اشاعتیں

اکتوبر 8, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

18 سال سے کم عمر کی بیوی کے ساتھ جسمانی تعلق ریپ مانا جائے گا

نابالغ بیوی کے ساتھ رشتے بنانا اب بدفعلی مانا جائے گا۔ بھلے ہی تعلق بیوی کی رضامندی سے بنائے گئے ہوں۔ ابھی تک ایسے معاملوں میں بدفعلی کے الزام سے بچانے والی آئی پی ایس کی دفعہ 375(2) کے سیکشن کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی قراردیا ہے۔ اس سیکشن کے تحت 15 سے18 سال کی بیوی سے رشتے بنانا بدفعلی نہیں مانا جاتا تھا۔ سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ 18 سال کی عمر کی بیوی کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنا ریپ مانا جائے گا۔ عدالت کے مطابق نابالغ بیوی اس واقعہ کے ایک سال کے اندر شکایت درج کرا سکتی ہے۔ عدالت نے مانا کہ آبروریزی سے متعلق قوانیا میں سیکشن و دیگر قواعد کے اصولوں کے تئیں تضاد پایا جاتا ہے۔ یہ بچی کو اپنے جسم پر مکمل اختیار ہے اور اتفاق رائے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس مدن بی لوکر اور دیپک گپتا کی بنچ نے بدھوار کو سرکار کی دلیلیں مسترد کرتے ہوئے کہا رشتے بنانے کے لئے طے 18 سال کی عمر گھٹانا غیر آئینی ہے۔ سرکار کی دلیل تھی کہ اس فیصلے سے سماجی پریشانی کھڑی ہوگی۔ بنچ نے یہ فیصلہ این جی او انڈیپینڈنٹ تھارٹ کی عرضی پر دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ شادی شدہ نابالغ لڑکی

بڑھتی مہنگائی اور پستی جنتا

جب گڈس اینڈ سروسز ٹیکس یعنی جی ایس ٹی لایا گیا تھا تو کہا گیا تھا کہ اس سے چیزوں اور سروسز کی قیمتیں کم ہوں گی۔ مگر اس کے تو ابتدائی مرحلہ میں ہی مہنگائی پچھلے پانچ مہینے میں اونچی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ پیاز سمیت سبزیوں و دیگر غذائی اجناس کے داموں میں تیزی کے چلتے ماہ اگست میں تھوک قیمت پر مبنی افراط زر بڑھ کر چار مہینے میں سب سے اونچی سطح 3.24 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ حالانکہ بہت سی عام چیزوں پر ٹیکس کی شرح کافی کم رکھی گئی ہے اس کے باوجود خوردہ بازار میں چیزوں کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ جی ایس ٹی کا ابتدائی مرحلہ شروع ہونے کی وجہ سے بہت سارے خوردہ کاروباری مشکل میں ہیں اور وہ اپنے ڈھنگ سے چیزوں کے دام بڑھا رہے ہیں لیکن تھوک قیمت انڈکس میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 3.36 پہنچ گئی تو یہ محض غلط فہمی کے چلتے نہیں ہوا۔ روز مرہ استعمال ہونے والی گیس ، پھلوں و سبزیوں کے دام بڑھے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکسوں کی دوہری مار کے چلتے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال فطری ہے کہ سینٹرل ٹیکس سسٹم لاگو ہونے کے بعد بھی مہنگائی پر قابو نہیں پایا جارہا ہے تو اس سے نمٹنے کے کیا قدم ہونے چاہئیں

