اشاعتیں

جون 1, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

لوک سبھا میں صاف نظر آئی اقتدار تبدیلی کی جھلک!

16 ویں لوک سبھا کے پہلے اجلاس کی شروعات تعزیتی قرارداد پاس ہونے سے ہوئی کیونکہ ایوان نے سورگیہ گوپی ناتھ منڈے کو شردھانجلی دے کر کارروائی ملتوی کردی۔ لیکن ایوان کے اندر کا نظارہ پچھلے سیشن سے بالکل الگ دکھائی دیا۔ایوان میں اقتدار تبدیلی کی جھلک صاف طور پر محسوس کی گئی۔ حکمراں فریق میں خاص کر بھاجپا ممبران پارلیمنٹ پورے جوش و خروش میں تھے وہیں اپوزیشن خاص کر کانگریس خیمے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔بطور پی ایم منموہن سنگھ جہاں بیٹھا کرتے تھے وہ جگہ اب نئے پی ایم نریندر مودی نے لے لی جبکہ 15 ویں لوک سبھا کے دوران موجودہ وزیر خارجہ سشما سوراج کی سیٹ پر نئی لوک سبھا میں سونیا گاندھی بیٹھیں۔ ملائم سنگھ ضرور اپنی پرانی سیٹ پر برقرار تھے۔اسپیکر کی نشست کے داہنی طرف پہلی لائن میں جہاں نریندر مودی، لال کرشن اڈوانی، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی، سشما سوراج، وینکیانائیڈو اور رام ولاس پاسوان بیٹھے تھے توچیئر کے بائیں طرف پہلی لائن میں سونیا گاندھی، ملکا ارجن کھڑگے، ویرپا موئلی بیٹھے دکھائی دئے۔ پہلی لائن میں جہاں جنتادل (یو) ، مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر بیٹھا کرتے تھے وہاں انا ڈی ایم کے کی ایم پی

اربوں کا مالک سبرت رائے 45 ڈگری گرمی میں تہاڑ جیل میں!

4 مارچ کو دہلی کی تہاڑ جیل میں بند سہارا گروپ کے چیف سبرت رائے کو بدھوار کو اس وقت جھٹکا لگا جب سپریم کورٹ نے انہیں گھر میں ہی نظربند کرنے کی عرضی کو خارج کردیا لیکن ان کی رہائی کے لئے پانچ ہزار کروڑ روپے نقد اور اتنی ہی رقم کی بینک گارنٹی کا انتظام کرنے کیلئے گروپ کو پراپرٹی بیچنے کی اجازت دے دی ہے۔جسٹس پی۔ایس ٹھاکر اور جسٹس اے۔ کے سیکری کی ڈویژن بنچ نے عدالت کے پہلے حکم میں اصلاح سے متعلق حکم کے بنیادی حصے کو سناتے ہوئے کہا کہ عرضی گذار کو جیل سے باہر منتقل کرنے کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔ سبرت رائے کی رہائی کے لئے بڑی عدالت نے پہلے پانچ ہزار کروڑ روپے نقد اور اتنی ہی رقم کی بینک گارنٹی دینے کی ہدایت دی تھی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں سہارا گروپ کو 9 شہروں میں اپنی پختہ جائیداد بیچنے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے صاف کیا کہ اسے سرکل ریٹ سے کم کر نہیں بیچا جائے اور اس کا خریدار سہارا گروپ سے وابستہ نہیں ہونا چاہئے۔ عدالت کا کہنا ہے اس بکری سے ملنے والی رقم بازار یعنی سیبی کے ذریعے کھولے گئے ایک الگ کھاتے میں جمع ہوگی اور اس کے عوض میں وہ خریدار کو پروپرٹیوں کے مالکان حق کے دستاویزات جاری

نریندر مودی نے اپنی حکومت کی ترجیحات طے کیں!

