اشاعتیں

ستمبر 16, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کیامنموہن سنگھ سرکار کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے؟

جناب پرنب مکرجی کو یوں ہی نہیں کہا جاتا تھا کہ وہ کانگریس پارٹی اور یوپی اے سرکار کے سنکٹ موچک رہے۔انہیں صدر بنے ابھی دو مہینے کا وقت بھی نہیں گذراکہ کانگریس کی سرکار کی نیا ڈانواں ڈول ہوگئی ہے۔ پرنب دا کی غیرموجودگی میں کانگریس صدر سونیا گاندھی نے خود پارٹی اور سرکار کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔ یہ کتنی کامیاب نیتا ہیں دو مہینے میں پتہ چل گیا۔ اس دوران سرکار کا اور اپوزیشن کا صرف ٹکراؤ ہی بڑھا ہے۔ رہی بات وقت کی تو پتہ نہیں منموہن سنگھ نے کیا سوچ کر یکدم ڈیزل اور رسوئی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔ ابھی جنتا اس سے سنبھلی نہیں تھی کہ خوردہ بازار میں ایف ڈی آئی کا نیا مسئلہ کھڑا کردیا گیا۔کیا ایف ڈی آئی اور ڈیزل اور رسوئی گیس کی قیمتوں کو ایک ساتھ لانا ضروری تھا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ تمام اپوزیشن متحد ہوگئی۔ بھارت بند نے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ لوک سبھا میں اکثریتی ایم پی سرکار کے خلاف ہیں۔چاہے وہ بھاجپا ہو یا سپا یا پھر لیفٹ پارٹیاں سبھی آج حکومت کے خلاف کھڑی ہیں۔ ممتا نے آخر کار اپنے وزرا سے استعفیٰ دلوا کر یوپی اے سرکار سے ناطہ توڑ لیا ہے۔ اس کے پیچھے ان کی مجبوریاں ہیں۔مغربی بنگال میں

وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی شاطرانہ چال

اپنے پرانے موقف سے یو ٹرن لیتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف منگل کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے معاملوں میں مقدمہ چلانے کے لئے سوئس حکام کو خط لکھنے کو رضامند ہوگئے ہیں۔ پرویز اشرف کے اس یو ٹرن پر کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا اس کے لئے وزارت قانون کو ہدایت دی جاچکی ہیں۔ پاکستان سرکار اس معاملے میں طویل عرصے سے سوئس حکام کو خط لکھنے سے بچتی رہی ہے۔ کچھ لوگ اشرف کے اس موقف کو ایک اسمارٹ قدم مان رہے ہیں۔ سرکار کے پاس اب کل چار مہینوں کا وقت بچا ہے اور اس مرحلے پر سپریم کورٹ کی شرط ماننے سے صدر زرداری کو کوئی نقصان ہونے والا نہیں۔ خط میں کئی دن نکل جائیں گے ۔ پھر سوئس حکام بھی کسی دیش کے سربراہ مملکت کے خلاف اتنی تیزی سے کام کرنے سے تو رہی۔ اس حکومت کی میعاد2013ء میں ختم ہونے والی ہے اور اگر یہ حکومت تب تک چلی جاتی ہے تو یہ بھی ایک معجزہ ہی ہوگا۔ ایک منتخبہ حکومت پاکستان میں اپنی میعاد پوری کرلے۔ وزیراعظم اشرف نے اپنی سرکار کو اتنا وقت دلا دیا ہے کہ بری طرح سے پیچھے پڑی سپریم کورٹ کے پاس اب اس سرکار کو گھیرنے کا کوئی بہانا نہیں بچتا۔ اس قدم سے پاکست

