اشاعتیں

جولائی 8, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

چدمبرم نے درمیانے طبقے کا مذاق اڑایا

اپنے سینئر مرکزی وزیر سلمان خورشید کے متنازعہ بیان سے ابھی کانگریس پوری طرح سنبھلی نہیں تھی کہ مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ایک متنازعہ گولہ داغ دیا۔ منگل کو انہوں نے کہا کہ درمیانے طبقے کی ذہنیت ایسی بن گئی ہے کہ یہ لوگ آئس کریم اور پانی پر تو 15روپے خرچ کردیتے ہیں لیکن چاول گیہوں کی قیمت میں ایک روپے کے اضافے کو برداشت نہیں کرپاتے۔ چدمبرم نے مہنگائی پر سرکار کا بچاؤ کرتے ہوئے کہا کہ سرکار ہرچیز کو درمیانی کلاس کے نظریئے سے نہیں دیکھ سکتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب انہوں نے بینگلورو میں یہ بیان دیا تو اس وقت ان کی بغل میں سلمان خورشید بھی بیٹھے تھے۔ لگتا ہے دونوں نے جگل بندی رہی ہو کے پارٹی اور سرکار کو تنازعات میں گھسیٹا جارہا ہے۔ وزیر داخلہ کے اس بیان پر ہنگامہ ہونا فطری تھا کیونکہ معاملہ مہنگائی کی حمایت کا ہے اور عام آدمی سے سیدھا وابستہ ہے۔ اسی لئے پارٹی اور سرکار کو اس کی صفائی دینا مشکل ہے۔ پارٹی لیڈر شپ کے دباؤ میں سلمان خورشید کی طرح چدمبرم نے بھی صفائی تودے دی ہے لیکن تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ یہ بیان اتنا گمراہ کن بھی ہے کہ اس پر سماج کا کوئی بھی طبقہ حمایت نہیں کرسکتا۔ چدمبرم ص

رستم ہنددارا سنگھ رام کے دھام چلے گئے

زندگی اور موت سے کئی دنوں تک لڑنے کے بعد آخر کار رستم ہند دارا سنگھ نے دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ 12 جولائی کی صبح ساڑھے سات بجے وہ موت سے ہار گئے۔ دارا سنگھ نے آخری سانس اپنے گھر میں اپنوں کے درمیان لی تھی۔ طبیعت خراب ہونے کے بعد انہیں پانچ دن پہلے 7 جولائی کو ممبئی کے کوکیلا بین ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ دارا سنگھ جو کہ اپنے پیشہ وارانہ کیریئر میں کبھی کشتی نہیں ہارے تھے خود کو زندہ دل رکھے ہوئے تھے۔یہ اندازہ شاید نہ ہو کہ جنتا ان سے کتنا پیار کرتی ہے۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ممبئی سے کمرشیل شہر میں انہیں آخری وداعی دینے کے لئے ہزاروں لوگ شامل ہوئے۔ اندھیری کے جوہو میں واقع شمشان گھاٹ اور اس کے باہر لوگوں کا ہجوم دکھائی دے رہا تھا۔ دارا سنگھ کے فیملی ڈاکٹر آر کے اگروال نے بتایا کہ دارا سنگھ کی خواہش تھی کہ وہ آخری وقت میں اپنے گھر میں ہی رہیں اور آخری وقت پر دارا سنگھ کا پورا خاندان ان کے پاس موجود تھا۔ ان کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ پورے پانچ دن کافی مشکل میں رہنے کے باوجود دارا سنگھ کے چہرے پر ذرا بھی تکلیف کی چھایا نہیں دکھائی دی۔ مسلسل ان کے ساتھ

