اشاعتیں

نومبر 13, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

نوٹ بندی یا جینے کی جدو جہدمیں موت

نوٹ بندی کے فیصلے سے آج سارا دیش قطار میں کھڑا ہے۔ بنیادی ضرورتوں و اپنی بھوک مٹانے کے لئے اپنے ہی پیسوں کو پانے کیلئے دوبارہ جدوجہد لوگوں کیلئے جان لیوا ثابت ہورہی ہے۔ 1000-500 کے نوٹ بند کئے جانے کے بعد جس طرح بینکوں و اے ٹی ایم کے آگے قطاریں لگ رہی ہیں اور جس طرح لوگ دشواری کا سامنا کرنے پر مجبور ہورہے ہیں اس سے تو پورے دیش میں قریب37 لوگوں کی اب تک موت ہوچکی ہے۔ اس میں زیادہ تر موتیں صدمے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ کئی لوگوں نے پریشانی کی وجہ سے خودکشی تک کرلی ہے۔ یہ دعوی برطانیہ کی ایک نیوز ویب سائٹ ’ہفنگن پوسٹ ‘ نے تمام میڈیا رپورٹوں کو ریکارڈ بنا کر دعوی کیا ہے کہ مہاراشٹر کے ناندیڑ ضلع میں بدھوار کو بینک کی لائن میں کھڑے 70 سال کے شخص کی موت ہوگئی۔ پولیس کے مطابق دگمبر مرمبا چھپا قصبے میں ایس بی آئی کے باہر لائن میں کھڑا یہ شخص اچانک بے ہوش ہو کر گر گیا اور ہسپتال جاتے وقت دم توڑ دیا۔ پرانی دہلی کے لال کنواں علاقے میں واقع بینک آف انڈیا کی برانچ میں پچھلے تین دنوں سے روزانہ نوٹ بدلوانے کے لئے قطار میں لگنے پر مجبور سعید الرحمان (48 سال) کی قریب 12 بجے لائن میں لگنے سے دل کا دورہ پڑا

ایل او سی پر جنگ تو پاکستان تھوپ رہا ہے

ایسا بہت کم ہوا ہے جب جموں و کشمیر میں پاکستان نے خود یہ تسلیم کیا ہو کہ اس کے ہندوستانی فائرننگ میں فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ کئی برسوں کے بعد پاکستان نے اعتراف کیا ہے کہ جموں و کشمیر میں کنٹرول لائن پر ایتوار کی رات ہندوستانی فوج کی فائرننگ میں اس کے 7 فوجی مارے گئے۔ حقیقت میں جنگ بندی توڑے کی کوشش پاکستان صرف ہندوستانی فریق کو نقصان ہونے کا دعوی کرتا رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے ایل او سی پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا کرارا جواب دیتے ہوئے ہندوستانی فوج نے جوابی کارروائی میں 7 پاک فوجیوں کو مار گرایا ہے۔ پاکستان نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ پاکستان کی طرف سے گزشتہ ایک ہفتے سے دہشت گردوں کو ہندوستانی علاقے میں دراندازی کرانے کے لئے مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ ایتوار کی رات بھی پاکستان کی طرف سے دراندازی کرانے کیلئے سمبر میں ہندوستانی چوکیوں پر گولہ باری کی گئی حالانکہ ہندوستانی فوج کے چوکس جوانوں نے ناپاک منصوبوں کو ناکام کردیا ہے۔ اس دوران جوابی کارروائی میں 7 فوجی مارے گئے۔ اپنے جوانوں کے مارے جانے سے بوکھلائے پاکستان نے ہندوستانی ہائی کمشنر گوتم کو طلب کر بھارت پر جنگ بندی کی خلاف

بہار میں ایک اور قلم کا سپاہی شہید

ایک اور قلم کا سپاہی اپنا فرض نبھاتے ہوئے بہار میں شہید ہوگیا۔ بائیک سوار بدمعاشوں نے روز نامہ اخبار ’دینک بھاسکر‘ کے پترکار دھرمیندر کمار سنگھ35 سال کو گولی سے چھلنی کر قتل کردیا۔ واردات بہار کے روہتاش ضلع کے مفصل تھانہ کے تحت عمرا تالاب کے پاس ہوئی۔ خون سے لت پت دھرمیندر کو مقامی لوگ علاج کے لئے ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹروں نے نازک حالت کو دیکھتے ہوئے اس کو وارانسی ریفر کردیا۔ رشتے دار علاج کے لئے وارانسی لے جا رہے تھے کہ شیو ساگر کے پاس راستے میں انہوں نے دم توڑدیا۔ بتایا جاتا ہے کہ دھرمیندر نے ان جرائم پیشہ کے نام بھی اپنے رشتے داروں کو بتائے تھے جنہوں نے اس واردات کو انجام دیا ہے۔ دھرمیندر کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ساسارام میں پتر کار دھرمیندر سنگھ کے قتل کے معاملے میں بہار ورکنگ جرنلسٹ یونین کے جنرل سکریٹری پریم کمار کی قیادت میں صحافیوں کے ایک نمائندہ وفد نے پٹنہ کے زونل آئی جی نیر حسین خاں سے ملاقات کر ان کو میمورنڈم سونپا اور قاتلوں کی گرفتاری کی مانگ کی۔ پتر کار دھرمیندر سنگھ کے قتل کے بعد ان کے رشتے داروں سے ملنے پہنچے ڈی آئی جی اے ۔ رحمان نے کہا کہ اس قتل سے صحافی دنیا کے علا

