اشاعتیں

اپریل 27, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اب کانگریس کا فوکس چناؤ بعد مودی کو روکنا ہے!

کانگریس نے ایک طرح سے اس لوک سبھا چناؤ2014ء میں اپنی ہار مان لی ہے۔ یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کیونکہ کانگریس نے چناؤ کے بعد سرکار کے بارے میں رونما واقعات پر اب اپنی زیادہ توجہ دینی شروع کردی ہے۔ کانگریس نے صاف کردیا ہے کہ اگر وہ چناؤ ہارگئی تو وہ بھاجپا کا کھیل بگاڑنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔اس کے لئے چناؤ بعد بننے والے تیسرے مورچے کی سرکار کو باہر سے حمایت دینے سے لیکر اس میں شامل ہونے تک کے تمام متبادل کو کھلا رکھا ہے۔ کانگریس لیڈر مودی کو چناؤ بعد بھی وزیر اعظم بننے سے روکنے کے لئے پوری کوشش کرے گی۔ کانگریس کے لیڈروں کے بیانوں سے صاف ہوگیا ہے ۔ذرائع کی مانیں اگر این ڈی اے 220 سے230 سیٹوں پر سمٹ جاتی ہے تو کانگریس غیر این ڈی اے پارٹیوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کی حکمت عملی پر کام کرے گی بشرطیکہ اس صورت میں کمانگریس کے پاس بھی 100 سے120 سیٹیں ہوں۔ کانگریس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پارٹی کو 140 کے آس پاس سیٹیں ملتی ہیں تو وہ204 کی طرح این ڈی اے مخالف اتحاد کی قیادت کرنے کے رول میں آسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس علاقائی پارٹیوں کو اس طرح کے اشارے بھی دے رہی ہے کہ انہیں مودی کی لیڈر شپ سے

نتیش کی حکمت عملی اور لالو رابڑی کی ساکھ داؤ پر لگی!

بہار میں تین مرحلوں میں پولنگ ہونے کے بعد چناوی تصویر بہت کچھ صاف ہوگئی ہے۔ 20 سیٹوں پر ابھی پولنگ ہونا باقی ہے۔ ان میں سے7 سیٹوں پر 7 مئی کو ووٹ پڑیں گے۔ یہ سیٹیں ہیں سیہور، سیتامڑی،مظفر پور، مہاراج گنج، سارنگ، حاجی پور اور اجیارپور۔ بہار اس مرتبہ کثیر ذات پرستی اوریکدم ترقی کے ساتھ کئی فیصلے کرنے جارہا ہے۔ ذات پرستی کا کارڈ چلا تو لالو پرساد یادو کو فائدہ اور ترقی کا کارڈ چلا تو نریندر مودی۔اگرداؤ پر ہے تو وہ نتیش کمار کی حکمت عملی، جہاں سے بھاجپا پوری طرح سے نریندر مودی لہر پر منحصر ہے۔ وہیں لالو نے ایم وائی تجزیوں کو پٹری پر لانے کی پرزور کوشش کی ہے تو نتیش کمار کی پارٹی جنتادل (یو) یہاں ووٹوں کے پولارائزیشن کو لیکر پھنسی ہوئی ہے۔ بہار میں چائے اور پان کی دوکان سے لیکرریل گاڑی میں مونگ پھلی بیچنے والوں تک کے لئے فی الحال یہ ہی ٹائم پاس ہے۔ لیکن کون کہاں سے جیتے گا اس سے زیادہ بحث نتیش کمار اور جنتادل (یو ) حکمت عملی پر ہورہی ہے۔ جے ڈی یو کے بھاجپا سے الگ ہونے کے نتیش کے فیصلے کی تنقید ہورہی ہے جسے اقلیتی ووٹوں کے لئے نتیش اور ان کی پارٹی نے بازی کھیلی۔ وہ طبقہ نتیش سے زیادہ لال

کنفیوز کجریوال کولگتے جھٹکے پر جھٹکے!