آخر لیئنڈر پیس سے سب کو اتنی نفرت کیوں ہے؟

میں اکثر سوچتا تھا کہ آخر ٹینس چمپئن لینڈر پیس کے ساتھ اس کے کئی ساتھی کیوں نہیں کھیلنا چاہتے؟ آخر وجہ کیا ہے کہ مہیش بھوپتی، ثانیہ مرزا، روہن بوپنا تینوں نے لینڈر پیس کے ساتھ کھیلنے سے منع کردیا ؟ اتنا فاصلہ کیسے آگیا۔ لینڈر پیس اور مہیش بھوپتی ٹینس شائقین کے لئے دلچسپی کا مرکز تھے۔ ایک وقت کھیلنا ،ایک ساتھ کھانا کھانا اور ساتھ ساتھ رہنا سب سے گہرے دوست بنے اب سب سے کٹر دشمن ہیں۔12 سال کے بعد اس جوڑی میں دراڑ پڑ گئی ہے۔ دونوں کے قریبی دوست بتاتے ہیں کہ اس کی وجہ ہے پیسہ، پوزیشن، شخصیت، خواتین اور کھیل کی سیاست ۔ بتایا جاتا ہے کہ پیس اور بھوپتی کا سارا انتظام لینڈر پیس کے والد لیس پیس دیکھا کرتے تھے۔مہیش کا ماننا ہے کہ وہ لینڈر کو زیادہ پیسہ اور بہتر اسپانسر شپ، اشتہارات ٹھیکہ اور پبلسٹی دلا رہے تھے تب مہیش نے اپنی اسپورٹس مینجمنٹ کمپنی گلوبل اسپورٹس بنائی ۔ اب یہ کمپنی مہیش کے علاوہ روہن بوپنا ،ثانیہ مرزا، وشنو وردھان کا بھی کام دیکھتی ہے۔ 1994ء میں لینڈر اور بھوپتی کی پارٹنر شپ شروع ہوئی۔1999ء میں یہ شباب پر تھی۔ اس سال یہ جوڑی چاروں گرینڈ سلیم کے فائنل میں پہنچی۔ دو جیتے بھی۔ پیس سی

سماجوادی پارٹی کا مشن :وزیر اعظم ملائم سنگھ

سماجوادی پارٹی کا اب اگلا مشن مرکز میں سرکار بنانے کا ہے اور شری ملائم سنگھ یادو کو وزیر اعظم بنوانا۔ اس مشن پر اب پارٹی لگ ہی گئی ہے۔ مسٹر ملائم سنگھ کئی بار کہہ چکے ہیں اگلے لوک سبھا چناؤ کسی بھی وقت ہوسکتے ہیں۔ دو دن پہلے بھی انہوں نے یہ بات دوہرائی تھی کہ پارٹی نیتا اور ورکر آنے والے لوک سبھا چناؤ کے لئے کمر کس لیں کیونکہ چناؤ وقت سے پہلے 2013ء میں ہوسکتے ہیں۔ لوک سبھا چناؤ کی تیاریوں کو لیکر پارٹی دفتر (لکھنؤ) میں بلائی گئی سینئر لیڈروں کی میٹنگ میں ملائم نے کہا کہ موجودہ سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے چناؤ مقررہ وقت 2014ء سے پہلے ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اکیلے ملائم سنگھ ہی نہیں بلکہ سیاسی مبصرین کا بھی یہ خیال ہے منموہن سنگھ سرکار اب زیادہ دن تک نہیں چلنے والی۔ اب تو پارٹی کے سنکٹ موچک پرنب مکھرجی بھی بچانے کیلئے نہیں ہیں۔ منموہن سنگھ ،سونیا گاندھی سے نہ تو پارٹی سنبھل رہی ہے اور نہ ہی سرکار۔ ملائم سنگھ کو لگتا ہے کہ اسمبلی چناؤ میں جس طرح اکھلیش یادو کو کامیابی ملی ہے اسے دیکھتے ہوئے پارٹی 50 سیٹیں جیت سکتی ہے۔ ملائم نے عام چناؤ کے لئے جتاؤ مشاہدین کا انتخاب بھی شروع کردیا ہے

