اشاعتیں

نومبر 25, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

زی نیوز کے مدیروں کی گرفتاری نے کھڑے کئے کئی سوال

زی نیوز کے سینئر مدیر سدھیر چودھری اور زی بزنس کے مدیر ثمیر اہلووالیہ کی گرفتاری کے ساتھ ہی کئی سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ کیا جمہوریت کے دو ستون اپنی اپنی حیثیت اور اختیارات کا بیجا استعمال تو نہیں کررہے ہیں۔ دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے طویل چھان بین کے بعد یہ گرفتاریاں کی ہیں۔ کاروباری جندل گروپ کے چیئرمین و کانگریسی ایم پی نوین جندل نے الزام لگایا تھا کہ کوئلہ گھوٹالے کی کوریج دبانے کے لئے ان مدیروں نے ان کی کمپنی سے100 کروڑ روپے کی مانگ کی تھی ۔ اس سے تنگ آکر جندل نے اس بات چیت کا اسٹنگ آپریشن کروالیا تھا۔ اس معاملے میں جانچ پڑتال کرنے والی پولیس ٹیم کا دعوی ہے کہ اس نے سی ڈی کی فورنسک جانچ کرا لی ہے۔ دوسری طرف زی نیوز نے جندل کے الزامات کی تردید کی ہے۔ زی نیوز کے سی ای او آلوک اگروال نے الزام لگایا کہ یوپی اے سرکارII اپنی غلطیوں کے چلتے میڈیا کو ڈرا دھمکا رہی ہے۔ اگروال اور زی گروپ کے وکیل آر کے ہانڈو نے گرفتاری اور اس کے وقت پر سوال کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ جان بوجھ کر چھٹی والے دن سے پہلے گرفتاری کی گئی تاکہ انہیں ضمانت نہ مل سکے۔ ہانڈو نے کہا گرفتاری اس دفعہ کے تحت کی گئی ہے جو غیر

کیا بیٹے کو جج باپ کے سامنے پیش ہونا چاہئے؟

سپریم کورٹ میں تو یہ روایت رہی ہے اگر کسی وکیل کا والد سپریم کورٹ میں جج ہے تو وہ وہاں سے پریکٹس چھوڑدیتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس جسٹس اے ایم احمدی اور بی۔ این کھرے اس کی مثال ہیں۔ ان دونوں کے بیٹوں نے والدین کے سپریم کورٹ میں رہتے ہوئے بڑی عدالت میں آنا چھوڑدیا تھا لیکن اب بڑی عدالت میں مقرر 8 ججوں کے بچے یہاں وکالت کرتے ہیں۔ ایک جج جسٹس سے ۔ کے پرساد کے لڑکے تین ریاستوں کے اے آر آئی پینل میں ہیں۔ جن کے مقدمے ان کے والد کے سامنے پیش ہوتے رہتے ہیں لیکن وہ ان مقدموں میں پیش نہیں ہوتے۔ ذرائع کے مطابق مفادات کے ٹکراؤ کے اس مسئلے سے بچنے کے لئے سپریم کورٹ نے اپنے ماتحت افسر کو باقاعدہ حکم دیا ہے کہ وہ ان مقدموں کو ججوں کے سامنے نہ لگائیں جن میں ان کے بچے وکیل ہیں۔ کم و بیش اس حکم کی تعمیل ہورہی ہے اور ابھی تک اس بارے میں کوئی خاص شکایت نہیں ملی ہے۔ سپریم کورٹ کے ذرائع کے مطابق ایک بار ایک جج کے لڑکے کے بارے میں شکایت آئی تھی کہ وہ اپنے والد کا حوالہ دیکر لوگوں کو اثر انداز کررہا ہے۔ اس شکایت پر چیف جسٹس (اب ریٹائرڈ) نے متعلقہ جج کو آگاہ کردیا۔ جس کے بعد معاملہ سلجھ گیا۔ اس بارے میں سپریم کو

اور آخر کارحکومت کو اپوزیشن کے آگے جھکنا ہی پڑا!

