیاسی پارٹیوں کو عوام کی مانگ کو ماننا پڑے گا۔ آج اگر یہ قانون بننے جارہا ہے تو اس کا سہرہ انا ہزارے کو جاتا ہے۔ یہ انہیں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ کانگریس بھاجپا نے بھی اس کی حمایت کرکے اچھا کیا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں کانگریسی ایم پی اور پارلیمنٹری سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین ستیہ ورت چترویدی کو نہیں بھولنا چاہئے اور ان کی تعریف کرنا سیاسی پارٹی بھی نہ بھولیں۔ اپوزیشن کے لیڈر ارون جیٹلی نے کہا کہ دو سال پہلے 27 دسمبر2011 کو اس سرکار نے لوکپال بل پر کنی کاٹ لی تھی۔ جیٹلی نے کہا بل پر عام رائے بنانے کے لئے سلیکٹ

امریکہ کی داداگری اب بھارت کو قبول نہیں!

یہ پہلا واقعہ نہیں جب امریکہ کے ذریعے کسی ہندوستانی کو بے عزت کیا گیا ہو۔ یہ پہلی بار نہیں جب اپنے کسی ڈپلومیٹ کے نازیبہ برتاؤ کی وجہ سے بھارت کو نیچا نہیں دیکھنا پڑا ہو۔ نیویارک میں بھارت کی ڈپٹی ناظم العمور دیویانی کھوبرا گڑھے پر الزام ہے کہ انہوں نے نوکرانی کے ویزا درخواست میں جعلسازی کی اور امریکی قانون کے مطابق تنخواہ بھتے ، چھٹیاں وغیرہ نہ دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ نہ صرف غیر انسانی تھا اور بھارت کو بے عزت کیا گیا جو کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں۔ اپنی بچی کو اسکول چھوڑنے جارہی آئی ایف ایس افسر دیویانی کو امریکی پولیس نے پکڑ لیا اور کپڑے اتروا کر تلاشی لی۔ بدسلوکی کا سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ اس کو جیل میں نشیڑیوں اور خطرناک قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا اور طوائفوں کے ساتھ قطار میں کھڑا کیا گیا۔ وہ اپنی بچی کو اسکول سے لانے کی دہائی دیتی رہی مگر امریکی پولیس نے نہیں سنی۔ اب سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ کیا بھارت دیش کی نمائندگی کرنے والی کسی افسر کے ساتھ قانونی کارروائی کا یہ عمل جائز ہے؟ دوسرا سوال انسانی حقوق کا جھنڈا اٹھانے کا دعوی کرنے والے امریکہ یہ غی

کبھی نہ ختم ہونے والے اروند کیجریوال کے ڈرامے!

دہلی کے باشندے ان دنوں چوطرفہ مسائل سے گھرے ہوئے ہیں۔ ایک تو دہلی میں بڑھتا کوہرا، صبح شام چھایا رہتا ہے کہ گھروں سے نکلنا دشوار ہوگیا ہے۔ جہازوں کی پروازیں منسوخ ہورہی ہیں۔ ٹرین منسوخ ہورہی ہیں یا گھنٹوں لیٹ چل رہی ہیں۔ مہنگائی پچھلے14 ماہ میں اپنی سب سے اونچی سطح پر پہنچ گئی ہے۔رہی سہی کثر کیجریوال اینڈ کمپنی نے اپنے ڈراموں سے نکال دی ہے۔ کانگریس کی بنا شرط حمایت کے بعد بھی ’آپ‘ پارٹی ڈرامہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ دہلی میں سرکار نہیں بن پارہی ہے۔ مشکلوں کے باوجود مرکز ی سرکار دہلی میں صدر راج لگانے میں جلد بازی میں دکھائی نہیں پڑتی اور وزارت داخلہ میں سرکار بنانے کے لئے متبادل پر غور خوض جاری ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال نے سرکار بنانے سے ابھی تک انکار نہیں کیا ہے بلکہ صلاح مشورہ کرنے کے لئے اور وقت مانگا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا دہلی میں جلد صدر راج لگانے کی کوئی آئینی مجبوری نہیں ہے۔ 10 دسمبر کو صدر نے کامیاب ممبران اسمبلی کی فہرست کو نوٹی فائی کر دیا ہے۔ اس سے اسمبلی وجود میں آگئی ہے۔ ان کے مطابق دہلی میں

علماؤں کا انتہا پسندی و دہشت گردی کے خلاف فتویٰ لائق خیر مقدم!