بھاجپا کو ملی نئی طاقت۔ کانگریس کو کرارا جھٹکا

اترپردیش میں میونسپل چناؤ حکمراں سماجوادی پارٹی اور بڑی اپوزشین پارٹی بی ایس پی نے نہیں لڑا تھا ایسے میں تیسرے اور چوتھے نمبر کی پارٹی کے درمیان ہوئے مقابلے میں بھاجپا کو ملی شاندار جیت دونوں پارٹیوں کے لئے اچھے برے اشارے ہیں۔ بھاجپا کے لئے اچھا اور کانگریس کے لئے برا۔ پہلے بات کرتے ہیں بھاجپا کی۔ چار ماہ پہلے اترپردیش اسمبلی کا چناؤ ہاری بھاجپا کو اس جیت سے نئی طاقت ملی ہے۔ بھاجپا کی مرکزی لیڈر شپ میونسپل چناؤ نتائج کو لیکر کافی خوش ہے اور نتائج کو 2014ء کے لوک سبھا انتخابات سے جوڑ کر دیکھ رہی ہے۔ اترپردیش کے تقریباً سبھی بڑے شہروں میں میونسپل کارپوریشنوں پر بھاجپا نے پھر اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ بھاجپا کی جیت کو اس لئے بھی اہم مانا جارہا ہے کیونکہ بھاجپا اور کانگریس دونوں نے ہی چناؤ نشان پر چناؤ لڑا تھا۔ میونسپل چناؤ کے ذریعے بھاجپا نے کانگریس سکریٹری جنرل راہل گاندھی اور کانگریس کے گڑھ مانے جانے والے امیٹھی علاقے میں بھی اپنا دبدبہ بنا لیا ہے۔ گڈکری کے مشن 2014 میں اترپردیش میں بھاجپا کا کھڑا ہونا ایک بڑی ترجیح ہے۔ اس کی کامیابی کے لئے نتن گڈکری لگاتار تجربے کررہے ہیں۔ وارانسی، لکھنؤ،

سلمان خورشید کی لیڈر شپ کو کھری کھری

مرکزی وزیر قانون سلمان خورشید نے انڈین ایکسپریس کو دئے گئے ایک انٹرویو میں کانگریس لیڈر شپ پر سیدھا حملہ بول دیا ہے۔ انہوں نے اس انٹرویو میں کہا کہ پہلے مختصر میں قارئین کو یہ بات بتا دوکہ کانگریس کے یووراج راہل گاندھی کیسیو رول یعنی مختصر کردار نبھا رہے ہیں اور کانگریس بے سمت ہے۔ وزیر اعظم کو لیکر انہوں نے کہا کہ پوری دنیا اقتصادی چیلنجوں سے لڑ رہی ہے اور بھارت بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے ۔ انہوں نے کہہ دیا کہ راہل گاندھی سرکار میں نمبر دو کی ذمہ داری لینے سے بچ رہے ہیں۔ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ مزیدار بار یہ ہے کہ وزیر اعظم منموہن سنگھ کے قریبی مانے جانے والے سلمان نے اس انٹرویو میں وزیر اعظم کی بھی جم کر خبر لی ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ سرکار کے حالات جس طرح سے بگڑ رہے ہیں انہیں منموہن سنگھ قابو نہیں کرسکتے۔ یوپی اے I- کی سرکار یوپی اے II- سے بہتر تھی۔ کانگریس بے سمت ہوچلی ہے، ضرورت ہے پارٹی میں نئے نظریات کو شامل کیا جائے۔ سلمان خورشید کے اس انٹرویو کے چھپتے ہی کانگریس میں کھلبلی مچ گئی ہے جیسا عام طور پر ہوتا ہے سلمان پر دباؤ ڈالا گیا اور وہ یہ کہنے پر مجبو