یوپی اے کے سپہ سالاروں نے اپوزیشن اتحاد کو توڑنے کی بہت کوشش کی لیکن ایف بی آئی ایک ایسا اشو ثابت ہوا کہ آخر کار منموہن سرکار کو اس کے آگے جھکنا پڑا۔ اپوزیشن اتحاد اور عظم رنگ لیا۔ مسلسل چار دنوں تک پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ کرنے والی بھاجپا اور لیفٹ پارٹیوں کے اڑیل رویئے کے آگے حکومت کو جھکنا پڑا۔ منگل کو اتحادی پارٹیوں کی میٹنگ میں اتحاد سے مطمئن ہو جانے کے بعد کانگریس کی قیادت والی یوپی اے حکومت نے خوردہ بازار میں 51فیصد غیرملکی سرمایہ کاری کے فیصلے پر مہر لگانے کے لئے بحث کے ساتھ ووٹنگ کرانے کا فیصلہ لوک سبھا اسپیکر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین پر چھوڑدیا ہے۔ سرکار قاعدہ184 کے تحت لوک سبھا میں اور قاعدہ167 کے تحت راجیہ سبھا میں بحث کو تبھی تیار ہوئی جب اس کو ایسا لگنے لگاکہ ووٹنگ میں اس کے پاس درکار نمبرپورے ہوگئے ہیں۔ ڈی ایم کے پارٹی نے اپنی کڑواہٹ کو درکنار کرتے ہوئے اسے گرنے سے روکنے کا وعدہ کیا جبکہ ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس ووٹنگ پر زور نہ دینے پر مان گئیں۔ یہ ہی ممتا ایف ڈی آئی سمیت کئی مسئلوں پر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں تھیں۔ سپا اور بسپا کو آخر کار سرکار ک

ساتھی کو بچانا تو دور رہا ،بدمعاشوں کو فرار ہونے کا موقعہ دیا

واردات رات میں قریب2.10 بجے کی ہے۔ ہیڈ کانسٹیبل رام کرشن اپنے ساتھی سپاہی جے کے سنگھ کے ساتھ جوں ہی بارڈرپر گاڑیوں کی چیکنگ کررہا تھا اسی بیچ نائٹ پیٹرولنگ پر آئے ایس آئی خزان سنگھ اور ہیڈ کانسٹیبل وجیندر بھی وہاں پہنچ گئے۔خزان سنگھ ٹکٹ پر رجسٹر کی جانچ کرنے لگا تبھی ہریانہ کی طرف سے ایک سفید رنگ کی ہونڈا سٹی کار وہاں آئی ۔ رام کرشن نے کار کو روک کر ڈرائیور سے اس کے کاغذات کی مانگ کی۔اسی بات پر دونوں کے بیچ بحث ہونی لگی۔ اسی بیچ بدمعاشوں نے رام کرشن پر گولیاں داغ دیں۔ فائرنگ کرتے ہوئے بدمعاشوں نے کار بیک کی اور فرار ہوگئے۔ یہ واردات ایتوار کی رات کی ہے۔ موقعہ واردات کے اطراف میں کھیت واقع ہیں اس وجہ سے کار کو دوری تک دوڑانے میں کافی دقت آئی۔لیکن بدمعاشوں کے پاس اتنا وقت تھا کہ ان میں سے دو نے باہر نکل کر گاڑی کودھکا دے کر اسے باہر نکالا اور اس میں بیٹھ کر فرار ہوگئے۔ اگر پولیس والے چاہتے تو ان بدمعاشوں کو پکڑا جاسکتا تھا۔ ان پولیس ملازمین کے پاس رائفل ،پستولیں بھی تھیں ۔ یہ اطلاع ملی ہے کہ دیوالی تہوار کے درمیان بھی ہیڈ کانسٹیبل رام کرشن نے رات میں ڈیوٹی کے وقت ایسے ہی بدمعاشوں کی