وزیر اعظم نریندر مودی نے جن اشوز پر چناؤ لڑا ہے ان میں سے جو اشو مودی لہر کے لئے سب سے زیادہ موثر ثابت ہوا وہ تھا بدانتظامیہ کا اشو۔ چناؤ کمپین کے دوران مودی کا گجرات ماڈل بحث اور تنازعوں کا مرکز بنا رہا۔تمام تنازعات کے باوجود ہندوستانی رائے دہندگان نے اس بات کو تسلیم کیا اور مودی کو مکمل اکثریت دے دی۔ ظاہر سی بات ہے کہ ووٹروں کی امید اب یہ ہے کہ مودی کے دیش کی قیادت سنبھالنے سے دیش کا انتظامیہ بہتر ہوگا۔ یہ طے ہی تھا کہ نئی سرکار پرانی حکومت کے طورطریقوں سے کام نہیں کرے گی۔ وزیر اعظم نے اپنی کیبنٹ کی دوسری میٹنگ لی اور اس کے ساتھ ہی کام کاج کو رفتار دینی شروع کردی ہے۔ انہوں نے جمعرات کو کابینہ کی میٹنگ میں اپنے ساتھیوں کو 100 دن کا ایجنڈا بنانے کے احکامات دئے ہیں ساتھ ہی حکومت کے بہتر کام کاج کے لئے ایک 10 نکاتی پروگرام بھی طے کردیا ہے۔ مودی کی یہ 10 ترجیحات خاص کر انتظامی ڈھانچے اور اس کی کارکردگی سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ ترجیحات شو کرتی ہیں کہ سرکاری مشینری کو بہتر کام کرکے دکھانا ہوگا۔ حکام کو زیادہ کام کرنے کی آزادی ہوگی اور ان میں فیصلے لینے اور انہیں نافذ کرنے کی بھی آزادی ہوگی۔

دہلی کے ٹریفک قواعد پر پھر چھڑی بحث!

مرکزی وزیر گوپی ناتھ منڈے کی سڑک حادثے میں موت نے ایک بار پھر ہمیں یاد دلا دیا ہے کہ دہلی کی سڑکیں اور ٹریفک سسٹم کتنا خراب ہوگیا ہے۔راجدھانی کی سڑکوں پر روزانہ یومیہ پانچ لوگوں کی جانیں جاتی ہیں۔ دہلی میں اس سال جنوری سے 15 مئی تک581 لوگوں کی موتیں ہوئی ہیں۔پچھلے سال سڑک حادثوں میں کل1725 لوگوں کی جان گئی تھی۔ ان حادثوں کی وجہ سے رفتار، نشہ اور ٹریفک سگنل کو نظر انداز کرنا ہے۔ دہلی ٹریفک پولیس کے حکام کہتے ہیں کہ بڑے سگنل کو چھوڑ کر راجدھانی میں سگنل رات11 بجے کے بعد جلنے بجھنے شروع ہوجاتے ہیں۔رات میں اور صبح سویرے پولیس بھی سڑکوں پر برائے نام رہتی ہے ایسے میں لوگ بے فکر ہوکر ٹریفک سگنل قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق اس سال15 مئی تک رات12 بجے سے صبح8 بجے کے درمیان 147 لوگوں کی جان گئی جبکہ پچھلے پورے سال کی یہ گنتی182 تھی۔ دہلی ٹریفک پولیس کی سختی کے بعد بھی راجدھانی کے باشندے ٹریفک قوانین کو توڑنے سے باز نہیں آرہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سال در سال دہلی میں ٹریفک پولیس کے ذریعے کئے گئے چالانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ دہلی ٹریفک پولیس کے اعدادوشماکے مطابق

بھاجپا کا او بی سی چہرہ تھے گوپی ناتھ منڈے!

منگلوار کو ایک افسوسناک سڑک حادثے میں مرکزی وزیر برائے دیہی ترقی گوپی ناتھ منڈے کا انتقال ہوگیا۔ منڈے ایئر پورٹ جارہے تھے۔ انہیں ممبئی کی فلائٹ پکڑنی تھی۔ قریب6.20 بجے ان کی کار میں انڈیکا گاڑی نے زور دار ٹکر مار دی۔ یہ ٹکر ٹھیک وہاں لگی جہاں پر منڈے رہتے تھے۔ حادثے کے بعد انہیں بیہوشی کی حالت میں ایمس لایا گیا۔ ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کا ہارٹ فیل ہوگیا تھا۔ گوپی ناتھ منڈے بیڑ ضلع کے پرلی گاؤں میں ایک عام خاندان میں 12 جون1949 ء کو پیدا ہوئے تھے۔ وہ پچھڑے طبقے کے تھے۔ مہاراشٹر میں بھاجپا کا او بی سی چہرہ اور نائب وزیر اعلی گوپی ناتھ منڈے ریاست کے آئندہ اسمبلی چناؤ میں کانگریس۔ راشٹریہ کانگریس پارٹی سے اقتدار چھیننے کے لئے پارٹی کی مہم کی رہنمائی کرنے کی تیاری کررہے تھے لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ پانچ بار ممبر اسمبلی رہے گوپی ناتھ منڈے ہفتے بھر پہلے ہی مرکزی وزارت میں پہلی بار شامل ہوئے تھے۔ وہ 64 سال کے تھے۔لوک سبھا چناؤ میں شیو سینا ۔ بھاجپا گٹھ بندھن کی زبردست جیت سے جوش سے بھرے مہاراشٹر کے سابق نائب وزیر اعلی منڈے کے نام کی چرچا بطور وزیر ا

سچ دکھانے کی بھاری قیمت چکانی پڑی لوک سبھا ٹی وی کے سی ای او کو!