ہم جمعیت العلمائے ہند کے ذریعے بلائی گئی سہ روزہ عالمی امن کانفرنس کی تعریف کرتے ہیں۔ رام لیلا میدان میں منعقدہ اختتامی ریلی میں سب سے زیادہ نمائندے پاکستان سے آئے تھے۔ دوسرے نمبر پر بنگلہ دیش، انگلینڈ، نیپال، سری لنکا، مال دیپ، میانمار کے نمائندے موجود تھے۔ شروعات کے دو دن تک یہ کانفرنس دارالعلوم دیوبند میں ہوئی اور ایتوار کو اس کا اختتام دہلی کے رام لیلا میدان میں ہوا۔ اختتام کے دن کئی اتفاق رائے سے ریزولوشن پاس ہوئے مگر سب سے خاص تھا دہشت گردی کی جم کر مذمت کرنا اور ا س کے خلاف ایک آواز میں فتویٰ جاری کرنا۔ یہ پہلا موقعہ ہے جب بھارت اور اس کے پڑوسی ملکوں کے اسلامی علماء دہشت گردی کے خلاف ایک اسٹیج پر جمع ہوکر ایک رائے پر متفق ہوئے۔ کانفرنس کی صدارت دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اور جمعیت العلماء ہند کے صدر مولانا محمد سید عثمان منصوری نے کی تھی اور اس کو چلانے کا کام جمعیت العلماء ہند کے سابق ایم پی اورجنرل سکریٹری محمود اسد مدنی نے کی۔ فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نہ صرف تباہی ہورہی ہے بلکہ یہ پوری طرح سے اسلام کے خلاف ہے۔ پاکستان جمعیت العلمائے اسلا

آپ کی سنئے اناکورووں کے ساتھ ہیں:لوکپال بل پر اختلافات

لوکپال بل کے لئے ایک ساتھ تحریک چھیرنے والے انا ہزارے اور اروند کیجریوال کی اسی بل کو لیکر اختلافات سامنے آگئے ہیں یا یوں کہیں کہ اسکو لیکر دونوں میں ٹھن گئی ہے۔ اس کے پہلے بل راجیہ سبھا میں اتفاق رائے سے پاس ہو جس کے آثار اب بن گئے ہیں، عام آدمی پارٹی اور انا ہزارے کے درمیان تلخ بحث چھڑی ہوئی ہے۔ آپ نے تو لوکپال اشو پر خود کو پانڈو اور انا کو ایک طرح سے سنگھ سے جوڑ کر کورووں کا ساتھ دینے والا بتادیا۔ انا مرکزی سرکار کے لائے گئے لوکپال بل کی جہاں حمایت کررہے ہیں وہیں کیجریوال اسے اب جوگپال(مذاقیہ بل) بتا رہے ہیں۔ آپ پارٹی کے بڑبولے لیڈر کمار وشواس نے انا کے رخ پر فیس بک پر لکھا مہا سمر میں کبھی کبھی ایسا وقت آتا ہے جب بھیشم پتاما کے مون اور گورو درون کے سنگھاسن سے متفق ہوجانے پر بھی ٹکراؤ کے راستے پر چل کر پانچ پانڈوں کو جنگ جاری رکھنی پڑتی ہے۔ آپ پارٹی جنگ جاری رکھے گی۔ اسی درمیان اروند کیجریوال نے پھرموجودہ لوکپال کو جوگپال بتاتے ہوئے کہا کہ اس بل سے منتری تو چھوڑیئے چوہا بھی جیل نہیں جاسکے گا۔ اس بل سے کرپشن نہیں روکے گا بلکہ یہ بدعنوانوں کو بچانے کا کام کرے گا۔ دوسری طرف انا ہز

ہم جنسی جرم یا حق؟

جنسی رشتوں کو جائز ٹھہرانے والے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے پلٹ کر اس مسئلے پر وسیع بحث اور توجہ مرکوز کردی ہے۔ جہاں ایک طرف ترقی پسند کہے جانے والے طبقے نے اسے خوش آئین قراردیا ہے وہیں مذہبی تنظیموں وا طفال حق کے لئے کام کررہیں انجمنوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صاف کہا ہے کہ جب تک آئی پی سی کی دفعہ370 وجود میں ہے جنسی استحصال و رشتوں کو قانونی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ اگر پارلیمنٹ چاہے تو اس پر بحث کرکے مناسب فیصلے لے سکتی ہے۔ دیش کی سپریم عدالت نے دہلی ہائی کورٹ کے سال2009 کے فیصلے کو ٹال دیا۔ 1861 کے اس قانون کو نہ صرف جائز قراردیا بلکہ ہندوستانی معاشرے اور مذہبی جذبات کا بھی حوالہ دیا ہے۔ اصل میں جنسی رشتوں کو جائز قراردینے والی دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے پر بہت سی مذہبی اور کلچر تنظیموں نے چنوتی دی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے یوگ گورو بابا رام دیو نے کہا کہ میں اس فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ ہم جنسی انسانیت حق کی خلاف ورزی ہے اور غیر فطری ہے۔ یہ ایک دماغی شرارت کا حصہ ہے جس کا علاج ہے۔ بابا رام دیو نے ہم جنسی کو جینی