مہا بھارت کے کرداروں میں الجھی دیش کی معیشت کی کہانی

بھاجپا کے سینئر لیڈر یشونت سنہا ، ارون شوری اوروزیر اعظم نریندر مودی و وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے مہابھارت کے کرداروں میں الجھی دیش کی معیشت کی کہانی کو مزید الجھا دیا ہے۔یشونت سنہا نے مہابھارت کے کردار نریش شلے سے موازنہ کرنے پر پلٹ وار کرتے ہوئے کہا کہ وہ مہا بھارت کے بھیشم پتاما ہیں اور وہ کسی بھی قیمت پر معیشت کا چیر ہرن نہیں ہونے دیں گے۔ بھاجپا کا کہنا ہے بھیشم پتاما تھے تو کورووں کے ساتھ ہی اور چیر ہرن کے وقت انہوں نے احتجاج نہیں کیا تھا۔ مودی نے’دی انسٹیٹیوٹ آف کمپنی سکریٹریز آف انڈیا‘ کی گولڈن جوبلی تقریب میں بغیر کسی کا نام لئے سرکار کی چوطرفہ تنقید کے جواز میں کہا تھا کہ کچھ لوگ شلے ذہنیت کے ہیں، جن کی عادت مایوسی پھیلانے کی ہوتی ہے۔ مہابھارت میں نکل اور سہدیو کے ماما اور چندر نریش شلے کا ذکر ایک ایسے شورویر یودھا کی شکل میں ہے جو پانڈو کے حمایتی تھی، لیکن کرن کے سارتھی بنے تھے۔ وہ ہمیشہ کرن کا حوصلہ گراتے رہتے تھے۔ یشونت سنہا نے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل پر انٹرویو میں کہا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے بیان میں مہا بھارت کے شلے کا ذکر کیا ہے، لیکن انہیں سمجھنا چاہئے کہ

اسپین سے الگ ہونے کیلئے کیٹولونیا میں پبلک ریفرنڈم

حال ہی میں اسپین میں پبلک ریفرنڈم ہوا۔ اسپین سے الگ ہونے کے لئے کیٹولونیا میں کرائے گئے اس ریفرنڈم کی رپورٹ کے مطابق اس میں قریب23 لاکھ (40 فیصدی ووٹر) لوگوں نے حصہ لیا اور 60 فیصدی لوگوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اس پبلک ریفرنڈم میں لوگوں کو حصہ لینے سے روکنے کے لئے پولیس فورس تک استعمال کی گئی تھی جس میں 800 سے زیادہ لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ ان سب کے باوجود کیرولونیا کے حکام کے ارادے اسپین کی آزادی کو لیکر بہت مضبوط ہیں۔ اس قدم کو اسپین کے صدر موریانو راہوئی کی جانب سے روکے جانے کا پورا امکان ہے۔ کیٹولونیاکے صدر نے ایک بیان میں کنگ فلپ ہشتم کی اس تقریر کی تنقید کی جس میں انہوں نے بارسلونیا انتظامیہ پر ملک سے بغاوت کا الزام لگایا تھا۔ ساتھ ہی سابق گورنر نے اس ٹکراؤ کی پوزیشن کو روکنے کیلئے بین الاقوامی مصالحت کی مانگ بھی کی تھی۔ اسپین حکومت نے ایک بیان کے ذریعے کہا کہ وہ بلیک میل کو قبول نہیں کرے گی اور دوہرایا کہ کسی بھی بات چیت سے پہلے کیٹولونیا کو فوری قانونی طور سے منظوری کے راستے پر لوٹنا ہوگا۔ اگر ایک منٹ کے لئے مان لیں کہ کیٹولونیا الگ بھی ہوجائے گا تو کیا یہ خود کو آزاد بنائ

لوک سبھا اسمبلی چناؤ ایک ساتھ کرانے کی وکالت

ایک دیش ، ایک چناؤ کی مانگ نے ایک بار پھر سے زور پکڑ لیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی تو کئی موقعوں پر اس کی وکالت کرچکے ہیں۔ اب چناؤ کمیشن نے بھی لوک سبھا ریاستی اسمبلیوں کے چناؤ ایک ساتھ کرانے کی وکالت کی ہے۔ دیش کے چناؤ کمشنر او پی راوت کے تازہ بیان سے یہ بحث تیز ہوگئی ہے کہ کیا اگلے عام چناؤ کے ساتھ اسمبلی چناؤ کرائے جائیں گے؟ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کمیشن کا کام چناوی عمل اور اس کی تیاریاں ہیں۔مرکزی حکومت کی دلچسپی کے سبب الیکشن کمیشن کو بھی اس پر اپنا رخ بتانا پڑا ہے۔ مرکزی حکومت نے جاننا چاہا تھا کہ لوک سبھا اور اسمبلیوں کے چناؤ ایک ساتھ کرانے کی تجویز پراس کی کیا رائے ہے اور کیا ایک ساتھ چناؤ کرانے میں چناؤ کمیشن اہل ہے؟ الیکشن کمیشن نے اپنی رضامندی ظاہر کردی ہے ساتھ ہی بتایا ہے کہ ایسی صورت میں کتنے مزید وسائل کی ضرورت پڑے گی لیکن ساتھ ساتھ چناؤ کمیشن نے یہ بھی کہا کہ ایک ساتھ چناؤ کرانے کیلئے سبھی سیاسی پارٹیوں کی رضامندی ضروری ہے۔ چناؤ کمیشن سے 2015 میں اس بارے میں رائے مانگی گئی تھی اور تب بھی اس نے یہی کہا تھا۔ دراصل یہ صرف سیاسی یا اخلاقی تقاضہ بھر نہیں ہے۔ اگر لوک سبھا