اروند کیجریوال کو دسمبر میں جوغیر متوقع شاندار کامیابی ملی تھی اور جنتا نے ان سے جو امیدلگائی ہوئی تھی وہ اب آہستہ آہستہ ہوا ہوتی جارہی ہے۔ خود کیجریوال جس ارادے سے دہلی کے وزیر اعلی کے کرسی کو لات مار کر وارانسی پہنچے اور قومی سیاست میں دھماکہ کرنے کا وہ خواب ٹوٹتا نظر آرہا ہے۔ پچھلے دنوں کیجریوال اینڈ کمپنی کو دوہرا جھٹکا لگا پہلا وارانسی سے اور دوسرالکھنؤ سے۔ پہلے وارانسی کی بات کرتے ہیں مختار انصاری کے چناوی میدان سے ہٹنے کے بعد وارانسی سیٹ سے ڈھائی لاکھ سے زیادہ مسلم ووٹوں کو اپنی طرف کھینچنے کیلئے اروند کیجریوال نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ ان کی ساری امیدیں ان مسلم ووٹوں پر لگی ہوئی تھیں۔ ’آپ‘ حمایتی امید لگا بیٹھے تھے کہ اروند کیجریوال کی صاف ستھری ساکھ کے علاوہ قومی ایکتا دل کے حمایتیوں کا کانگریس کے مقابلے کیجریوال کے تئیں نرم رخ ہے اور یہ بڑی تعداد میں ان کی طرف آجائیں گے اور نریندر مودی کے خلاف چناؤ میں ان کی حمایت کریں گے لیکن منگل کے روز کانگریس امیدوار اجے رائے کو اپنی حمایت کا اعلان کردیا۔ کانگریس کے قومی نیتاؤں سے لمبی بات چیت کے بعد قومی ایکتا دل کے زونل پردھان محم

تین سابق وزیر اعلی و بیٹا اور وزیر اعلی کی بیوی اترا کھنڈ سے چناوی میدان میں!

عام طور پر اتراکھنڈ میں عام چناؤ میں کانگریس اور بھاجپا کے درمیان ہی مقابلہ ہوتا آرہا ہے۔ اس بار بھی ہے لیکن چناؤ سے ٹھیک پہلے لیڈر شپ تبدیلی اور ستپال مہاراج پارٹی بدلنے سے بنے حالات سے وزیر اعلی ہریش راوت کی ساکھ اور سرکار دونوں داؤ پر لگی ہیں۔ اترا کھنڈ لوک سبھا کے لئے 7 مئی کو پولنگ ہوگی اس بار کا چناؤ 2004 اور2009 سے زیادہ دلچسپ ہے کیونکہ بھاجپا نے اپنے سابق وزرائے اعلی میجر جنرل (ریٹائرڈ) بھوون چندر کھنڈوری کو پوڑی پارلیمانی حلقے سے کوشیاری کو نینی تال سے اور ڈاکٹر رمیش پوکھریال کو ہری دوار سے چناؤ میدان میں اتارا ہے۔بھاجپا پردیش میں اپنی سیکنڈ لائن تیار کرنا چاہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق ان دنوں سینئر لیڈروں کو چناؤ میدان میں اتارنے کے پیچھے ارادہ صاف ہے کہ اگر پردیش بھاجپا کے تینوں سینئر لیڈر کامیاب ہوتے ہیں تو ان تینوں کی سیدھی مداخلت پردیش کی سیاست میں کم ہوجائے گی۔ اس سے پردیش میں گروپ بندی پر لگام لگے گی۔ ریاست کی پانچ سیٹوں پر کانگریس اور بھاجپا کے امیدواروں پر ترقی کو نظرانداز کرنا اور ذات پات کو بڑھاوا دینے سمیت کئی طرح کے الزام لگائے جارہے ہیں۔ اس بار چناؤ میں ایک بڑااشو

آج کا چناؤ وی آئی پی مرحلہ کہا جاسکتا ہے!

16ویں لوک سبھا کے لئے پولنگ کے ساتویں مرحلے میں ووٹ تو89 سیٹوں پر پڑرہے ہیں لیکن یہ کئی معنوں میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس مرحلے میں کانگریس صدرسونیا گاندھی، بھاجپا کے پی ایم امیدوار نریندر مودی، پارٹی صدر راجناتھ سنگھ،سابق پردھان لال کرشن اڈوانی، نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ، جنتادل (یو) کے شرد یادو، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی، جیسی مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کا مستقبل داؤ پر ہے۔ان 89 سیٹوں میں سے سب سے زیادہ سیٹیں کانگریس کے قبضے میں ہیں۔بھاجپا کے پاس اس وقت 19 سیٹیں ہیں جن میں سے15 سیٹیں تو گجرات کی ہیں اس طرح بھاجپا کے پاس گجرات کو چھوڑ کر کل 4 سیٹیں ہیں۔ یہیں سے بھاجپا کو اچھی امید ہے اور اپنے مقررہ نشانے تک پہنچنے کے لئے یہ مرحلہ اس لحاظ سے بھاجپا کے لئے اہم ہے۔ اس مرحلے میں گجرات کی سبھی 26 سیٹوں پر ایک ساتھ پولنگ ہورہی ہے۔ جس سیٹ پر سب کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں وہ ہے ودودرہ،جہاں سے نریندر مودی میدان میں ہیں۔ یہاں ان کا مقابلہ کانگریس کے لیڈر مدھو سودن مستری سے ہے۔ اس مرحلے میں جن دیگر سیٹوں پر ووٹ پڑرہے ہیں وہ 9 ریاستوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس میں آندھرا پردیش کی17 سیٹیں

