اشاعتیں

دسمبر 18, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

دنیا کے کئی ملکوں کی کمان ہندوستانیوں کے پاس!

آئر لینڈ کی فائن گیل پارٹی کے نیتا ہندوستانی نژا لیو براڈکر کو آئر لینڈ کی پارلیمنٹ کے نچلے ایوان میں ووٹنگ کے بعد ملک کا نیا وزیر اعظم چنا گیا ۔ آئر لینڈ اس میں اکیلا ہی نہیں ہے ہندوستانی نژاد صدر مملک برطانیہ کے رشی سونک وزیر اعظم بنے ہیں۔ یوروپ میں ہندوستانی نژاد لیڈروں میں اٹونیو کوسٹا کا نام خاص طور سے لیا جاتا ہے۔ وہ پرتگال کے وزیر اعظم ہیں اور اسٹوسس کے والد اورلیڈو کوسٹا ایک کوی تھے ۔انہوںنے سرمایہ کار ی مخالف تحریک میںحصہ لیا تھا اور پر تگالی زبان میں شہن آف اینگر نامی مشہور کتاب لکھی تھی۔دادا لوئی الفانسو ماریہ ڈی کوسٹا بھی گوا کے باشندے تھے حالاںکہ اٹونیوکوسٹا کی پیدائش مذمبق میں ہوئی ۔لیکن ان کے رشتہ دار آج بھی گو امیں رہتے ہیں ۔اپنی ہندوستانی پہچان پر کوسٹا نے ایک بار کہا تھا کہ گوری چمڑی کے رنگ سے مجھے کبھی بھی کچھ کہنے سے روکا میں اپنی چمڑی کے رنگ کے ساتھ مل جل کر رہتا ہوں ۔یہی نہیں کوسٹا بھارت کے اوسیائی کارڈ ہولڈروںمیں ہیں بھارت کے وزیر اعظم نریندرمودی نے سال2017میںانہیں انکا اوسیائی کارڈ دیا تھا ۔ ماریشش کے وزیر اعظم جگن ناتھ بھی ہندوستانی نژاد لیڈر ہیں جن کی جڑیں بھا

بڑھتی جھڑپیں بڑھتی تجارت !

بھار ت اور چین کی سرحدوں پر ایک بار پھر سے کشیدگی بڑھ گئی ہے ۔ اس مرتبہ کشید گی کے مرکز میں لداخ کی جگہ اروناچل پردیش کی سرحدیں ہیں ۔ اس کی وجہ کہ 9دسمبر کی صبح توانگ سیکٹر کے ینگسٹر س میں بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان تشدد آمیز جھڑپیں ہوئیں۔ اس جھڑپ میں کچھ ہندوستانی فوجیوں کو چوٹیں بھی آئیں۔ اس سے پہلے گلوان وادی میں خونی جھڑپ میں 20ہندوستانی جوانوںکی موت ہو گئی تھی ۔ اس بعد دونوں ملکوںمیں کشید گی انتہا ءپر پہنچ گئی تھی۔ گلوان سے پہلے دونوں دیش دوکلام میں قریب ڈھائی مہینے تک ایک دوسرے کے سامنے تنے کھڑے رہے ۔پچھلے سال چین اور بھارت کے درمیان ایک طرف جہاں تعطل بڑھا ہے وہیں دوسری طرف چین پر بھارت کے انحصار میں بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اس درمیان چین سے سامان خریدنے میں بھارت نے قریب 60فیصد تجارت میں اضافہ کردیا ہے۔ آسان لفظوںمیں کہیں تو سال 2014میں بھارت اور چین سے سامان خریدنے پر 100روپے خرچ ہوتا تھا آج یہ بڑھ کر 160روپے ہوگئے ہیں۔ ڈپلومیسی میں کہتے ہیں جس ملک سے خطرہ محسوس ہو اس پر انحصار کم کرلینا چاہئے ۔ایسے ہی وعدے حالیہ دنوںمیں روس یوکرین جنگ کے بعد مغربی ملکوںنے بھی کئے ہیں۔

20منٹ کی فلائٹ اور مشقت 5گھنٹے کی !

ایک طرف تو دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ فلانا ہائیوے بنادیا گیا ہے اور آپ اس ہائیوے سے دو گھنٹے میں دہلی سے ڈیڑھ گھنٹے میں آگرہ ،دو گھنٹے میں دہرادون ،چار گھنٹے میں جے پور ،چنڈی گڑھ سے شملہ پہنچ سکتے ہیں ۔وہیں انہیں شہروں کیلئے محض 50منٹ کی فلائٹ کیلئے وزراءکو پانچ سے چھ گھنٹے لگ رہے ہیں۔ہوائی اڈوں پر کافی وقت تک انتظار کرنے کی بڑھتی شکایتوں کے درمیان ایئر لائنز کمپنیوں نے اب مسافروں کو کم سے کم ساڑھے تین گھنٹے پہلے پہنچنے اور جانچ پڑتال کرانے اور تیز رفتار سے کام کاج کے نپٹارے کیلئے صرف ایک ہینڈ بیگ ساتھ رکھنے کی صلاح دے ڈالی ۔ انڈیگونے گھریلو مسافروں سے کہا کہ ڈیپارچر سے ساڑھے تین گھنٹے پہلے دہلی ایئر پورٹ پہنچیں ،ہینڈ بیگ کا وزن سات کلو سے زیادہ نہ ہو۔ وستارا نے مسافروں سے تین گھنٹے پہلے ایئر پورٹ پہنچنے کی اپیل کی ۔اسپائس جیٹ نے بھی ایسے ہی شرط لگائی ہے اس نے ممبئی ایئر پورٹ سے فلائٹ پکڑنے والے گھریلو مسافروں کو ڈیپارچر سے ڈھائی گھنٹے پہلے اور انٹر نیشل فلائٹ لینے والوں کو ساڑھے تین گھنٹے پہلے ایئر پورٹ پہنچنے کیلئے کہا ۔ ادھر منگل روز بھی مسافروں کو دہلی ایئر پورٹ پر بد انتظامی کی شکایت

ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟

سپریم کورٹ نے کہا کہ شخصی آزادی کی مثال پر اگرقدم نہیں اٹھاتے تو ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ بڑی عدالت شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سے جڑے معاملوں میںکاروائی نہیں کرتی تو یہ آئین کی دفعہ 136کے تحت ملے اختیارات کی خلاف ورزی ہوگی چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والی بنچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک حکم کو خارج کرتے ہوئے سوال کیا کہ ہم یہاں کیوں ہیں؟ اگر ہم اپنی ضمیر کی نہیں سنتے ہیں بنچ نے کہا کہ سپریم کورٹ کیلئے کوئی بھی معاملہ چھوٹا نہیں ہوتا ۔اگر ہم شخصی آزادی سے جڑے معاملوں میں کاروائی نہیں کرتے اور راحت نہیں دیتے تو ہم یہاں کیا کر رہے ہیں؟ سی جے آئی چندر چوڑ نے یہ رائے زنی بجلی چوری کے ایک ملزم کی ضمانت عرضی پر سماعت کے دوران کی ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کیلئے کوئی معاملہ چھوٹا نہیں ہے ۔ چیف جسٹس کی اس رائے زنی کو وزیر قانون کیرن رجیجو کو جواز سمجھا جا رہا ہے ۔ کیوں کہ انہوںنے ایک دن پہلے ہی پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ کو ضمانت جیسے معاملوں کی سماعت نہیں کرنی چاہئے بلکہ آئینی معاملوںکی سماعت تک محدود رہنا چاہئے۔معاملوں میں عرضی گز