کانگریس کا چناوی ہتھکنڈہ !کیش فار ووٹ

یوپی اے سرکار نے 2014 لوک سبھا چناؤ کی تیاری زور شور سے شروع کردی ہیں۔ وہ ایک بار پرانے آزمائے ہوئے فارمولے پر کام کرنے جارہی ہے۔ مرکزی حکومت نے اپنے ووٹ پکے کرنے کے لئے غریبوں کو سیدھے پیسوں کو بانٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کانگریس پارٹی کو امید ہے کہ جب سیدھے لوگوں کے کھاتوں میں پیسہ جمع ہوگا تو سارے گھوٹالوں، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری، بجلی پانی و قانون و انتظام سب کو بھول جائیں گے اور کانگریس پارٹی کو2014ء کے چناؤ میں ووٹ دیں گے۔ ایسا ممکن ہوسکتا ہے اور نہیں بھی۔ یوپی اے سرکار کی اسکیم کامیاب ہوئی تو دیش میں سبسڈی کا خاکہ 2013ء کے آخر تک بدل جائے گا لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں۔ پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے۔ سبسڈی کے نقدی منتقلی یعنی اس کا فائدہ حاصل کرنے والوں کو براہ راست نقد مالی امداد دینے کی اسکیم میں سیاسی خطرہ بھی ہے۔ وزیر مالیات پی چدمبرم نے اعلان کیا ہے15 ریاستوں کے 57 اضلاع میں کیش ٹرانسفر کا کام 1 جنوری2013 ء سے ہوگا۔ سارے دیش میں اسے اگلے سال کے آخر تک پورا کرلیا جائے گا۔ پیر کی دیر رات ساتھی وزرا کے ساتھ ہوئی ملاقات میں وزیر اعظم منموہن سنگھ نے غریب لوگوں کے بینک کھاتے کھلوان

پلاسٹک پر پابندی کتنی کارگر ثابت ہوگی؟

راجدھانی میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کا نوٹیفکیشن دہلی حکومت نے23 اکتوبر 2012ء کو جاری کیا تھا۔ نوٹیفکیشن میں پابندی کو لاگو کرنے کے لئے 30 دن کی مہلت دی گئی تھی۔ جمعرات کو یہ طے میعاد ختم ہوچکی ہے اور حکومت نے بھی جمعرات سے پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی پوری طرح سے لگانے کی تیاری کرلی ہے۔ اب تو نہ پلاسٹک تھیلیوں کی پیداوار ہوگی اور نہ ان کو منگایا جاسکے گا اور نہ ہی کوئی دوکاندار اور ہول سیلریاریڑھی والا سامان بیچنے کے لئے پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال و اسٹاک رکھ سکے گا۔ یہ پابندی اخباروں کے پلاسٹک کوروں اور پلاسٹک فلموں، پلاسٹک ٹیوب پر بھی عائد ہوگی۔ اس کی خلاف ورزی کرنے پر 1 لاکھ روپے جرمانہ و پانچ سال کی سزا ہے جبکہ میڈیکل کچرا مینجمنٹ و دیگر سامان قواعد والی دفعہ1998 کے تحت استعمال ہونے والی پلاسٹک تھیلیوں پر پابندی عائد نہیں ہوگی۔ ایک ماہر کے مطابق فی الحال دہلی میں پلاسٹک بیگ بنانے کے قریب400 کارخانے چل رہے ہیں۔ ان کا سالانہ کاروبار 800 کروڑ روپے سے لیکر 1000 کروڑ روپے تک کا ہے۔ دہلی سرکار نے بیشک پلاسٹک تھیلیوں پر پابندی لگادی ہے۔اسے لاگو کرنا اتنا آسان نہیں۔ ماہرین کی ما

رام جیٹھ ملانی، یشونت سنہا کے بعد اب شتروگھن سنہا!