منزل ایک پر راستے الگ الگ: انا ہزارے

انا ہزارے نے صاف کردیا ہے کہ وہ سیاسی پارٹی بنانے کے اپنے ساتھی اروند کیجریوال کی تجویز سے متفق نہیں ہیں۔ اپنے گاؤں رالے گن سدھی میں انا نے جو اپنی تنظیم کرپشن مخالف عوامی تحریک کو سرگرم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس کے بعد تحریک کی دو الگ الگ سمت طے ہوگئی ہیں۔ دوسری طرف اروند کیجریوال ہیں جو 2 اکتوبر کو ایک سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کرچکے ہیں تو انا اپنی پرانی غیر سیاسی تنظیم کو پھر سے سرگرم کرکے سیاست سے دور رہنے کا صاف اشارہ کرچکے ہیں۔ کرپشن مخالف عوامی تحریک انا ہزارے کی پرانی تنظیم ہے جس کے تحت انہوں نے مہاراشٹر میں کئی تحریکیں چلائیں تھیں۔ انا نے منگلوار کو کہا کیجریوال کے پارٹی بنانے کا مطلب ہوگا کرپشن سے پاک دیش بنانے کا یکساں مقصد پانے کے لئے الگ الگ راستہ اپنانا۔ انا ہزارے نے کہا میں نے طے کیا ہے کہ میں کسی سیاسی پارٹی کی تشکیل نہیں کروں گا اور چناؤ بھی نہیں لڑوں گا۔ انا سے پوچھا گیا تھا کیا کیجریوال کی نئی سیاسی پارٹی کی تشکیل میں ان دونوں کے درمیان دراڑ آگئی ہے۔ ابھی تک ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ انا ہزارے سیاسی پارٹی کے نظریئے کے خلاف ہیں یا وہ سیاسی پارٹی سے وابستہ نہیں ہونا چ

دیش میں بڑھتی آبروریزی کی وارداتیں 2012 میں 29.27 فیصدی اضافہ

دیش میں اور خاص کر راجدھانی دہلی میں عورتوں کی سلامتی کے لئے بھلے ہی سرکار کے ذریعے کتنے ہی انتظامات کئے گئے ہوں لیکن ان دعوؤں کی ہوا نیشنل کرائم بیورو کے اعدادو شمار نے نکال دی ہے۔ بیورو کے ریکارڈ چونکانے والے ہیں۔ اس کے مطابق آبروریزی جیسے گھناؤنے جرائم سال2012 ء میں29.27 فیصدی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق روزانہ تقریباً50 عورتوں کے ساتھ آبروریزی ہوتی ہے یعنی ایک گھنٹے میں دو عورتوں کی عصمت دری ہوتی ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ یہ اعدادو شمار سرکاری رپورٹ کی بنیاد پر مرتب ہیں لیکن بہت سے ایسے معاملے ہیں جن کو دبا دیا جاتا ہے جو بدنامی کی وجہ سے درج نہیں ہوپاتے۔ نیشنل کرائم بیورو کے مطابق 2011ء میں آبروریزی کے 7112 معاملے سامنے آئے۔ اس سے پہلے مارچ 2010ء میں 5484 معاملے درج کئے گئے۔ آبروریزی کے اعدادو شمار پر غور کریں تو ان معاملوں میں 29.7 فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ آبروریزی کے معاملوں میں مدھیہ پردیش ریاست کا پہلامقام رہا۔ جہاں اس سال میں1262 معاملے درج ہوئے۔ دوسرے مقام پر1088 معاملوں میں اترپردیش ہے جبکہ 818 معاملوں میں مہاراشٹر ہے۔ قومی کرائم ریکارڈ بیورو کے اعدادو شمار بتات