عا م طور پر جب نظام بدلتا ہے یعنی نئی سرکار بنتی ہے تو یہ تو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ تمام اہم جگہوں پر اپنے بھروسے کے افسران کو بٹھاتے ہیں پر یہ کم دیکھا ہے جب کوئی نیتا جاتے جاتے ایک اہم سرکاری محکمے کے سب سے سینئر افسر کو باہر کا راستہ دکھائے۔سابق لوک سبھا اسپیکر میرا کمار نے کچھ ایسا ہی کیا ہے۔ جاتے جاتے انہوں نے لوک سبھا ٹی وی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر راجیو مشرا کو باہر کا راستہ دکھا دیا۔ راجیو مشرا کی خدمات گذشتہ شکراور کی رات ایک نوٹی فکیشن جاری کر اچانک ختم کر دی گئی۔ لوک سبھا سکریٹری30 مئی2014ء کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اسپیکر نے لوک سبھا ٹی وی کے چیف ایگزیکٹو راجیو مشرا کی سروس 31 مئی2014ء تک محدود کردی ہے۔اس سے پہلے لوک سبھا سکریٹریٹ کی 17 دسمبر2013 ء کے نوٹیفکیشن میں مشرا کا ایگریمنٹ 15 دسمبر کی دوپہر سے اگلے حکم تک بڑھا دیا گیا تھا۔اس طرح تقریباً ساڑھے پانچ مہینے میں ان کی خدمات کو 31 مئی تک محدود کرتے ہوئے 1 جون سے ختم کردیا گیا۔ میرا کمار نے جاتے جاتے شکروار کی رات جس طرح راجیو مشرا کا ایگریمنٹ ختم کیا اس سے خود مشرا بھی حیران ہیں۔مشرا نے کہا کہ انہیں اس کی وجوہات نہیں

بھارت کا29واں راجیہ بنا تلنگانہ!

دہائیوں کے سنگھرش کے بعد تلنگانہ نے دیش کے29 ویں راجیہ کے طور پر آخر کار شکل لے ہی لی ہے اور چند دنوں بعدمنقسم آندھرا پردیش کے دوسری ٹکڑے سیماندھرا کو بھی30 ویں راجیہ کا درجہ مل جائے گا۔تلنگانہ راشٹریہ سمیتی(ٹی آر ایس) چیف کے چندر شیکھر راؤ آندھرا پردیش سے الگ ہوکر وجود میں آئے اس نئے راجیہ کے پہلے وزیر اعلی بنے ہیں۔ گورنر ای ایس ایل نرسمہن نے راؤ کے علاوہ ان کے بیٹے کے ۔ ٹی راما راؤ اور بھتیجے ٹی ۔ہریش سمیت11 دیگر کو بھی بطور وزیر حلف دلایا۔اس میں سابق آندھرا پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کلیان جوتی سین گپتا نے نرسمہن کو صوبے کے پہلے گورنر کے طور پر حلف دلایا۔ قابل ذکر ہے کہ کے۔ چندر شیکھر راؤ کی رہنمائی میں ان کی پارٹی ٹی۔آر۔ ایس تلنگانہ کے لئے طویل جدوجہد کرتی آئی ہے۔ جدوجہد کے دوران ان کے کئی حامیوں کو اپنی جان کی بازی بھی لگانی پڑی تھی۔سمرتھکوں کی اس قربانی کو یاد کرکے سوموار کو پہلے مکھیہ منتری کے طور پر حلف لیتے وقت چندر شیکھر راؤ جذباتی ہوگئے تھے۔ گذشتہ دنوں ودھان سبھا چناؤ میں یہاں119 سیٹوں میں سے67 سیٹیں ٹی آر ایس نے جیتی تھیں۔ اس نئے راجیہ میں 10 ضلع ہیں ان میں حیدر آباد ک

رسی جل گئی پر بل نہیں گیا!

بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوک سبھا چناؤ میں تاریخی ہار کے بعد بھی کانگریس پارٹی کے ہائی کمان کا نہ تو اہنکار ختم ہوا ہے اور نہ ہی صحیح طرح سے آتم چنتن ہی ہوا ہے۔ جہاں پارٹی کارکن کانگریس کی زبردست ہار کے بعد بلک رہے ہیں وہیں کانگریس صدر سونیا گاندھی بیٹے کی محبت کی وجہ سے پارٹی میں کوئی بدلاؤ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔جن گھسے پٹے چہروں کو لوک سبھا چناؤ میں جنتا نے ٹھینگا دکھا دیا انہیں فلاپ پیادوں کے سہارے سونیا پارٹی کو پھر سے کھڑا کرنے کی امید پالے ہوئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ لوک سبھا چناؤ نتائج کے بعد کانگریس نائب صدر راہل گاندھی پر حملے تیز ہورہے ہیں۔ اب راجستھان کے ایک کانگریس ممبر اسمبلی بھنور لال نے راہل گاندھی پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ وہ جوکروں کی ٹیم کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں ان کے پاس نہ تو دشا ہے اور نہ ہی کوئی نیتی۔ اس سے پہلے راہل کو جوکر کہنے والے کیرل کے سابق وزیر ٹی ایم مصطفی کو کانگریس سے معطل کیا جاچکا ہے۔ بھنور لال شرما نے کہا کہ کانگریس صدر سونیا گاندھی کو بیٹے کی محبت چھوڑ کر پارٹی کو لوک تانترک طریقے سے مضبوط کرنا چاہئے۔ شرما نے کہا کہ راہل اور ان کے صلاحکا

اترپردیش میں اکھلیش سرکار ہے یا جنگل راج؟

بہوجن سماج پارٹی سپریمو مایاوتی نے صحیح ہی کہا ہے کہ پورے اترپردیش میں جب سے سماجوادی پارٹی کی سرکار آئی ہے تب سے اغوا، چوری اور قتل و بلاتکار کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ایس پی کے مافیا کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ یوپی میں راشٹرپتی ساشن لگایا جانا چاہئے۔ اترپردیش میں جنگل راج چل رہا ہے جہاں نہ تو کوئی قانون و انتظام نام کی کوئی چیز ہے اور نہ ہی کوئی سرکشا ہے۔ آئے دن بلاتکار، ڈکیتی، قتل ہوتے رہتے ہیں۔ پردیش میں آئے دن ہورہے بلاتکار کے واقعات پر اکھلیش سرکار نے ایک بے تکا بیان دیا ہے۔امور داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ پردیش میں روزانہ 10 بلاتکار کا اوسط ہے اس لئے بلاتکارکی روزانہ ہورہی گھٹنائیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ محکمہ داخلہ کی پریس کانفرنس میں شکروار شام آئی جی ایس ٹی ایف آشیش کمار گپتااخباری نمائندوں کو مخاطب کررہے تھے۔ ان سے بدایوں ضلع کے اسیہٹ تھانہ علاقے میں بدھوار کو پیر پر پھانسی سے لٹکی پائی گئی دو دلت کشوریوں سے بلاتکار کے بعدقتل پر سوال کیا گیا تو انہوں نے یہ جواب دیا۔ غور طلب ہے کہ اسیہٹ تھانہ علاقے میں کٹرہ گاؤں میں دلت ذات کی 14 اور15 سال کی لڑکیاں رفع حاجت کے لئے گاؤں سے باہر گئی

دفعہ370 :نیتاؤں کے نہیں عوام کے فائدوں پر بحث ہو!

چناؤ پرچار کے دوران نریندر مودی نے کہا تھا کہ دفعہ370 کا جواز اور جموں وکشمیر پر پڑ رہے اس کے برے اثر پر بڑے پیمانے پر بحث ہونی چاہئے۔ اب سرکاربنانے کے فوراً بعد وزیر اعظم دفتر میں وزیر مملکت اور کشمیر کے اودھم پور سے ممبر پارلیمنٹ جتیندر سنگھ کے ایک بیان نے دفعہ 370 کے وجود اور جواز پر بڑی بحث کا آغاز کردیا ہے۔ ان کے بیان کے فوراً بعداس دفعہ کی حمایت اور مخالفت میں تمام ردعمل آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں عمر عبداللہ یہ کہہ کر اپنی حدیں پار کرتے دکھے ہیں کہ 370 کے ہٹنے کے بعد کشمیر بھارت کا حصہ نہیں رہے گا۔ عمر عبداللہ کے اس تبصرے پرسنگھ کے پروکتا رام مادھو نے صاف کردیا کہ دفعہ370 کے ہٹنے یا نہ ہٹنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ جموں و کشمیر ہمیشہ سے بھارت کا حصہ رہا ہے اور آگے بھی رہے گا۔ کیا عمر اسے (جموں و کشمیر) کو اپنی خاندانی جائیداد سمجھتے ہیں؟ بہت سے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نریندر مودی سرکار بنتے ہی اس متنازعہ مدعے کو اٹھانا ٹھیک نہیں ہے۔ بیکار تنازعات میں پھنسنے کا کوئی مطلب نہیں ہے لیکن دوسری جانب سینئر کانگریسی نیتا اور راجیہ سبھا سانسد و جموں وکشمیر کے مہاراجہ ڈاکٹر کرن سنگھ ب