بھاجپا پردھان نتن گڈکری کی مشکلیں بڑھتی جارہی ہیں ایک طرف جہاں پارٹی میں ان کے استعفے کی مانگ کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے وہیں دوسری طرف پورتی کمپنی کو لیکر نئے انکشافات سے پارٹی بیک فٹ پر آگئی ہے۔ گڈکری کی کمپنی میں سرمایہ لگانے والی کمپنیوں میں اپنے خاندان کے افراد کے شامل ہونے کی خبر کے بعد پارٹی نے پہلے کی طرح ان کا بچاؤ نہیں کیا۔ پورتی میں پیسہ لگانے والی کمپنیوں کے انکشاف سے آر ایس ایس وچارک اور اکاؤنٹنٹ ایس گورو مورتی کی نتن گڈکری کو دی گئی کلین چٹ پر بھی سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ میڈیا میں آئی خبروں میں بتایا گیا ہے پورتی میں سرمایہ کرنے والی 18 میں سے6 کمپنیاں نتن گڈکری خاندان کے لوگوں کی ہیں۔ گورو مورتی نے بھاجپا لیڈروں کو بتایا تھا کہ18 کمپنیوں کے ذریعے سرمایہ کا سارا گول مال کاروباری منیش مہتہ نے کیا ہے۔ لیکن ان خلاصوں کے بعد وہ غلط ثابت ہوگئے ہیں۔ بھاجپا پردھان کے طور پر نتن گڈکری کی میعاد اگلے میں (دسمبر ) میں ختم ہورہی ہے۔ رام جیٹھ ملانی اور یشونت سنہا کی کھلی بغاوت کے بعد اب شتروگھن سنہا بھی ان کے خلاف میدان میں اتر آئے ہیں۔ نتن گڈکری کے استعفے کا مطالبہ کرنے والو

اروندکجریوال کی عام آدمی پارٹی

خود کو کرپشن کے خلاف کھڑا ایک عام آدمی بتانے والے اروند کجریوال نے اب اپنی پارٹی کا نام بھی طے کرلیا ہے۔ اور اپنی سیاسی پارٹی کے لئے بھی نام ’عام آدمی پارٹی‘ رکھ لیا ہے۔ ایتوار کو 300 سے زیادہ بانی ممبران کی میٹنگ میں آئین کو منظوری دی گئی۔ پارٹی نے پیر سے باقاعدہ کام بھی شروع کردیا ہے۔ کجریوال کا دعوی ہے کہ اس کے ذریعے وہ سیاست میں عام لوگوں کو خاص جگہ دلوائیں گے۔ ابھی تک تو غیر سیاسی تنظیم کی شکل میں ہلچل مچانے اور سرخیاں بٹورنے میں کامیاب رہی ٹیم کجریوال یعنی عام آدمی پارٹی کے سامنے چیلنج ا س لئے زیادہ دکھائی پڑ رہے ہیں کیونکہ اس سے توقعات میں اضافہ ہوا ہے اور ان توقعات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انا ہزارے کے سپہ سالار بن کر اپنی پہچان بنانے والے کجریوال نے کچھ ایسے اشو اٹھانے کی ہمت دکھائی جو آج تک کسی سیاسی پارٹی نے نہیں اٹھائے۔ اس سے جنتا میں نہ صرف ان کی الگ پہچان بنی بلکہ توقعات بھی ان سے بڑھ گئی ہیں۔ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی دوسری سیاسی پارٹیوں سے الگ کیسے ہے؟ اس سوال کے جواب میں کجریوال نے بتایا کہ ہم سارے چندے اور خرچ کی تفصیل یقینی طور پر عام کریں گے۔ہماری پارٹی میں

آج مقدمہ ہارے گا ،کل پدم بھوشن دے دینا

اترپردیش کے دہشت گردی کے واقعات کے مسلمانوں کو بے قصور بتاکر مقدمے واپس لینے کی اترپردیش حکومت کی کوششوں کی مخالفت تیز ہوگئی ہے۔ سیاسی پارٹیوں سے لیکر عدالتوں میں اس کی مخالفت کی جارہی ہے۔آئین ساز کونسل میں کانگریس کے لیڈر نصیب پٹھان نے کہا دہشت گردی کی ملزمان پر سے مقدمے واپس لینے کا یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ بھاجپا پردیش پردھان ڈاکٹر لکشمی کانت باجپئی نے کہا کہ ہائی کورٹ کے تلخ تبصرے کے باوجود بھی سپا سرکار نے اقتدار میں بنے رہنے کا اخلاقی حق کھودیا ہے۔ ان کا کہنا ہے دہشت گردانہ سرگرمیوں کے خلاف جہاں ایک طرف پوری دنیا لڑرہی ہے وہیں سپا حکومت دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ملزم لڑکوں کو ووٹ کے لالچ میں چھوڑے جانے کی کارروائی کررہی ہے۔ بھاجپا کے ترجمان راجندر تیواری نے کہا سپا حکومت نے ایک طبقہ خاص کو خوش کرنے کے لئے ساری حدیں پار کردی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نہ تو یہ حکومت قانون و نظم پر کوئی کنٹرول کر پارہی ہے اور نہ ہی دیش کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی سمت میں کوئی ٹھوس قدم اٹھا پا رہی ہے۔ سب سے تلخ تبصرہ الہ آباد ہائی کورٹ نے کیا ہے۔ سی آر پی ایف کیمپ پر آتنکی حملے جیسے واقعا