دیش میں فرقہ وارانہ سدبھاؤ بگاڑنے کے پیچھے سازش

جس طریقے سے اترپردیش کے کچھ شہروں میں فساد ہورہا ہے اس سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ کچھ طاقتیں دیش میں بدامنی، فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے میں لگی ہوئی ہیں۔ جمعہ کو غازی آباد کے مسوری علاقے کے ادھیاتمک نگر اسٹیشن کے پاس ایک مذہبی کتاب کے صفحے پر اعتراض آمیز الفاظ لکھے ہونے کی افواہ پھیلی۔ جس کی شکایت مسوری پولیس سے کی گئی۔ شام کو مسوری میں معاملہ درج کیا جارہا تھا کہ اسی درمیان بھاری تعداد میں اس فرقے کے لوگ تھانے پہنچے اور ہنگامہ شروع کردیا۔ مشتعل بھیڑ نے این ایچ 24 کو جام کردیا اور توڑ پھوڑ ،آتشزنی کی۔ پولیس نے حالات پر قابو پانے کے لئے طاقت کا استعمال کیا تو بھیڑ کی طرف سے پتھراؤ اور گولہ باری ہونے لگی۔ تب پولیس نے فائرننگ کی، دونوں طرف سے فائرنگ اور پتھراؤ میں 6 لوگ مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں ناہل کے باشندے آصف،پبلوڑا کے باشندے وحید اور مسوری کے وسیم کے طور پر ان کی شناخت ہوئی ہے۔ وسیم بی ٹیک کا طالبعلم تھا۔ فساد زدہ علاقے کے دورہ کے دوران ایس بھی دیہات جگدیش شرما، دروغہ رمیش چند، ہیڈ کانسٹیبل روپ چند، کانسٹیبل جنیشور سینی سمیت دوسرے فریق کے کئی لوگ زخمی ہوگئے۔ فی الحا

اس بار ٹی۔20 ورلڈ کپ کسی کی بھی جھولی میں جا سکتا ہے!

آخر انتظار ختم ہوگیا ہے ۔ کرکٹ کے شائقین اور پوری دنیا میں ایک بار پھر کرکٹ کا بخار چڑھنے لگا ہے۔ ٹی۔20 ورلڈ کپ 2012 کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس مرتبہ اس کا انعقاد سری لنکا میں ہورہا ہے۔ اگلے 20 دنوں تک 12 ٹیموں کے درمیان دلچسپی کی نئی داستاں لکھی جائے گی۔ ایک وکٹ سے میچ کا رخ بدلے گا تو ایک رن سے جیت کا فیصلہ ہوجائے گا۔ کچھ میچ سپر اوور تک بھی جاسکتے ہیں۔ گیند اور بلے کی جنگ میں گلیمر کا تڑکا بھی لگے گا۔ مطلب تفریح کی پوری گارنٹی ہوگی۔ کئی نئے ریکارڈ بنے ہیں کئی پرانے ٹوٹیں ہیں۔ اس برصغیر کی پچ ہمیشہ سے دلچسپ کرکٹ کے لئے مشہور رہی ہے۔ لہٰذا اس مرتبہ ٹی۔20 ورلڈ کپ بھی دلچسپ ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ٹی۔20 ورلڈ کپ کی ونر ٹیم کو10 لاکھ ڈالر ملیں گے اور رنر ٹیم کو5 لاکھ ڈالر۔ سیمی فائنل میں پہنچنے والی ٹیم کو2.50 لاکھ ڈالر ملیں گے۔ اس بار کا ٹی۔20 ورلڈ کپ شاید سب سے کھلا ٹورنامنٹ ہے۔ اس بارٹی۔20 ورلڈ کپ کا خطاب کون جیتے گا یا پھر کونسی دو ٹیمیں فائنل میں پہنچیں گی ، اس کا اندازہ لگانا ابھی مشکل ہے۔ ویسے بھی ٹی۔20 کھیل میں کسی طرح کی قیاس آرائی نہیں کی جاسکتی کیونکہ کھیل میں کئی دلچسپ اتار

face tattoos on arm

face tattoos on arm Tran's face on his arm! Joker Face Tattoo For Arm Left Arm Tattoo Celebrity Face Tattoo On Arm Inner Arm Virgin Mary. Face Chris Brown's Tattoo Of Memorial Gurn Face Tattoo face tattoo on arm face, arm, tattoos, outfit face; Tattoos: left arm, tattooed onto his forearm, Face Tattooed on His Arm add — tattooed on his arm. Jim Morrison Face Tattoo On Sombre Face Horror Arm Sleeve 1 TaT by Tattoo Desc