سرینگر، لداخ اور بہار میں سخت مقابلہ ہے!

جموں و کشمیر کی وقاری لوک سبھا سیٹ پر آج یعنی30 اپریل کو ووٹ پڑیں گے۔ میدان میں ہیں مرکزی وزیر ڈاکٹر فاروق عبداللہ۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے یہاں سے حامد کارا کو بھاجپا نے فیاض احمد بٹ اور عام آدمی پارٹی نے ڈاکٹر رضا مظفر کو میدان میں اتارا ہے۔یہاں سے کل 14 امیدوار میدان میں ہیں ان میں سے8 آزاد ہیں۔کبھی کوئی چناؤ نہیں ہارنے والے ڈاکٹر فاروق عبداللہ جو صبح پانچ بجے اٹھ کراپنے کشمیری لباس اور(فیرن) پہن کر پورا دن کشمیری زبان میں تقریریں کرتے ہیں، چناوی ریلیوں کے دوران فاروق عبداللہ دفعہ370 کے حق میں نعرہ ضرور لگاتے ہیں۔اپنی ہر ریلی میں پی ڈی پی کے چیف مفتی محمد سعیداور بھاجپا کے پی ایم امیدوار نریندر مودی پرتنقید کرنے سے نہیں چوکتے۔ بھاجپا کی جانب سے پہلے عارف امیدوار تھے لیکن پارٹی کے چناؤ منشور میں370 کو ختم کرنے کے تذکرے کے بعدرضا نے اپنا ٹکٹ واپس کردیا۔ حالانکہ رضا نے اپنا پرچہ بھی داخل کردیا تھا لیکن کچھ ہی گھنٹوں کے بعد پارٹی نے اپنا امیدوار بدل دیا۔ جموں کشمیر کے اس لوک سبھا چناؤ میں نوجوانوں کا کردار اہم رہے گا۔ صوبے میں کل69 لاکھ33 ہزار 118 ووٹوں میں سے 56.1 فیصد 18 سے39 برس

پھر مسلم خوش آمدی! ڈوبتے کو تنکے کا سہارا

عام چناؤکے چھ مرحلے پورے ہوجانے کے بعد اچانک کانگریس کو مسلمانوں کی یاد آئی ہے۔چناؤ میں پیچھے چھوٹ چکی پارٹی کو اب ان کو4.5 فیصد ریزرویشن کا وعدہ ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کے برابر ہے اور سنجیونی کی تلاش کے برابر ہے اسے اتنے دن گزر جانے کے بعد مسلم فرقے کو یہ بتانے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے؟چناؤ منشور جاری کرنے کے قریب مہینے بھر بعد اس ضمنی اعلان کی منشا کیا ہے۔مسلم ووٹوں کو متاثر کرنا۔ بنیادی چناؤ منشور میں پارٹی نے پسماندہ مسلمانوں کو ریزرویشن کافائدہ دینے کی بات کہی ہے لیکن ضمنی چناؤ منشور میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو دیگر پسماندہ طبقات کے تحت دئے جانے والے ریزرویشن میں پسماندہ مسلمانوں کو چار فیصدی کا کوٹا ملے گا۔ اس اعلان سے کچھ سوال ضرور اٹھیں گے۔ پہلی بات یہ ہے کہ آخر اب جب کچھ مرحلوں کی پولنگ باقی ہے کانگریس کو پسماندہ مسلمانوں کی یاد کیوں آئی؟دوسرا بڑاسوال یہ ہے اگر پسماندہ مسلمانوں کے مفادات کی اتنی ہی فکرتھی تو پچھلے دس سالوں میں اقتدار میں رہنے کے دوران کانگریس نے اس کے لئے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا۔ اگرچہ اس بارے میں کانگریس کا کہنا ہے کہ اس

کانپور اور سنگم نگری الہ آباد میں زبردست مقابلہ!