اگر کسان فوراً بیج، ڈیزل، کیڑے مار دوائیں نہ خرید سکا تو

شہروں میں تو 500 اور ہزار روپے کے نوٹ بند ہونے سے ہم بینکوں میں لمبی لمبی قطاروں کو دیکھ کر پریشان ہورہے ہیں لیکن ہمارے دیہات میں ہمارے کسانوں کا کتنا برا حال ہورہا ہے اس پر حکومت پر بلا تاخیر توجہ دینی چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ مستقبل قریب میں دیش میں کھانے کے لالے پڑجائے اور ہنگامی حالات پیدا ہوجائے 500 اور 1000 ہزار کے نوٹ بند ہونے سے کسانوں اور ان کی کھیتی پر دور درس اثر پڑسکتا ہے۔خریف کے سیزن کی پیداوار کی فروخت اور ربیع کی فصلوں کی بوائی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے نقدی کے بحران میں اگر بہتری جلد نہ ہوئی تو کسانوں کی مصیبت بڑ سکتی ہیں۔ ایک تو دیہی علاقوں میں اب بھی بینکوں کی کمی ہے دوسرے زیادہ تر کسان بینکوں میں پیسہ نہیں رکھتے اور نہ ہی کریڈیٹ کارڈ کااستعمال کرنے میں یقین رکھتے ہیں ان سب کے اوپر دیہی علاقوں میں نئے نوٹوں کی کم سپلائی زرعی سرگرمیوں کو متاثر کرسکتی ہیں۔ کسان کو ربیع کی فصل کی بوائی کرنی ہے اسے کھاد، بیج اور بجلی و پانی وغیرہ ضروری سامان کی ضرورت ہے اس کے پاس نئے نوٹ نہیں ہے اورپرانے نوٹ لینے کو تیار نہیں ہے وہ کہاں سے بیج خریدے گا؟ اگر ربیع کی فصل نہ بوائی کی گئی تو

کیا نوٹ بندی سے دیش میں بلیک منی ختم ہوگی

مرکزی سرکار کا 500 اور ہزار روپے کے پرانے نوٹوں کو بند کرنے کابیشک نیک ارادہ رہا ہو لیکن دیش میں بلیک منی یعنی کالی کمائی کا استعمال بند ہو لیکن ہمیں اس میں شبہ ہونے لگا ہے؟ کیا اس سے بلیک منی ختم ہوجائے گی؟ آج جو لوگ بینکوں، اے ٹی ایم، ڈاکخانوں کے باہر لمبائی قطاریں لگائے کھڑے ہیں ان کی جمع پونجی کالی کمائی نہیں ہے جو آپ نکلوانا چاہتے تھے؟ ہر خاندان کے اپنی کمائی سے بیماری و دیگر اخراجات کے لئے کچھ پیسہ جمع کرکے رکھا ہوا تھا؟ یہ کالی کمائی نہیں ہے آپ نے ان کی تو زندگی بھر کی کمائی باہر نکلوالی لیکن اصل قصور وار آج بھی مست ہے۔ بینکوں میں پیسہ کی کمی ہے۔ بینک خالی ہے۔ آپ نے بینکوں میں پیسہ مہیا کرانے کے بھی یہ قدم اٹھایا ہے۔ جو کرنسی گھروں میں تھی وہ اب بینکوں میں جمع ہورہی ہیں۔بینکوں نے اپنا سارا پیسہ ان دھنا سیٹھوں کو لٹا دیا ہے۔ لین دین چکانے والوں پر بینک کتنا سخت ہوجائے لیکن بڑے قرضداروں پر وہ وصولی کے لئے کچھ بھی نہیں کررہا ہے اور آج مرکزی سرکار نے سرکاری بینکوں کو بڑے قرضداروں کے تئیں نرمی برتنے کا فرمان جاری کردیا ہے۔ بینکوں سے کہا ہے کہ ان کی پہچان کریں اور اگر انہیں ری پیمنٹ

بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے

جسٹس ماکنڈے کاٹجو اپنے متنازعہ بیانات کیلئے مشہور ہیں۔ دراصل عدالت میں رہتے ہوئے اور بعد میں پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین کے طور پر انہوں نے کسی کونہیں بخشا۔ بیباکی کے ساتھ اپنی رائے دی اور لفظوں کے استعمال میں کوئی کنجوسی ہیں کی۔ سیاستداں بھی تو ان سے بچ نہیں پائے لیکن سومیا قتل کانڈ میں سپریم کورٹ کے ججوں کے فیصلے پر سوال اٹھانے والے جسٹس کاٹجو اب کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان کے ریمارکس پر انہیں طلب کیا تھا۔ جمعہ کو وہ سپریم کورٹ میں اپنا بیان درج کرانے پہنچے۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب سپریم کورٹ کا کوئی سابق جج اپنا موقف رکھنے عدالت عظمیٰ پہنچا۔ کاٹجو کورٹ روم میں پہنچے جہاں تین ججوں کی بنچ نے تھینک کہہ کران کا خیر مقدم کیا لیکن 10 منٹ کے اندر ہی صورتحال بگڑ گئی اور اتنی بے قابو ہوگئی کہ بنچ نے سکیورٹی بلا کر کاٹجو کو بے عزت کر کورٹ روم سے باہر نکلنے کی ہدایت دے دی۔ ناراض کاٹجو بولے میں ڈرتا نہیں ہوں، باہر نہیں جاؤں گا۔ حالانکہ جب سکیورٹی گارڈ کاٹجو کے پاس پہنچے تو ججوں نے انہیں واپس کردیا۔ سابق جج کاٹجو دوپہر 2 بجے جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی والی تین ججوں کی بنچ کے سامنے پیش

پیسے کی خاطر جان خطرے میں ڈالنے والے ہتھکنڈے

آج کل پیسہ مائی باپ بن گیا ہے۔ پیسہ کمانے کے لئے کچھ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی جان کو بھی داؤ پر لگا کر بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے کو تیار ہیں۔ تازہ مثال دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ڈرگ اسمگلنگ کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ہوائی اڈے پر تعینات پولیس نے ایک ایسے افغان شہری کو پکڑا جو ہیروئن کے کیپسول اپنے پیٹ میں چھپا کر افغانستان لے جانے کے فراق میں تھا۔ ہوائی اڈے پر معمور پولیس ڈپٹی کمشنر سنجے بھاٹیا کے مطابق 3 نومبر کو دو افغان شہری افغانستان جانے والے تھے۔ اسی دوران ان میں سے ایک افغانی شہری 43 سالہ غلام ربانی کی اچانک طبیعت بگڑ گئی۔ غلام نے ایئر لائنس حکام سے پیٹ میں درد کی شکایت کی۔ ایئر لائنس ملازم نے فوراً پولیس اور دوسری ایجنسیوں کو اس کی خبر دی۔ پولیس کو افغانی شہری کی حالت دیکھ کر اس پر شبہ ہوا اور اسے کیٹس ایمبولنس میں ایمس میں بھرتی کرایا گیا۔ ڈاکٹروں نے جب غلام کا علاج شروع کیا تو پولیس حکام حیران رہ گئے۔ جانچ میں پتہ چلا کہ اس نے اپنے پیٹ میں ایک بڑی پولیتھین کا پیکٹ چھپایا ہوا تھا۔ فوراً غلام کا آپریشن کیا گیا اور ڈاکٹروں نے 525 گرام کا ایک پیکٹ ن

500 اور 1000 روپے کی سرجیکل اسٹرائک

آج ساری دنیا اور دیش کے اندر وزیر اعظم کی اقتصادی سرجیکل اسٹرائک کو ان کا ماسٹر اسٹروک کہا جارہا ہے۔ اس بات کی تو داد دینی پڑے گی کہ وزیر اعظم نے اس سرجیکل اسٹرائک کے ٹائم کو اتنا راز میں رکھا کہ پبلک کوتو چھوڑیئے ان کے اپنے وزرا تک کو اس کی کانوں کان خبر نہیں ہوسکی۔ کالی کمائی کے خلاف سخت قدم اٹھائے تو کرنسی نوٹ پر پابندی کا فیصلہ پوری طرح خفیہ تھا۔ مرکزی وزراتک کو اس کی جانکاری آخری وقت میں دے گئی لیکن عام جنتا کو ہدایت تو لمبی عرصے سے دی جارہی تھی۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے پانچ مہینے پہلے واضح وارننگ دی تھی کہ خود کالی کمائی اعلان نہیں کرنے والے بعدمیں شکایت نہ کریں اور نہ ہی پیروی اس کے بعد بھی دو تین موقعوں پر انہوں نے صاف اشارہ دیا تھا کہ وہ کالی کمائی کو لیکر بڑی کارروائی کرنے والے ہیں۔ آخری بار تو 15 روز پہلے انہوں نے کالی کمائی کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کی بات بھی کہی تھی۔ اس پورے معاملے میں ریزروبینک اور سرکار کی سطح پر 6 مہینے سے تیاری چل رہی تھی، لیکن اعلی سطح پر گنے چنے لوگوں کے علاوہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں لگی۔ مرکزی وزراء کو بھی پبلک اعلان سے آدھے گھنٹے پہلے ہی اس