ملائم۔ ممتا کا ڈرامہ :یہ بادل گرجتے ہیں برستے نہیں

کرپشن اور مہنگائی، ایف ڈی آئی کے ریٹیل کے مدے پر منموہن سرکار کے ناکارہ ثابت ہونے پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظریں وسط مدتی چناؤ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ بھاجپا امیدرکھے ہوئے ہے کہ یوپی اے کی اتحادی پارٹیاں دیر سویر اس سرکار سے حمایت واپس لے لیں گی اور یہ سرکار گر جائے گی لیکن ہمیں نہیں لگتا ایسا ہوگا۔ ممتا بنرجی، ملائم سنگھ یادو، مایاوتی اور کروناندھی سبھی ایک ساتھ ایک جھٹکے میں حمایت واپس لے لیں تو سرکار کو صحیح معنی میں خطرہ ہوسکتا ہے لیکن تب بھی سرکار فوراً گرنے کے آثار نہیں ہیں۔ سرکار ایک منٹ کے لئے گربھی جائے تو کسی اور کی سرکار بننے کے آثار نہیں ہیں۔ ان سب کے پیش نظر بھی کانگریس اور ڈاکٹر منموہن سنگھ نے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت خطرہ مول لیا ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ یوپی اے کی کوئی اتحادی پارٹی سرکار گرانے کے حق میں نہیں ہے۔ پھر بھی حمایت واپسی کا من بنا لیا جاتا ہے تو سرکار کی طاقت کی آزمائش پارلیمنٹ میں ہی ہوسکتی ہے۔ پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس ابھی تین مہینے دور ہے۔ پہلے سیشن اگر بلانا ہے تو ممتا، ملائم ، مایا اور کروناندھی کے لیڈروں کی پارٹیوں کو مل کر صدر سے درخواست کرنی پڑے گ

دلی یونیورسٹی چناؤ میں این ایس یو آئی کی دھماکے دار جیت

دلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے چناؤ میں کانگریس کی اسٹوڈنٹ ونگ این ایس یو آئی کو شاندار کامیابی ملی ہے اور بھاجپا کی یونٹ اے وی بی پی کا صفایا ہوگیا ہے۔ این ایس یو آئی چاروں سیٹوں میں سے تین جیت گئی ہے۔ 2007 ء کے بعد دلی کی سیاست میں لگاتار کمزور پڑ رہی این ایس یو آئی کو سنجیونی مل گئی ہے۔ این ایس یو آئی اچھے خاصے فرق سے پریسڈنٹ ، وائس پریسڈنٹ اور سکریٹری کے عہدے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔دوسو کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہواہے کہ کسی عہدے پر مقابلہ ٹائے رہا۔ جوائنٹ سکریٹری کے لئے ہوئے چناؤ میں دونوں تنظیموں کو برابر ووٹ ملے۔ چناؤ نتائج نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو پوری طرح سے سکتے میں ڈال دیا ہے اور وہ سمجھ نہیں پا رہی ہے کہ آخر طلبا نے یہ کیسا مینڈیٹ دیا ہے کے تمام منفی اشوز کے ہونے کے باوجود بھی ان کی حمایتی اے بی وی پی کو نہ صرف زبردست شکست ملی بلکہ اس تنظیم کا صفایا بھی ہوگیا۔ موجودہ حالات میں پارٹی کو یہ ہضم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ دوسری طرف این ایس یو آئی کی اس جیت نے کانگریس ورکروں میں نئی سنجیونی کا کام کیا ہے اور انہیں یہ کہنے کا موقعہ مل گیا ہے کہ دلی کے نوجوانوں نے صاف سندیش