طالبانی فرمان : شیعوں سے عقیدت کا ٹکراؤہے ،و ہ ایش نندک ہیں

پاکستان میں چاہے ہندو ہوں، عیسائی ہوں انہیں تو نشانہ بنایا ہی جاتا ہے لیکن شیعوں کو نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ آئے دن شیعوں کی مساجد و جلوسوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تازہ واقعہ پاکستان کے شورش زدہ خیبر پختونخواہ صوبے میں ڈیرہ اسماعیل خاں میں ہوا ہے۔ باہری علاقے میں واقعہ ایک امام باڑے سے نکلے شیعہ جلوس کو نشانہ بنا کر سڑک کے کنارے رکھے بم کو اڑا کر7 لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا جبکہ دیگر18 زخمی ہوئے ہیں۔ چشم دید گواہوں اور پولیس نے بتایا کہ بم کو ایک کوڑے کے ڈھیر میں چھپا کر رکھا گیا تھا۔ جلوس شہر کے بڑے اجتماع میں شامل ہونے جارہا تھا۔ دھماکے میں چار بچوں سمیت 7 افراد کی موت ہوگئی۔ زخمیوں میں دو بچے اور ایک پولیس ملازم شامل ہے۔ پولیس نے بتایا بم تقریباً 10 کلو گرام دھماکے کی صلاحیت کا تھا۔ اس میں بال بیرنگ اور دیگر چیزیں لگائی گئی تھیں۔ ٹی وی کے مناظر میں کئی مکانوں کی دیواریں گرتی ہوئی دکھائی گئیں۔ سن680 عیسوی میں امام حسین کی شہادت پر غم جتانے کے لئے یوم عاشورہ پر شیعہ فرقے کے لوگ جلوس نکالتے ہیں۔ تمام سکیورٹی انتظام کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں۔ طالب

پونٹی اور ہردیپ چڈھا کا قتل کس نے اور کیوں کیا؟معمہ برقرار

پونٹی چڈھا اور ان کے بھائی ہردیپ چڈھا کو کس نے مارا اور کیوں مارا؟ یہ اس ہائی پروفائل قتل کی واردات کے 7 دن بعد بھی واضح نہیں ہوسکا۔ شروع میں بتایا گیا کہ چھوٹے بھائی ہردیپ نے پونٹی کو مارا اور اتراکھنڈ اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین سکدیو سکھ نامدھاری کے پی ایس او نے اپنی کاربائن سے بندوق سے ہردیپ کو دو گولیاں ماردیں۔ بدھوار کو آئی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق پونٹی کو 7 گولیاں لگیں ، پونٹی کو 2 گولیاں ان کی چھاتی پر لگی تھیں۔ یہ دل اور پھیپھڑوں میں پھنس گئیں جس سے دل میں پنچر ہوگیا۔ پولیس کے مطابق دو گولیاں ان کے پیر اور باقی تین جسم کے نچلے حصے میں لگیں۔ وہیں ہردیپ کو جو دو گولیاں لگیں وہ جسم سے آر پار ہوگئی تھیں۔ پولیس کے ذرائع کے مطابق فارم ہاؤس کے اندر اور باہر کمپلیکس میں قریب80 راؤنڈ گولیاں چلی تھیں۔ ان سبھی کے خول مل گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب اتنی گولیاں چلیں تو یہ کیسے ہوا مرنے والے صرف پونٹی اور ہردیپ دو ہی شخص تھے؟ پونٹی کے ساتھ نامدھاری بیٹھے ہوئے تھے ان کو کوئی گولی کیوں نہیں لگی؟ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد پولیس کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ چڈھا بھائیوں کو 9 گولیاں لگی ت