ہر جمہوریت میں اپنا جنتر منتر ہے

پچھلے قریب ڈھائی دہائی سے جنتر منتر آندولن کاریوں کا مرکز بنا ہوا ہے لیکن نیشنل گرین ٹریبیونل کی تازہ ہدایت کے بعد جنتر منتر پر دھرنے اور مظاہرے پرروک لگ جائے گی۔ این جی ٹی نے جنتر منتر روڈ پر دھرنا ، مظاہرے کرنے پر مستقل روک لگاکر پیغام دیا ہے کہ جمہوریت میں دھاک اور اظہار رائے آزادی مکمل نہیں ہے۔ وہ صاف ستھرے اور خاموش زندگی کے حق سے بڑی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کی ایک شاخہ کی شکل میں کام کرنے والا این جی ٹی آلودگی ہٹانے اور ماحولیات کو بچانے اور صاف صفائی قائم رکھنے کے حکم دیتا رہتا ہے۔ سرکاریں کبھی اسے لاگو کرتی ہیں اور کبھی منہ پھیر لیتی ہیں۔ اس کے باوجود این جی ٹی کا 1981 میں ہوائی آلودگی قانون کی خلاف ورزی کی بنیاد پر دیا گیا یہ حکم فوری طور سے لاگو ہوگیا ہے۔ این جی ٹی نے جس سبب جنتر منتر کو مظاہرین سے آزاد کرانے کی ہدایت دی ہے اس سے نااتفاقی نہیں ظاہرکی جاسکتی۔ ہمیں اظہار رائے کی آزادی بھی چاہئے اور صاف ستھری ماحولیات بھی، مسلسل لاؤڈ اسپیکر چلنے کے سبب وہاں آواز آلودگی تو ہے ہی، کھلے میں نہانے ،جانوروں کو باندھ کر رکھناو کوڑا پھینکنے کے سبب مسئلہ پیچیدہ ہوگیا ہے لیکن یہ بھی ماننا

پٹاخہ تاجروں کی سپریم کورٹ سے درخواست

دیوالی کے موقعہ پر پٹاخوں کے سبب ہونے والی آلودگی کو دیکھتے ہوئے عزت مآب سپریم کورٹ نے 1 نومبر تک کے لئے دہلی این سی آر میں پٹاخوں کی فروخت پر روک لگادی ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ کچھ شرطوں کے ساتھ پٹاخوں کی فروخت 1 نومبر 2017 یعنی دیوالی گزرنے کے بعد پھر سے شروع کی جاسکے گی۔ اپنے حکم میں عدالت ہذا نے کہا کہ وہ اس پابندی کے ساتھ یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ کیا دیوالی سے پہلے پٹاخوں کی بکری پر پابندی سے آلودگی میں کمی آتی ہے یا نہیں۔ پٹاخے چھوڑنے پر کسی طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ جن لوگوں نے پہلے سے پٹاخوں کی خریداری کر لی ہے وہ انہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ پٹاخوں کی فروخت پر پابندی کی عرضی تین بچوں کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ عرضی گزاروں کا کہنا ہے کہ ان بچوں کے پھیپھڑے دہلی میں آلودگی کے سبب ٹھیک طرح سے ڈولپ نہیں ہو پائے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دہلی میں آلودگی کا مسئلہ کئی برسوں سے اٹھ رہا ہے۔ کافی کوششوں کے بعد بھی اس میں کمی نہیں آئی ہے۔ موجودہ اعدادو شمار کو دیکھیں تو سینٹرل پولوشن کنٹرول بورڈ کے مطابق دہلی میں آب و ہوا بھی سانس لینے کے لائق نہیں ہے۔ دوسری طرف پٹاخو

