بجلی کمپنیوں کا سی اے جی آڈٹ کرانے کا لائق تحسین فیصلہ!

یہ خوشی کی بات ہے کہ عام آدمی پارٹی کی سرکار نے چناؤ کے دوران کیا گیا ایک اور وعدہ پورا کردیا ہے۔ دہلی کی پرائیویٹ بجلی تقسیم کمپنیوں کے کھاتوں کی جانچ سی اے جی سے کرائی جائے گی۔ ریاستی سرکار کی سفارش پر دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ نے بدھوار کی شام بجلی کمپنیوں کو احکامات دئے ہیں۔ جن کمپنیوں کی جانچ سی اے جی کرے گی وہ ہیں بی ایس ای ایس یمنا پاور لمیٹڈ، بی ایس ای ایس راجدھانی پاور لمیٹڈ، ٹاٹا پاور دہلی ڈسٹریبیوشن لمیٹڈ۔ ان میں سے بی ایس ای ایس یمنا پاور لمیٹڈ مشرقی دہلی میں بجلی تقسیم کا کام دیکھتی ہے۔ اسی طرح بی ایس ای ایس راجدھانی پاور لمیٹڈ ساؤتھ دہلی اور ٹاٹا پاور دہلی ڈسٹریبیوشن لمیٹڈ نارتھ دہلی کے علاقے میں بجلی تقسیم کرتی ہے۔ بی ایس ای ایس کی دونوں کمپنیاں ریلائنس گروپ کی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ عام آدمی پارٹی نے دہلی اسمبلی چناؤ کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ بجلی کمپنیوں کے بلوں کی جانچ کرائے گی اور وہ وعدہ اس تصور پر مبنی تھا کہ بجلی کمپنیاں گڑ بڑی کرتی ہیں۔ بجلی میٹرکافی تیز چلتے ہیں اور بلوں میں دھاندلی ہوتی ہے۔ ممکن ہے کے اس میں سچائی بھی ہو اس کی جانچ کا جو فیصلہ اروند کیجریوال نے کیا ہے وہ لائق خیر مقدم ہے۔ اسی طرح بجلی کے میٹروں کی جانچ بھی ضروری ہے۔ ٹرانسمیشن میں ہونے والے نقصان بھی ہے۔ یہ ایسا کام ہے جو دہلی سرکار کو کرنا چاہئے تھا لیکن ایسی کسی جانچ کے نتیجے آنے سے پہلے صرف چناوی وعدہ نبھانے کے نام پربجلی کے دام آدھے کرنے کا فیصلہ کسی بھی طرح سے دلیل آمیز نہیں کہا جاسکتا۔ خاص کر اس لئے کے ابھی ہمیں معلوم نہیں کہ یہ سبسڈی دی جارہی ہے اس کا پیسہ کہاں سے آئے گا؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکار نے بجلی کی شرحوں کو آدھے کرنے کے بجائے سبسڈی 50 فیصدی تک بڑھا کر 400 یونٹ تک کی کھپت والوں کو 31 مارچ تک فوری راحت دے دی ہے۔دہلی سے متعلق مسائل دور کرنے کا وعدہ پورا کرنا ابھی باقی ہے۔ بجلی کے دام آدھے کرنے سے سرکار پر سبسڈی کا بوجھ 200 کروڑ روپے پڑے گا۔ تقسیم کرنے والی کمپنیوں پر پڑنے والے بوجھ کو پورا کرنے کے لئے ٹاٹا پاور کو61 کروڑ اور ٹرانسکو کو 139 کروڑ روپے دئے جائیں گے۔ بی ایس ای ایس راجدھانی اور بی ایس ای ایس یمنا پاور کو کچھ نہیں ملے گا کیونکہ ان پر 45000 کروڑ روپے پہلے ہی سے باقی ہیں۔ بجلی کمپنیوں سے سبسڈی دینا ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو دینے جیسا ہے۔ ان سے ریٹ پلٹوانے کی بجائے انہیں ہی سبسڈی دی جارہی ہے۔ سبسڈی کا یہ بوجھ ٹیکس کی شکل میں دہلی والوں کی جیب سے ہی نکلا پیسہ ہوگا۔ دہلی والوں کا اصلی غصہ تیز بھاگتے میٹروں اور بے تکے چارجز کو لیکر تھا کسی ایک ماہ میں گھریلو تقریب کے سبب بڑھی کھپت کی بنیاد پر بڑھاہوا لوڈ ہمیشہ کے لئے برقراررکھنا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مسائل کب دور ہوں گے یہ کوئی نہیں جانتا۔ بہرحال بجلی کمپنیوں کے کھاتوں کی جانچ سی اے جی سے کروانے سے آر ڈبلیو اے بہت خوش ہیں۔ راجو ککاریا جو آر ڈبلیو اے گریٹر کیلاش کے پردھان ہیں، کہنا ہے کہ سی اے جی آڈٹ کا خیرمقدم ہے لیکن اس بات کی سی اے جی کو جانچ کرنی چاہئے کہ ٹیکس اتھارٹی میں ڈسکوم میں کیا اسٹیٹمنٹ داخل کیا ہے۔ کیونکہ اتھارٹی میں ڈسکوم کی طرف سے فائدہ دکھایا گیا ہے اور ڈی ای آر سی میں خسارہ۔سورب گاندھی جو یونائیٹڈ ریزیڈنٹ آف دہلی کے جنرل سکریٹری ہیں کا کہنا ہے سی اے جی آڈٹ کا خیر مقدم ہے۔ لڑائی شروع سے آر ڈبلیو اے ہی لڑ رہا ہے جسے وزیراعلی اروند کیجریوال نے پورا کردیا ہے۔ سی اے جی کے ذرائع کے مطابق جیسے ہی آڈٹ کے لئے باقاعدہ خط ملے گا اس سمت میں کام شروع کردیا جائے گا۔ تینوں بجلی کمپنیوں سے جولائی2002 ء سے لیکر اب تک کے کھاتوں سے متعلق دستاویز اور آمدنی خرچ سے وابستہ کاغذات مانگے جائیں گے۔ یہ ملنے کے بعد ان کے کھاتوں کی جانچ شروع ہوگی ابھی تک ان بجلی کمپنیوں کو لگ رہا تھا کہ پرائیویٹ کمپنی ہونے کے ناطے ان کا سی اے جی آڈٹ نہیں ہوسکتا لیکن سرکار کی سختی کے سامنے ڈسکوم کے دعوے دھرے رہ گئے۔اور کئی برسوں سے دہلی کے عام بجلی صارفین کے ساتھ ساتھ ڈی آر سی بھی درپردہ طور سے ڈسکوم کے کھاتوں کی جانچ کی مانگ سی اے جی سے کرانے پر متفق تھی لیکن سابق دہلی سرکار کی کمزور قوت ارادی یا دیگر اسباب سے وہ اسے ٹالتی رہی۔ مسئلہ محض بجلی کمپنیوں کے آڈٹ کا نہیں بیشک اس کے اچھے نتائج ملنے کی امید ہے لیکن اصل ضرورت بجلی سیکٹر میں بڑے سدھار کی ہے۔ بجلی پیدا کیسے ہو؟ ٹرانسمیشن کیسے ہو؟ کم چوری کیسے ہو؟ اس کو روکا جائے وغیرہ وغیرہ اس پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