’ٹائم‘ میگزین کا منموہن سنگھ کو سرٹیفکیٹ

زیادہ دن نہیں ہوئے جب مغربی میڈیا خاص کر امریکی میڈیا ہمارے وزیر اعظم منموہن سنگھ کی تعریفوں کی پل باندھتے نہیں ٹھکتا تھا۔ آج وہی میڈیا منموہن سنگھ کو ’انڈر اچیور‘ یعنی ناکام وزیر اعظم بتا رہا ہے۔ امریکہ کی نامور ٹائم میگزین نے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو یہ سرٹیفکیٹ دیا ہے۔ اس نے اپنے تازہ شمارے میں کہا ہے مسٹر سنگھ ان اصلاحات پر سختی سے آگے بڑھنے کے خواہشمند نہیں لگتے جن سے دیش ایک بار پھر اونچی اقتصادی ترقی کے راستے پر لوٹ سکتا ہے۔ میگزین نے 79 سالہ منموہن سنگھ کی تصویر پر عنوان لکھا ہے’’امید سے کم کامیاب وزیر اعظم ،بھارت کو چاہئے نئی شروعات‘‘۔میگزین میں ’’اے مین ان شیڈو‘‘ عنوان سے شائع مضمون میں سوال کیا گیا ہے کیا وزیر اعظم منموہن سنگھ اپنے کام میں کھرے اترے ہیں؟ رپورٹ کے مطابق اقتصادی ترقی میں سستی، بھاری مالی خسارہ اور مسلسل گرتے روپے کی چنوتی کا سامنا کررہا کانگریس ۔یوپی اے اتحاد خود کو کرپشن اور گھوٹالوں سے گھرا پا رہا ہے۔ بڑھتی مہنگائی اور ایک کے بعد ایک سامنے آرہے گھوٹالوں سے ووٹروں کا سرکار پر سے بھروسہ اٹھتا جارہا ہے۔ وزیر اعظم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے میگزین نے کہا تین سال پہ

اکھلیش کے 100 دنوں نے ملائم راج کی یاد تازہ کردی ہے

اترپردیش کے نوجوان وزیر اعلی اکھلیش یادو کی حکومت نے اپنی میعاد کے 100 دن پورے کرلئے ہیں والد ملائم سنگھ یادو نے بیٹے کو 10 میں سے10 نمبر دئے ہیں لیکن عام جنتا میں اس سرکار کی ساکھ بہت حوصلہ افزا نہیں بن سکی۔ بیشک اس دوران انہوں نے کچھ اچھے کام بھی کئے ہوں لیکن عام طور پر یوپی کی عوام میں مایوسی ہے۔ عام خیال یہ بن رہا ہے کہ کہیں سماجوادی پارٹی کا اقتدار جو ملائم کے وقت تھا ویسی ہی حکمرانی اکھلیش کی قیادت میں سرکار میں ہورہی ہے۔ 100 دن کے راج میں جرائم بے تحاشہ بڑھے ہیں۔ ان 100 دنوں میں 149 قتل ہوئے ہیں۔ گذشتہ دنوں صدارتی عہدے کے امیدوار پرنب مکھرجی اکھلیش یادو کے گھر کھانے پر گئے تھے۔ وہ صدارتی چناؤ کے لئے ووٹ مانگنے کے لئے تشریف لے گئے تھے اس ضیافت میں سب یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کے دبنگ ممبر اسمبلی مختار انصاری (15 مقدمے) و وجے مشرا (25 مقدمے) بھی وزیر اعلی کی رہائش گاہ پر شان سے بیٹھے تھے جبکہ جیل میں بند ان دونوں خطرناک لیڈروں کو صرف اسمبلی میں آنے کی اجازت تھی۔ اس واقعے سے واویلا کھڑا ہوگیالیکن یہ صاف اشارہ گیا کہ سپا کا پرانا راج لوٹ آیا ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ قتل ،لوٹ مار ، آبرو

رام سیتو کو قومی وراثت مان کر پروجیکٹ منسوخ کریں

سیتو سمندرم پروجیکٹ کا معاملہ پھر سرخیوں میں آگیا ہے۔ پیر کو سپریم کورٹ میں یہ معاملہ آیا۔ مرکزی حکومت نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ایک اعلی سطحی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سیتو سمندرم پروجیکٹ کیلئے زمانہ قدیم کے رام سیتو کو چھوڑ کر متبادل راستہ اقتصادی اور حالات کیلئے مناسب نہیں ہے۔ حالانکہ سرکاری وکیل نے جسٹس ایچ ایل دت اور جسٹس سی کے پرساد کی بنچ کے سامنے کہا مرکزی کیبنٹ کو ابھی نامور ماحولیاتی ماہر آر کے پچوری کی سربراہی والی کمیٹی کے ذریعے تیار رپورٹ پر غور اور فیصلہ کرنا ہے۔ بنچ نے پروجیکٹ کے آگے کی پیش رفت کے بارے میں جانکاری دینے کیلئے سرکار کو 8 ہفتے کا وقت دیا ہے۔ نریمن نے کہا کہ پچوری کمیٹی نے متبادل راستے کے مسئلے پر غور کیا لیکن وہ اس نتیجے پر پہنچی کے وہ اقتصادی اور حالات کے حساب سے موزوں نہیں ہے۔ پروجیکٹ پر عمل سے زمان�ۂ قدیم کا رام سیتو تباہ ہوسکتا ہے۔ سیتو سمندرم پروجیکٹ کے مطابق30 میٹر چوڑا 12 میٹر گہرا اور167 کلو میٹر لمبا چینل بنائے جانے کی تجویز ہے۔ رام سیتو ماحولیات یا کمرشل مسئلہ نہیں ہے یہ ایک عقیدت اور رواج کا سوال ہے۔ کروڑوں ہندوستانی خاص کر ہندوؤں نے ہزا

فوکوشیما نیوکلیائی حادثہ ہندوستان کیلئے سبق

جاپان میں پچھلے سال فوکوشیما نیوکلیائی پلانٹ میں 11 مارچ کو آئے تباہ کن زلزلے اور سونامی کے بعد 6 بھٹیوں والے اس پلانٹ کو بھاری نقصان ہوا تھا۔ نیوکلیائی پلانٹ میں ہونے والے ریڈیو دھرمی اخراج کے سبب علاقے میں افراتفری مچ گئی تھی۔ ہزاروں لوگوں کو وہاں سے ہٹانا پڑا تھا۔ جاپانی پارلیمنٹ نے پچھلے سال مئی میں ایک کمیٹی بنائی تھی جسے فوکوشیما حادثے سے نمٹنے کیلئے اپنائے جانے والے طور طریقوں کی چھان بین کرنے اور اپنی سفارشیں دینے کا کام سونپا گیا تھا۔ اس کمیٹی نے اپنا رپورٹ دے دی ہے۔ جانچ کرنے والی پارلیمانی کمیٹی نے اس وقت وزیر اعظم ناؤتی کانکی حکومت کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے یہ پوری طرح انسان کے ذریعے پیدا کردہ ٹریجڈی تھی۔ آزادانہ جانچ کمیشن کی رپورٹ کے لب و لباب میں کہا گیا ہے کہ سرکار دیکھ بھال کرنے والے حکام اور ٹوکیو الیکٹرک پاور کے لوگوں کی زندگی اور سماج کی سلامتی کو لیکر ذمہ داری کو نبھانے میں کمی رہی۔ کمیشن نے کہا قدم اٹھانے کے کئی موقعے آنے کے باوجود ریگولیٹری ایجنسیوں اور ٹوکیو سے وابستہ حکام نے جان بوجھ کر فیصلوں کو ٹالا،کارروائی نہیں کی یا ایسے فیصلے لئے جو ان کے لئے سہولت آم