گنگا کو نرمل بنانے کے فیصلے کا سواگت ہے!

ہمیں اس بات کی بیحد خوشی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے چناؤ پرچار میں جو وعدہ کیا تھا کہ ہم گنگا کی صفائی کریں گے اس سمت میں عہدہ سنبھالتے ہیں کام شروع کردیا ہے۔ مرکزی فروغ پانی، ندی، وکاس اور گنگا سدھار منتری اوما بھارتی نے کہا ہے کہ وہ گنگا کی بنا روک نرمل اورصاف شفاف دھارا کو لیکر پرعہد ہیں۔عہدہ سنبھالنے کے بعد بدھوار کو اوما بھارتی نے کہا کہ وہ گنگا کو صاف بنانے کی ذمہ داری ملنے کو اپنی زندگی کا سب سے اہم دن مانتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ راجہ بھاگیرتھ کے بعد نریند مودی اب گنگا کے ادارک کی بھومیکا نبھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اگلے 15 دنوں کے اندر اس بات کا پتہ لگائیں گی کہ گنگا ۔ جمنا سمیت سبھی ندیوں کو پردھوشن سے پاک بنانے کے نام پر اب تک کتنا پیسہ خرچ کیا گیا ہے۔ وارانسی سے لوک سبھا چناؤ جیتنے والے مودی نے 2019ء گنگا کی صفائی مشن کو پورا کرنے کے لئے گنگاکی بحالی وزارت خصوصی طور سے بنائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ندیوں کا دیش ہے۔ آبی وسائل وزیر مملکت گنگوار نے بھی کہا ہے کہ گنگا ندی ان کی دلچسپی کا موضوع ہے اور وہ اس کے لئے 19-19 گھنٹے کام کرکے ایک مفصل پروجیکٹ تیار کری

اسمرتی ایرانی بی ۔اے یا بی کام:حلف نامے سے اٹھے کئی سوال

وزیر انسانی فروغ اسمرتی ایرانی کی تعلیمی لیاقت کو لیکرشروع ہوئی بحث نے کئی سوال کھڑے کردئے ہیں۔ اسمرتی ایرانی کو لیکر جو تنازعہ کھڑا ہوا ہے وہ دو نقطوں پر ہے۔پہلا سوال یہ ہے کہ کیافروغ انسانی وسائل جیسی اہم وزارت کے لئے اسمرتی ایرانی سب سے اہل چناؤ ہیں؟دوسرا سوال ان کے ذریعے حلف نامے میں الگ الگ جانکاریوں کا ہے۔ جس منترالیہ کو کبھی مولانا ابوالکلام آزاد، ہمایوں کبیر، ڈاکٹر ترگن سین، پروفیسر نور الحسن و ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی جیسے اہل عالموں نے سنبھالا نریندر مودی نے یہ محکمہ ایسی نیتا کے حوالے کیا ہے جو بہت ہی ہلکے پھلکے ٹی وی سیریلوں میں اداکاری کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں۔سمجھنا مشکل ہے کہ ایک اداکارا کو تعلیم کا یہ محکمہ کیوں ؟ وہ بھی کیبنٹ کے درجے کے ساتھ؟تعلیم کے میدان میں ان کا سیدھا کوئی یوگدان نہیں ہے۔وہ خود بھی بہت تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔سرکاری طور پرتعلیم کی کوئی بندش ہمارے ممبران پارلیمنٹ یا وزیروں پر تو لاگو بھی نہیں ہوتی۔ وہ دیش کے اتنے بڑے سماج کے سیدھے سمپرک میں رہتے ہیں۔ ان کے مسائل کو سمجھنے اور سلجھانے میں ان کا کردار بغیر روایتی تعلیم کے بھی اہم ہوجاتا ہے لیکن دیش کا