آخر کب ملے گا نربھیہ کو انصاف؟

16 دسمبر 2012ء کی وہ سردی کی رات سڑک کنارے بغیر کپڑوں کے پڑے پیرا میڈیکل کی طالبہ و اس کا دوست وہ سین آنکھوں کے سامنے ابھی بھی لوگوں کے دلوں میں تازہ ہوگا۔ شاید ہو کبھی اسے بھول پائیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ کل ہی کو تو بات ہے۔ نربھیہ ٹریجڈی کو ایک سال ہوگیا ہے لیکن اس سال میں کیا بدلا؟ بیشک کئی سیکٹروں میں جیسے بہتر پولیسنگ عورتوں کی حفاظت کے لئے اٹھائے گئے اقدام، قانون وغیرہ وغیرہ میں ضرور تبدیلی آئی ہے لیکن درندگی میں کمی نہیں آئی۔ دیش کو ہلا دینے والی وسنت وہار گینگ ریپ کی واردات اور اس کے بعد اٹھائے گئے قدموں کے باوجود ہ دہلی والے نہیں سدھر پائے ہیں۔ دہلی میں اس کے بعد بہت سے بدفعلی کے واقعات ہوئے ہیں جن کی تعداد پچھلے ریکارڈ توڑ گئی ہے۔ یہ جان کار حیرانی ہوگی کہ نربھیہ معاملے کے بعد دہلی میں بدفعلی کے واقعات دوگنا ہوئے ہیں جبکہ چھیڑ خانی کے معاملوں میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ روزانہ تین چار ایسے واقعات، پانچ سات چھیڑ خانی کے کیس درج ہوتے ہیں۔ دوسری طرف اہم بات یہ بھی ہے کہ پہلے جہاں عورتیں لڑکیاں اپنے ساتھ ہوئی ذیادتی کی شکایت سے کترایا کرتی تھیں اور بچتی تھیں وہیں اب وہ اپنے ساتھ ہو

دہشت گردوں پر کیس واپس نہیں لے سکتی اکھلیش حکومت!

یہ دکھ کی بات ہے کہ اترپردیش کی سماجوادی حکومت کو عدالتی جھاڑ سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور انہیں ان کی کوئی پرواہ بھی نہیں۔ اکھلیش سرکار کو اکثر پھٹکاریں لگتی ہی رہتی ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے جہاں دہشت گردی کے واقعات میں ملزمان پر مقدمے چل رہے ہیں ان کو واپس لینے کو لیکر یہ جھاڑ لگائی گئی وہیں سپریم کورٹ نے مظفر نگر اور شاملی فسادات کے بعد راحت کیمپ میں رہنے والے 39 بچوں کی موت کے معاملے میں تشویش جتاتے ہوئے یوپی سرکار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ کیمپ میں رہنے والوں کے لئے سردی کے پیش نظر تمام سہولیات مہیا کرائے۔ چیف جسٹس پی ۔سداشیوم اور جسٹس رنجن گوگئی کی بنچ نے معاملے کو بیحد سنجیدگی سے لیتے ہوئے کہا بچوں کی موت کے سلسلے میں میڈیا رپورٹ کی سچائی کا پتہ لگایا جائے۔ دوسرا کرارا جھٹکا الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعے19 لوگوں کے خلاف دہشت گردی کے معاملے واپس لینے کے اس کے فیصلے کو منسوخ کرنا ، ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف مرکزی دفعات کے تحت معاملے درج ہوئے ہیں اس لئے مرکزی حکومت کی اجازت کے بغیر ریاستی سرکار معاملے واپس نہیں لے سکتی۔ جسٹس دیوی پرساد سنگھ، جسٹس

تیسری بار ڈاکٹر ہرش ودھن کے ہاتھ سے چیف منسٹر کی کرسی پھسلی!

اپنی اپنی رائے ہوسکتی ہے میری رائے میں بی جے پی نے دہلی میں مینڈیٹ کو ایک طرح سے انکار کردیا ہے۔بی جے پی کے سی ایم امیدوار ڈاکٹر ہرش وردھن نے لیفٹیننٹ گورنر کو آگاہ کردیا ہے کہ ان کی پارٹی کیونکہ اکثریت میں نہیں ہے اس لئے سرکار بنانے میں لاچار ہے اور انہوں نے دہلی کے شہریوں سے سرکار نہ بناپانے کے لئے معذرت کی اور کہا کہ صدر نے لیفٹیننٹ گورنر کو صاف ہدایتیں دی ہوئی ہیں کہ سرکار بنانے کا دعوی پیش کرنے والی پارٹی کو 7 دن کے اندر ایوان میں اکثریت ثابت کرنی ہوگی کیونکہ بھاجپا کے پاس اکثریت نہیں ہے تو وہ بھلا کیسے سرکار بنا سکتی ہے۔ سیاست میں نمبر اور شفافیت و صاف ستھری ساکھ کی دہائی دیتے ہوئے انہوں نے کہا بھاجپا کسی دیگر پارٹی میں توڑ پھوڑ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور نہ ہی ایسی سرکار میں۔ بھاجپا نے وسیع معیار اور اونچے سیاسی پیمانے تو قائم کردئے ہیں لیکن آئے ہوئے اقتدار کو ٹھکرادیا۔ دہلی میں 15 سال اپوزیشن میں بیٹھنے کے بعد شاید بی جے پی کو بیٹھنے کی عادت سی ہوگئی ہے ۔ یہ ہی تو فکر ہے کانگریس اور بی جے پی میں ۔ کانگریس تو اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتی چاہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا