پبلک اسکولوں میں نرسری داخلے پرٹکراؤ!

نرسری داخلے کے لئے محکمہ تعلیم سے جاری گائڈلائنس کے بعد 15 جنوری سے راجدھانی کے تمام پبلک اسکولوں میں نرسری داخلے شروع ہونے جارہے ہیں لیکن اسکول سے چھ کلو میٹر تک کے دائرے میں آنے والوں کو زیادہ تر70 پوائنٹ دینے کی سہولت سے اسکول منتظمین جس طرح سے ناراض ہیں اس سے والدین کی پریشانی بڑھ سکتی ہے۔ دہلی کے پرائیویٹ اسکولوں میں داخلے ، فیس میں اضافہ وغیرہ سے متعلق گڑ بڑیوں اور منمانی کی شکایتیں پرانی ہیں۔انہیں دور کرنے کے لئے کئی بار کوشش ہوچکی ہے مگر کوئی پائیدار حل نہیں نکل پایا۔ ہر بار اسکول کے مالکان و منتظمین کوئی نہ کوئی پیچ ڈھونڈ کر قاعدوں کو تلانجلی دینے کا راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔ ایسے میں نرسری کلاسوں میں داخلے سے متعلق نئے قواعد پر اسکولوں کی ناراضگی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی حکومت نے داخلے کے لئے کچھ نکات کو مقرر کیا تھا جن میں اسکول سے گھر کی دوری اور متعلقہ اسکول میں بچے کا کوئی بھائی یا بہن پڑ ھ رہا ہے اگر بچے کے والدین میں سے کوئی اس اسکول کا طالبعلم رہ چکا ہو وغیرہ پہلو شامل ہیں۔ پہلے اسکول سے داخلہ پانے والے بچے کی دوری زیادہ سے زیادہ 14 کلو میٹر رکھی گئی تھی لیکن نئے قاعدے سے اسے گھٹا کر اب6 کلو میٹر کردیا گیا ہے۔ دوری کی بنیاد پربچے کے داخلے کے لئے 70 نمبر دئے جائیں گے۔ اسی طرح اگر اس کے خاندان سے کوئی بچہ پہلے سے اس اسکول میں پڑھ رہا ہے تو اسے 10نمبر ملیں گے۔ پھر لڑکیوں کے لئے 5 فیصدی اگر ماں باپ میں سے کوئی اس اسکول کا طالبعلم رہ چکا ہے تو اس کے پانچ فیصدی۔ اسکول کے ملازمین کے لئے پانچ فیصدی سیٹیں ریزرو کرنی ہوں گی۔ کوٹے سے داخلے کی سہولت ختم کردی گئی ہے۔ اس پر نجی اسکول منتظمین کی انجمنوں نے لیفٹیننٹ گورنر سے بات چیت کے لئے وقت مانگا لیکن انہوں نے ملنے سے انکار کردیا۔ نجی اسکولوں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ اگر لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملے گا تو ایسوسی ایشن عدالت میں جاکر محکمہ تعلیم کے ذریعے نرسری داخلے کے لئے گائڈ لائنس پر روک لگانے کی اپیل کرے گی۔وہاں بھی بات نہ بنی تو تمام اسکول منتظمین ان شرطوں پر داخلہ نہیں دینے پر غور کررہے ہیں۔ حالانکہ نرسری داخلے کی الٹی گنتی شروع ہونے کے ساتھ والدین یہ سوچ رہے ہیں کہ ان کے بچے کا داخلہ کیسے ہوگا؟ داخلے کے لئے کس کی سفارش لگائیں ان کے لئے بہتر یہ تجویز ہے کہ وہ یہ ساری پریشانی چھوڑ کر قریب کے اسکولوں میں اپنی پسند کی فہرست میں ترجیح دیں۔ ان اسکولوں میں بچوں کوکس طرح کی سہولت مل رہی ہے اس بارے میں جانکاری اکھٹی کریں اور جیسے ہی15 جنوری کو داخلہ فارم نکلیں تو قریبی اسکول میں جاکر داخلہ فارم بھر دیں۔ فیس اضافے کو لیکر جب تب والدین اور اسکولوں کے درمیان تکرار شروع ہوجاتی ہے لیکن ہائی کورٹ کی ہدایت کے باوجود اس معاملے میں اسکولوں کی منمانی رکی نہیں ہے۔ اگر اسکول واقعی داخلہ اور فیس وغیرہ کے متعین میں دلیل آمیز اور شفافیت اپناتے تو سرکار یا پھر عدالتوں کو ہر بار یوں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!