لالو پریوار انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے

قریب د و دہائی پہلے لالو پرساد یادو نے بہار کی سیاست میں نعرہ دیا تھا’ جب تک رہے گا سموسے میں آلو تب تک رہے گا بہار میں لالو‘ اسی کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ بہار کی سیاست سے انہیں 20 برس تک کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ یہ دونوں باتیں لالو نے اس وقت کہی تھیں جب چارہ گھوٹالہ کے سبب جیل بھی گئے تھے۔ اس بحران سے تو لالو نے خود کو باہر نکال لیا تھا اور بہار کی سیاست میں ایک مضبوط مرکز بنے رہے لیکن سال2017 میں یہ سوال مضبوطی سے سامنے آیا جب لالو پرساد یادو اور ان کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اب تک کے سب سے مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ جہاں لالو اور ان کا پورا خاندان کرپشن کے الگ الگ معاملوں میں پھنس چکا ہے وہیں سیاسی سطح پر بھی لالو اب نتیش بی جے پی کے اتحاد کے سامنے سماجی تجزیوں کے تانے بانے میں پھنستے دکھائی دے رہے ہیں۔ جانچ ایجنسی سی بی آئی سے ملی اطلاع کے مطابق لالو اور ان کے کنبے کے خلاف جاری جانچ آخری مرحلوں میں ہے۔ریلوے اور چارہ گھوٹالہ سے جڑی جانچ اس سال ہر صورت میں پوری ہوجائے گی اور بہت جلد ان معاملوں میں فائنل چارج شیٹ درج ہونے لگے گی۔ چارہ گھوٹالہ معاملہ میں تو سپریم کورٹ کی جانب سے طے

معیشت کے دو اہم ترین اشوز : نوکریاں اور مہنگائی

اقتصادی پالیسیوں کو لیکر حکومت کوکٹہرے میں کھڑا کرنے والے سینئر بھاجپا نیتا یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ ابھی لوک سبھا چناؤ میں نوکریوں کی کمی اور بے روزگاری بڑا اشو ہوگا۔ دوسری طرف سابق وزیر اور جرنلسٹ و مصنف ارون شوری نے بھی نوکریوں کے اشو کو لیکر سرکار پر تنقید کی ہے۔ ایک پروگرام میں انہوں نے کہا کہ سیاستداں اپنے فیصلوں کی وجہ سے پرکھے جاتے ہیں نہ کہ انہوں نے کیا کہا اور کیا کیا۔ شوری نے کہا مدرا یونجنا کے تحت 5.5 کروڑ ملازمتوں کا دعوی کیا گیا تھا لیکن اس سال کی پہلی سہ ماہی میں ہی 15 لاکھ نوکریاں چلی گئیں۔ انہوں نے کہا سرکار نے ہر سال 2 کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا اس کا کیا ہوا؟ بی جے پی کے لئے کیا 2019 لوک سبھا چناؤ مشکل ہوگا، کیا حکمراں پارٹی رام مندر ، یکساں سول کوڈ اور دفعہ 370 جیسے اشوز پر ووٹوں کا پولارائزیشن کرنے کی کوشش کرے گی؟ جواب میں یشونت سنہا کہتے ہیں کہ چناؤ میں 18 مہینے باقی ہیں اور ابھی اس سوال کا جواب دینا جلد بازی ہوگی۔ ان کا کہنا ہے معیشت میں دو اشو ہیں ایک ہے نوکریاں اور دوسری بڑھتی قیمتیں۔ہندوستانی ووٹروں کو فکر ہے کہ میرے بیٹے کو نوکری ملے گی یا نہیں؟ اس س

اروناچل پردیش میں کیوں ہوتے ہیں اتنے ہیلی کاپٹر حادثے

جمعہ کو صبح تقریباً ساڑھے چھ بجے انڈین ایئرفورس کا ایک ایم آئی۔17 ہیلی کاپٹر اروناچل پردیش کے علاقے توانگ کے پاس حادثہ کا شکار ہوگیا۔ اس میں سوارساتوں ملازمین کی موت ہوگئی۔ ان میں ایئر فورس کے دو پائلٹ اور دو فوجی بھی شامل تھے۔ ایم آئی۔17 روس میں بنا فوجی ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹر ہے۔ جمعہ کا واقعہ جس علاقہ میں ہوا وہ جگہ ہند۔ چین سرحد کے پاس ہے۔ توانگ اور اس کے آس پاس کے علاقے میں موسم میں یکا یک تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ تیز دھوپ اور کھلے آسمان والے موسم کو گھنے بادلوں اور موسلہ دھار بارش میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اروناچل پردیش میں ماضی میں اس طرح کے حادثات ہوتے رہے ہیں۔ ریاست میں اتنے زیادہ ہیلی کاپٹر حادثے ہوتے ہیں کہ اس کے چلتے اس علاقے کو دنیا کا دوسرا ’برموڈا ٹرائنگل‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دراصل یہاں کے پہاڑوں کی اونچائی بہت زیادہ ہے اور اس کے چلتے ہوا کا دباؤ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ توانگ اور سلو کے پاس کے ایئر اسپیس کو اڑان کے نظریئے سے سب سے زیادہ خطرناک مانا جاتا ہے۔ سلو پاس کے پاس ہر پانچ منٹ میں موسم بدلتا ہے۔ یہاں پرعموماً گھنے بادل ہوتے ہیں جس کے چلتے یہاں ہیلی کاپٹر کی پرواز کرنا بیحد مشک