فلم تو بہانہ ہے بنیادی مسئلہ تو امریکہ ہے

امریکہ کی خارجہ پالیسی خاص کر مشرقی وسطیٰ کو لیکر آج سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔آج تقریباً پورا مشرقی وسطیٰ امریکہ کے خلاف صف آراء ہوچکا ہے۔ امریکہ مخالف احتجاج پورے مشرقی وسطیٰ کے ممالک میں پھیلتا جارہا ہے۔ پیغمبر حضرت محمدؐ کی شان میں گستاخی کر فلم بنانے والا ایک امریکی ہی ہے۔ اس بیہودہ اوربکواس فلم کا نام ہے ’انوسینس آف مسلمس‘ ایسی بیہود بکواس فلم بنانے کا نہ تو کوئی تک تھا اور نہ ضرورت۔ ہندوستان کو بغیر سوچے اس بکواس فلم پر پابندی لگا دینی چاہئے۔ اس فلم کو بنانے والا اسرائیلی نژاد امریکن سیم کیسل روپوش ہوگیا ہے۔ اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق دو گھنٹے کی اس فلم کو بنانے کیلئے سیم نے 100 یہودیوں سے تقریباً 25 کروڑ روپے کا چندہ اکٹھا کیا تھا۔ سیم نے کہانی لکھنے کے ساتھ ہی اس فلم کی ہدایت بھی کی تھی۔ انوسینس آف مسلمس فلم کا 14 منٹ کا ٹریلر یو ٹیوب پر جاری کیا گیا تھا جس کے بعد سارا مسلم ورلڈ جل اٹھا۔ یہ فلم بنیادی طور سے انگریزی میں بنائی گئی ہے جسے عربی میں بھی ڈپ کیا گیا ہے۔ جنہوں نے یہ ٹیلر دیکھا ہے ان کا دعوی ہے کہ یہ فلم بہت برے خیالات اور بد نیتی سے بنائی گئی ہے۔ اس کا

جاپان اور چین کے درمیان مشرقی چینی جزیروں کو لیکرتنازعہ کھڑا ہوا

چین اور جاپان کے درمیان مشرقی ساگر کے جزیروں کو لیکر تنازعہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ چین نے جمعہ کو دعوی کیا کہ اس نے 6 نگرانی بحری بیڑے علاقے میں بھیجے ہیں۔ جاپان نے بھی اس کی تصدیق کی ہے اور چینی آبدوز کو علاقہ چھوڑنے کی وارننگ دی ہے۔ مشرقی چین کے ساگر کے ان جزیروں کو چین میں دیو جبکہ جاپان میں ناکابو کہا جاتا ہے۔ جھگڑا کیا ہے؟ مشرقی چین ساگر میں جھگڑا پانچ جزیروں اور تین بیرن چٹان کو لیکر ہے۔ ان جزیروں کا 42 مربع میٹر رقبہ ہے۔ تینوں دیش جاپان، چین اور تائیوان ان پر اپنی ملکیت جتاتے ہیں۔ ان جزیروں کے آس پاس کے سمندری علاقے میں مچھلیوں کے بڑے ذخائر ہیں۔ 1968 میں کئے گئے ایک مطالع میں یہاں تیل کے ذخائر ہونے کے بھی ثبوت ملے تھے۔ یہ تنازعہ نیا نہیں ہے 100 سال سے زیادہ پرانا ہے۔ یہ تنازعہ 1995ء میں چین سے جنگ کے دوران جاپان نے ان جزیروں کو اوکی نابا صوبے سے جوڑ لیا تھا۔ 1945ء میں عالمی جنگ کے بعد جب جاپان ہار گیا تو ان پر امریکہ کا قبضہ ہوگیا۔ 1971ء میں چین نے سرکاری طور سے ان جزیروں پر اپنا دعوی پیش کردیا۔ 1972 میں امریکی نے ان جزیروں کا اختیار پھر سے جاپان کو سونپ دیا۔ جاپان اکیلا دیش نہ