لیلیٰ خاں کا آتنک وادی کنکشن؟

2008ء میں سپر اسٹار راجیش کھنہ کے ساتھ فلم ’وفا ‘ سے مقبول ہوئی اداکارہ لیلیٰ خاں کا عجیب و غریب قصہ آج کل سرخیوں میں چھایا ہوا ہے۔ یہ لیلیٰ خاں کون ہے ، اس کا خاتمہ کیسے ہوا؟ جب وہ آئی تھی تو زیادہ سرخیاں نہیں بٹور سکی لیکن گمشدگی، اندر ورلڈ اور اب قتل کی خبر نے لیلیٰ اور اس سے وابستہ تمام باتوں کو سرخیوں میں چھا دیا ہے۔ نہ صرف لیلیٰ بلکہ اس کے خاندان اور خاص کر سوتیلے بھائی والد پرویز اقبال ٹاک کا ماضی گذشتہ بھی کافی ڈرامائی رہا۔2011ء میں لیلیٰ کے والد نادر شاہ نے ممبئی میں اوشیواڑ پولیس تھانے میں گمشدگی کا معاملہ درج کروایا تھا۔پرویز احمد ٹاک (لیلیٰ کا سوتیلا باپ) کو پولیس نے دھوکہ دھڑی ،جعلسازی کے لئے گرفتار کیا تھا۔ ٹاک کے پاس سے فرضی پین کارڈ برآمد ہوا تھا جس پر نادر شاہ کا نام لکھا تھا لیکن فوٹو ٹاک کی لگی ہوئی تھی۔ جموں کشمیر کے کشتواڑ کے ایک گیریج سے لیلیٰ کی کار برآمد کی گئی ہے۔بعدمیں پولیس نے مقامی لوگوں سے پوچھ تاچھ کی اور اس کے ذریعے وہ ٹاک تک پہنچی۔ ٹاک پہلے لڑکی کا کاروبار کرتا تھا بعد میں اس نے سیاست میں قسمت آزمائی۔ ٹاک نے مقامی لوگوں سے 10 لاکھ روپے ادھار لے رکھے تھے

کیا نجی ہاتھوں میں پانی تقسیم کا انتظام دینا صحیح حل ہے؟

دہلی میں اب پانی کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے۔ جنتا سڑکوں پر اترنے پر مجبور ہے۔ دہلی میں تاخیر سے مانسون کی دستک کی وجہ سے معاملہ الجھتا جارہا ہے۔ پینے کے پانی کی سپلائی دہلی جل بورڈ کے لئے کافی وقت سے مشکل بنی ہوئی ہے۔ اسے بہتر بنانے کے لئے کئی کوششیں ہوئیں مگر پریشانیاں کم نہیں ہوئیں آخر کر دہلی سرکار نے پانی کی سپلائی پرائیویٹ ہاتھوں میں سونپنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ حالانکہ فی الحال اسے کچھ علاقوں میں تجرباتی طور پر شروع کرنے کا خاکہ تیار کیا جارہا ہے۔ جلد ہی پوری دہلی میں اس پر عمل ہونے لگے لیکن دہلی سرکار نے دعوی کیا ہے اس سے پانی کی بربادی رکے گی، سپلائی میں آنے والی پریشانیاں دور ہوں گی اور ہر گھر کو ضرورت کے حساب سے پانی دستیاب کرانے میں مدد ملے گی۔ یہاں یہ کہنا شاید غلط نہیں ہوگا کہ حکومت دہلی کی بجلی تقسیم پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کا فیصلہ کبھی بھی تنازعات سے دور نہیں رہا۔ بجلی کی قلت کی چوطرفہ مار ،بلوں میں بے تحاشہ اضافہ اور تیز بھاگتے میٹروں کی شکایتیں آئے دن سننے کو ملتی رہتی ہیں اور ان پر کوئی غور نہیں ہوتا۔ دراصل پانی کی سپلائی میں سب سے بڑی کمی مینجمنٹ ہے۔ یہاں سپلائی کئے جا