اترپردیش کی صنعتی راجدھانی کی شکل میں مشہور کانپور لگتا ہے اپنی پہچان کھوتا جارہا ہے۔بند ہوتی ملیں، مزدوروں کی ہجرت روکنے کی کوشش کسی نے نہیں کی۔لال املی،ایلیگن مل، جے کے جوٹ مل جیسی کئی نامی گرامی کپڑا ملیں ہیں جن میں تیا کپڑے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنی کوالٹی کا لوہا منواتی رہی ہیں۔ اب یہ سب بند ہو چکی ہیں۔کانپور سے اس بارچناؤ میں بی جے پی نے اپنے سرکرد ہ لیڈر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو میدان میں اتارا ہے۔ مقابلے میں ہیں کانگریس کے مرکزی وزیر سری پرکاش جیسوال جو بڑے قد والے لیڈر ہیں اور حکومت کے کوئلہ منتری ہیں، وہ دعوی کرتے ہیں جتنی ترقی پچھلے 15 برسوں میں کانپور میں ہوئی ہے اتنی کبھی نہیں ہو پائی۔ امید ظاہرکرتے ہیں کہ چوتھی بار یہاں کی جنتا انہیں ایم پی چنے گی اور بھاجپا کے ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کے امیدوار بنائے جانے سے کانپور کا چناؤ کافی دلچسپ بن گیا ہے اور کانٹے کا مقابلہ ہے۔ بسپا نے سلیم احمد کو میدان میں اتارا ہے۔ حالانکہ پچھلی باربھی پارٹی نے انہیں امیدوار بنایا تھالیکن بعد میں ٹکٹ سکھدا مشرا کو دے دیا گیا۔عام آدمی پارٹی نے مسلم ووٹ میں سیند لگانے کے لئے ڈاکٹر م

مودی کے نامی نیشن روڈ شو سے بوکھلائی ’آپ‘ و کانگریس پارٹی!

بھاجپا کے پردھان منتری پد کے امیدوار نریندر مودی کے جمعرات کو وارانسی میں ہوئے روڈ شو سے کانگریس اور ’آپ‘ پارٹیاں بوکھلا گئی ہیں۔انہیں یقین ہی نہیں ہورہا کہ اتنا عظیم شو کیسے ہوا؟مودی کے نامی نیشن بھرنے کے وقت میں مانو سارا وارانسی ہی امڑ پڑا ہو۔بھاری جن سیلاب کے چلتے الدہیا چوک سے ضلع مجسٹریٹ آفس پہنچنے میں مودی کو قریب دو گھنٹے لگے۔دو گھنٹے کی دیری سے شروع ہوئے اس روڈ شو میں دو لاکھ سے زیادہ لوگ شامل ہوئے۔ سڑکوں پر مکان ،دوکان کی چھتوں پر بھاری جن سیلاب مودی کے سمرتھن میں نعرے لگاتا نظر آیا۔ مودی 2:15 منٹ پرنامی نیشن آفس سے نکلے۔ اس سے پہلے نامی نیشن داخل کرنے کے لئے مودی کو مجسٹریٹ کے یہاں قریب آدھا گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔ان سے پہلے معراج خالدنور نام کے آزاد امیدوار کھڑے تھے۔اصول کے مطابق انہیں پہلے موقعہ دیا گیا۔اپنا نامی نیشن بھرنے والا معراج وہی شخص ہے جو ماضی میںآتنکی لادن جیسا چہرہ مہرہ بنا کرلالو یادو و پاسوان کے ساتھ چناؤ پرچار کر چکا ہے اور اپنے آ پ کو اوسامہ کہتا ہے۔ مودی نے روڈ شو سے پہلے کوئی بھاشن نہیں دیا جس سے وہاں گھنٹوں سے انتظار کررہی بھیڑ کو تھوڑی مایوسی ہوئی۔ ا