کوئلہ گھوٹالے سے توجہ ہٹانے اور بے عملی کا داغ مٹانے کیلئے اٹھائے گئے قدم

ہمیں لگتا ہے کہ منموہن سنگھ سرکار اور کانگریس پارٹی نے اب یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ بغیر کسی کی پرواہ کئے وہ سارے قدم اٹھائیں گے جو انہیں ضروری لگتے ہیں اور وہ کئی وجوہات سے نہیں اٹھا پارہے تھے۔ پہلے ڈیزل کی قیمت میں اضافہ، اگلے دن خوردہ بازار میں ایف ڈی آئی کا فیصلہ۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ ڈیزل اور ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے عوامی ردعمل سے سرکار اور کانگریس واقف نہیں تھی؟ کیا اسے معلوم نہیں تھا کہ اس سے جنتا میں ہائے توبہ مچے گی؟ اسے معلوم تھا لیکن پھر بھی اس نے ایسا کیوں کیا؟ ہمیں لگتا ہے اس کے پیچھے ایک بہت بڑا مقصد سرکار کا اور کانگریس پارٹی کا کوئلہ بلاک الاٹمنٹ گھوٹالے پر لگی جنتا کی توجہ ہٹانا تھا اور اس کے لئے یہ ضروری تھا کوئی ایسا قدم اٹھایا جائے جس سے جنتا نئے مسئلے میں الجھ کر رہ جائے اور کوئلہ گھوٹالے کو بھول جائے۔ سرکار پر بے عملی کا بہت بڑا الزام لگ رہا تھاتمام ملکی غیر ملکی میڈیا کھل کر کہنے لگا تھا کہ یہ سرکار بالکل پنگو ہوچکی ہے اور اس میں آگے بڑھنے کی نہ کوئی قوت ارادی ہے اور نہ ہی حوصلہ۔ وزیر اعظم ناکارہ ہوچکے ہیں۔ پالیسی ساز فیصلوں پر عمل نہ کرنے کے الزام

اگر دیوگوڑا وزیر اعظم بن سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟

یہ کہنا ہے سماجوادی پارٹی کے چیف ملائم سنگھ یادو کا۔ سپا کی کولکتہ میں قومی ایگزیکٹو کے دو روزہ اجلاس کے بعد ملائم سنگھ یادو نے کہا تیسرے مورچے کی تشکیل چناؤ بعد ہوگی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ کہہ کر سنسنی پھیلا دی جب دیو گوڑا وزیر اعظم بن سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں۔ لیکن پارٹی اس بات کا پروپگنڈہ نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا وہ سیاست میں ہیں اور سیاست کررہے ہیں کوئی سادھو سنت نہیں اور سیاست میں سب کچھ ممکن ہے۔ سماجوادی پارٹی نے کولکتہ میں منعقدہ اپنی قومی کانفرنس کے ذریعے سیاسی طبقے کو اپنی حیثیت کا احساس کرانے کی بھی کوشش کی ہے۔ اترپردیش سے باہر کانفرنس کرکے انہوں نے یہ سندیش دینا چاہا کہ وہ ایک قومی پارٹی ہے جس کی بنیاد دیگر ریاستوں میں ہے۔ ملائم نے جس طرح بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی سے اپنی قربت کا اظہار کیا اور جوتی بسو کے عہد کی تعریف کی اس سے ان کی رائے ظاہر ہے کہ وہ یوپی اے اور این ڈی اے اتحادی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ لیفٹ سے بھی اچھے تعلقات بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ مرکز کے اقتدار میں پہنچنے کے لئے سارے متبادل کھلے رکھنا چاہتے ہیں۔ اقتدار کی سیاست میں اترپردیش ہمیشہ فیصلہ کن کردار نبھا