راہل گاندھی کی تاجپوشی اس لئے کانگریس کیلئے ضروری ہے

پچھلے کچھ عرصے سے راہل گاندھی وزیر اعظم اورمودی سرکار پر تلخ حملہ کررہے ہیں۔ محنت میں بھی جی جان سے لگے ہوئے ہیں۔سہ روزہ امیٹھی دورہ میں راہل گاندھی نے نریندر مودی سرکار کو ہرمحاذ پر ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم اب بہانے بازی بند کریں اور فیصلے لینے میں جو غلطیاں ہوئیں ہیں انہیں قبول کریں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ بگڑتی معیشت، کسانوں کی خودکشیاں یا بے روزگاری کی بات کرنے پر بہانے بازی شروع کردیں۔ انہوں نے وزیر اعظم مودی کو چیلنج دیتے ہوئے کہا اگر مودی دیش کا بھلا نہیں کرسکتے تو کرسی چھوڑدیں، ہم چھ مہینے کے اندر سب ٹھیک کردیں گے۔ دیہات سے روزانہ 30 ہزار نوجوان روزگار کی تلاش میں شہر آجاتے ہیں لیکن صرف 400 افراد کو ہی کام ملتا ہے۔ مودی جی کی پالیسیوں کے سبب فیکٹریاں بند ہورہی ہیں، نوجوان بے روزگار ہورہے ہیں ان میں غصہ بڑھ رہا ہے۔ لگتا ہے راہل گاندھی اب کانگریس صدر کا عہدہ سنبھالنے کوتیار ہیں۔ ایسے میں پارٹی میں راحت اور اندیشات دونوں کا ماحول ہے۔ راحت اس لئے کہ کانگریس نے جب بھی ان کی تاجپوشی کا ماحول بنایا تو انہوں نے اس سے بچنے کی کوشش کی۔ اندیشات کوب

کیا ہنی پریت سنگھ کے خلاف پولیس کیس مضبوط ہے

گزشتہ بدھ کو دوپہر ڈیرہ چیف کی سب سے اہم راز دار ہنی پریت سنگھ انسا کو سی جے ایم پنچکولہ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ پولیس نے عدالت میں پیش رپورٹ میں کہا کہ دنگے بھڑکانے کے الزام میں گرفتار ہوچکے ڈیرہ حمایتیوں سے ہنی پریت کے سازش میں شامل ہونے کے پہلی نظر میں ثبوت ملے ہیں اور ان کی بنیاد پر ہنی پریت کو تفتیش کے دوران ملزم بنایا گیا۔منگل کو پنچکولہ کے پاس سے اسے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس سے تین بار کئی گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی گئی مگر اس نے تفتیش میں کوئی سراغ نہیں دیا۔اس نے مانا کہ واردات والے دن 25 اگست اور اس کے بعد اس کی کئی لوگوں سے بات ہوئی۔ ان میں دنگے کے ملزم بھی شامل ہیں۔ پولیس نے پچھلے 22 گھنٹے کی حراست میں اس کی طرف سے تعاون نہ ملنے کی بات کر 14 دنوں کی ریمانڈ مانگی تھی لیکن عدالت نے صرف6 دنوں کی ریمانڈ قبول کی۔ پنچکولہ کی عدالت کے ذریعے پولیس ریمانڈ میں بھیجے جانے کے بعد بھی ہنی پریت پوچھ تاچھ میں پولیس سے کوئی تعاون نہیں کررہی ہے۔ اعلی پولیس افسروں کی ٹیم بدھوار کی رات کو ہنی پریت سے پوچھ تاچھ کرتی رہی لیکن وہ سوالوں کو ٹالتی رہی اس کے چلتے مانا جارہا ہے کہ ہریانہ پولیس