پنجاب میں اکالی۔ بھاجپا بنام کانگریس بنام ’آپ‘ پارٹی! پنجاب کی امرتسر لوک سبھا سیٹ اس وقت پنجاب کی سب سے ہاٹ سیٹ بنی ہوئی ہے۔ امرتسر سیٹ پروقار کی لڑائی ہے جہاں ایک جنگی ہیرو اور سینئر سیاستداں اپنی سیاسی زندگی کے لئے میدان میں ہے تو دوسری جانب ایک رسوخ دار نیتا اس دگج کوشکست دینے کے لئے کمر کسے ہوئے ہے۔پنجاب کی اس سیٹ پر سبھی کی نگاہیں ہیں جہاں 30 اپریل کو ووٹنگ ہوگی۔ گورو کی اس نگری میں سیاسی ماحول گرمانے لگا ہے۔ بادل صاحب کے ذریعے آشواسن دینے کے بعد بھی بھاجپا کے سینئر لیڈر ارون جیٹلی کو خود پسینہ بہانا پڑ رہا ہے۔ 61 سالہ ارون جیٹلی کے لئے یہ پہلا چناؤ ہے جس میں وہ سیدھے چناؤ کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ بھاجپاکی لیڈرشپ میں این ڈی اے کے اقتدار میں آنے پر انہیں دہلی میں بڑا کردار مل سکتا ہے۔ شاید جیٹلی نے بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ شرومنی اکالی دل۔ بھاجپا سرکار کے سات سال کے اقتدار اور موجودہ سانسد نوجوت سنگھ سدھو کی کارکردگی کو لیکر اقتدار مخالف لہر کے پس منظر میں انہیں امرتسر سیٹ پراتنے بڑے مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔کانگریس نے ان کے مقابلے میں اپنے پنجاب کے سب سے بڑے طاقتور امیدوار کیپٹن امرندر سنگھ کو اتارا ہے۔کانگریس نے کیپٹن کے روپ میں اپنا ترپ کا پتا کھیل کر یہاں مقابلہ کڑا بنادیا ہے۔ امرتسر میں کہیں کہیں آپ پارٹی کا اثر بھی دکھ رہا ہے۔ پچھڑی جاتیوں کا ووٹ جو کبھی کانگریس اور بسپا کے درمیان بٹتا تھااس بار اس کا جھکاؤعام آدمی پارٹی کی جانب لگ رہا ہے۔ویسے اس علاقے میں 23 امیدوار اپنی قسمت آزما رہے ہیں جن میں بسپا کے پردیپ بلیا ایک ہیں۔ لیکن اہم مقابلہ جیٹلی و کیپٹن میں ہی ہے۔ بادل خاندان کے دو سورماؤں کے درمیان بھٹنڈہ میں کڑا مقابلہ ہونے جارہا ہے۔ ایک موجودہ ممبر پارلیمنٹ میں میدان میں خم ٹھوک رہا ہے تو بادل پریوار سے الگ ہوئے کنبے کے ایک دیگرممبر بھی بھٹنڈہ کی ہائی پروفائل سیٹ پر اپنی قسمت آزمانے اترے ہیں۔یہ سیٹ برسر اقتدار اکالی دل کا مضبوط قلعہ مانی جاتی ہے جہاں ایک امیدوار کے داخلے نے چناوی جنگ کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔اس سیٹ سے موجودہ ممبر پارلیمنٹ اکالی دل کی ہر سمرن کور اور ان کے دیور منپریت سنگھ بادل ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ سابق فائننس منسٹر اور پیپلز پارٹی آف پنجاب کے سنستھاپک منپریت کانگریس کے ٹکٹ پر چناؤ میدان میں ہیں۔ منپریت ماکپا اور شرومنی اکالی دل (برنالہ) کے سمرتھن سے اپنے چچیرے بھائی اور پردیش کے ڈپٹی چیف منسٹر سکھبیر بادل کی پتنی ہرسمرن کور پر حملہ کرنے میں کوئی موقعہ نہیں چھوڑ رہے ہیں۔پاکستان کی سرحد سے لگا گورداس پور پارلیمانی علاقہ فلم اور سیاست کے زبردست گھال میل کی وجہ سے ہاٹ سیٹ بن گیا ہے۔ فلمی دنیا میں لمبی وقت تک بادشاہت چلانے والے فلم اسٹار ونود کھنہ ایک بار پھر سے بھاجپا کے امیدوار ہیں۔ ان کا سامنا پنجاب پردیش کانگریس کے ادھیکش اور موجودہ ممبر پارلیمنٹ پرتاپ سنگھ باجوا سے ہے۔ ان کے درمیان کئیدلوں میں رہ چکے سچا سنگھ چھوٹے پور عام آدمی پارٹی کی ٹوپی پہن کر میدان میں ہیں۔ ونود کھنہ اور پرتاپ سنگھ باجوا دونوں کو لیکرسب سے زیادہ غیر یقینی کی بات یہ ہے کہ وہ جیتنے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں۔ علاقے سے دوری بنانے اور اسے چھوڑ دینے کا الزام جھیل رہے ونود کھنہ نے کچھ دنوں پہلے پٹھان کوٹ میں ایک کوٹھی خرید لی ہے۔ ان کی چناوی مہم اسی کوٹھی سے چل رہی ہے۔ کانگریس کیلئے پرتشٹھا کا سوال بن گئی ہے آنند پور صاحب کی سیٹ۔پانچواں تخت ہونے کی وجہ سے آنند پور صاحب سکھوں کااہم مذہبی مقام ہے۔ کانگریس نے پارٹی میں اہم رول نبھانے والی امبیکاسونی کو اکالی دل کے پریم سنگھ مجوماجرا کے مقابلے کھڑا کرکے دلچسپ نوعیت بنادی ہے۔ اس سیٹ پرگذشتہ چناؤ میں کانگریس کے رنجیت سنگھ نے اکالی دل کے سکریٹری دلجیت چیما کو ہرایا تھا۔سورگیہ سنجے گاندھی سے لیکر اب تک گاندھی پریوار کے سب سے قریبی لوگوں میں سے ایک شریمتی سونی کے لئے نہ صرف اس بار مقابلہ تگڑا ہے بلکہ کچھ حد تک ان کی اور ان کی پارٹی کے لئے پرتشٹھا کا سوال بھی بن گیا ہے۔پنجاب کی سنگرور سیٹ پر کامیڈین کلاکار بھگونت مان کے میدان میں اترنے سے مقابلہ دلچسپ اور تکونا ہوگیا ہے۔وہ عام آدمی پارٹی کے امیدوار ہیں۔ اس سیٹ پر کانگریس اور اکالی دل۔ بھاجپا گٹھ بندھن کے درمیان کانٹے کی ٹکر رہتی تھی۔ کانگریس کے راہل گاند ھی برگیڈ کے وجے اندر سنگلا کومیدان میں اترا ہے تو شرومنی اکالی دل نے اپنے سینئر نیتا سکھدیو سنگھ ڈھنڈسا کوسنگلا کے خلاف میدان میں اتارا ہے۔ سنگرور لوک سبھا سیٹ دو ضلعوں سنگرور اور برنالہ میں بٹی ہوئی ہے۔30 اپریل کو پنجاب کی 13 سیٹوں گورداس پور، امرتسر، کھدور صاحب، جالندھر، ہوشیارپور، آنند پور صاحب، لدھیانہ، فتحپور صاحب ، فرید کوٹ، فیروز پور، بھٹنڈہ، سنگرور و پٹیالہ میں ووٹ پڑیں گے۔مشن مودی272+ کے لئے پنجاب کے یہ چناؤ اہم ہیں۔ (انل نریندر)

