دہشت گردوں پر کیس واپس نہیں لے سکتی اکھلیش حکومت!

یہ دکھ کی بات ہے کہ اترپردیش کی سماجوادی حکومت کو عدالتی جھاڑ سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور انہیں ان کی کوئی پرواہ بھی نہیں۔ اکھلیش سرکار کو اکثر پھٹکاریں لگتی ہی رہتی ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے جہاں دہشت گردی کے واقعات میں ملزمان پر مقدمے چل رہے ہیں ان کو واپس لینے کو لیکر یہ جھاڑ لگائی گئی وہیں سپریم کورٹ نے مظفر نگر اور شاملی فسادات کے بعد راحت کیمپ میں رہنے والے 39 بچوں کی موت کے معاملے میں تشویش جتاتے ہوئے یوپی سرکار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ کیمپ میں رہنے والوں کے لئے سردی کے پیش نظر تمام سہولیات مہیا کرائے۔ چیف جسٹس پی ۔سداشیوم اور جسٹس رنجن گوگئی کی بنچ نے معاملے کو بیحد سنجیدگی سے لیتے ہوئے کہا بچوں کی موت کے سلسلے میں میڈیا رپورٹ کی سچائی کا پتہ لگایا جائے۔ دوسرا کرارا جھٹکا الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعے19 لوگوں کے خلاف دہشت گردی کے معاملے واپس لینے کے اس کے فیصلے کو منسوخ کرنا ، ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف مرکزی دفعات کے تحت معاملے درج ہوئے ہیں اس لئے مرکزی حکومت کی اجازت کے بغیر ریاستی سرکار معاملے واپس نہیں لے سکتی۔ جسٹس دیوی پرساد سنگھ، جسٹس اجے لامبا اور جسٹس اشوک پال سنگھ کی بنچ نے یہ فیصلہ دیتے ہوئے صاف کیا کہ دہشت گردی کے واقعات یا ملک کی بغاوت کے الزامات کے مقدمے واپس لینے کے لئے ٹھوس اسباب ہونے چاہئیں۔ اگر سرکار بغیر کوئی وجہ بتائے مقدمے واپس لینے کا فرمان دیتی ہے تو سرکاری وکیل کو اپنی آزادانہ رائے رکھنی چاہئے۔ 96 صفحات کا یہ فیصلہ ایک بنچ کے معاملے سے جڑا ہے اس سے پہلے معاملے کی سماعت کررہی ایک بنچ نے چار قانونی سوال طے کرتے ہوئے جواب کے لئے معاملے کو سب بنچ کو بھیجا تھا۔ ریاستی سرکار کے لئے یہ ایک سیاسی جھٹکا تو ہے ہی کیونکہ وہ مظفر نگر فسادات کے بعد سماجوادی پارٹی اقلیتوں کا بھروسہ جیتنے کی پرزور کوشش کررہی ہے اس فیصلے سے اقلیتیں تو خوش نہیں ہوں گی ساتھ ہی سرکار مخالف طاقتوں کو اپنی سازشیں رچنے کا موقعہ ضرور مل جائے گا۔ ریاستی سرکار اقلیتوں کی خوش آمدی میں لگی ہوئی ہے کیونکہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بے قصور مسلم لڑکوں کے خلاف درج معاملے واپس لے لے گی۔ اسی سلسلے میں اس نے2007ء میں لکھنؤ ، وارانسی اور فیض آباد میں ہوئے فسادات کے سلسلے میں گرفتار 19 لوگوں کے خلاف معاملے واپس لینے کا اعلان کیا تھا۔ آتنک واد دیش کے لئے سب سے بڑے خطروں میں سے ایک ہے لیکن پورے کانڈ میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہماری سیاسی لیڈر شپ ووٹ بینک پالیٹکس کے چلتے ان برننگ اشوز سے نمٹنے کے لئے کتنی سنجیدہ ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کسی بے قصور لڑکے کو محض فائل کی خانہ پوری کرنے کے لئے زبردستی کسی معاملے میں خاص کر آتنکی و ملک کی بغاوت کیس میں قطعی پھنسایا نہیں جانا چاہئے لیکن ملزم بے قصور ہے یا قصور وار یہ طے کرنا عدالتوں کا کام ہے۔ اکھلیش سرکار کی اپنی غیر جانبدارانہ ساکھ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے معاملوں کو عدالتوں پر چھوڑ دیں۔ بار بار پھٹکار سے تو اترپردیش کی سماجوادی پارٹی بے نقاب الگ ہورہی ہے اور چاروں طرف سے وہ اپنے اوپر تھو تھو کروا رہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