پنجاب میں اکالی۔ بھاجپا بنام کانگریس بنام ’آپ‘ پارٹی! پنجاب کی امرتسر لوک سبھا سیٹ اس وقت پنجاب کی سب سے ہاٹ سیٹ بنی ہوئی ہے۔ امرتسر سیٹ پروقار کی لڑائی ہے جہاں ایک جنگی ہیرو اور سینئر سیاستداں اپنی سیاسی زندگی کے لئے میدان میں ہے تو دوسری جانب ایک رسوخ دار نیتا اس دگج کوشکست دینے کے لئے کمر کسے ہوئے ہے۔پنجاب کی اس سیٹ پر سبھی کی نگاہیں ہیں جہاں 30 اپریل کو ووٹنگ ہوگی۔ گورو کی اس نگری میں سیاسی ماحول گرمانے لگا ہے۔ بادل صاحب کے ذریعے آشواسن دینے کے بعد بھی بھاجپا کے سینئر لیڈر ارون جیٹلی کو خود پسینہ بہانا پڑ رہا ہے۔ 61 سالہ ارون جیٹلی کے لئے یہ پہلا چناؤ ہے جس میں وہ سیدھے چناؤ کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ بھاجپاکی لیڈرشپ میں این ڈی اے کے اقتدار میں آنے پر انہیں دہلی میں بڑا کردار مل سکتا ہے۔ شاید جیٹلی نے بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ شرومنی اکالی دل۔ بھاجپا سرکار کے سات سال کے اقتدار اور موجودہ سانسد نوجوت سنگھ سدھو کی کارکردگی کو لیکر اقتدار مخالف لہر کے پس منظر میں انہیں امرتسر سیٹ پراتنے بڑے مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔کانگریس نے ان کے مقابلے میں اپنے پنجاب کے سب سے