اشاعتیں

مئی 6, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

دیکھیں کرناٹک میں اونٹ کس کرونٹ بیٹھتا ہے

کرناٹک اسمبلی چناؤکی کمپین ختم ہوگئی، آج ووٹ ڈالنے کی باری ہے۔ کمپین کی بات کریں تو اتنی خطرناک چناؤ کمپین پہلے کبھی شایدنہیں ہوئی ہوگی۔ کانگریس اور بھاجپا نے کمپین میں ایک دوسرے پر الزام تراشی میں زبان میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس بار کرناٹک میں کمپین جس سطح پر ہوئی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تو غلط نہیں ہوگا۔ کرناٹک چناؤ میں دونوں کانگریس اور بھاجپا کی اپنی اپنی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے۔ چناؤ سے پہلے آئے بڑے 10 اوپین پول میں سے7 نے کانگریس کو بھاجپا سے زیادہ ووٹ دئے ہیں۔ ان سبھی پول میں کانگریس کو35 سے زیادہ ووٹ ملے ہیں یہ ہی نہیں کانگریس ان 35 برسوں میں ہوئے 8 چناؤ میں صرف 1 چناؤ میں 34 فیصد سے کم ووٹ ملے ہیں۔ کانگریس کو سب سے کم ووٹ 1996 میں 26 فیصد ووٹ اور 34 سیٹیں ملی تھیں۔ ریاست کے پچھلے8 چناؤ میں سے 4 میں کانگریس کو40 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کرناٹک میں پچھلے 35 سال میں یعنی جب سے بھاجپا ریاست میں چناؤ لڑ رہی ہے تب سے اب تک کبھی بھی کانگریس کو بھاجپا سے کم ووٹ نہیں ملے ہیں۔ یہاں تک کہ 2008 میں جب بھاجپا کی ریاست میں پہلی بار سرکا

عہدہ چھوڑنے کے بعد وزیر اعلی بھی عام آدمی ہے

وزیر اعلی اپنی کرسی سے ہٹتے ہی عام آدمی کی کیٹگری میں آجاتا ہے۔ ایسے میں اسے سرکاری رہائشگاہ کیوں چاہئے؟ اس ریمارکس کے ساتھ سپریم کورٹ نے یوپی کے اس قانون کو منسوخ کردیا جس میں سابق وزیر اعلی کو تاعمر سرکاری بنگلہ دینے کی سہولت تھی۔ جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس آر بھانمتی کی بنچ نے تاریخی اور دوررس فیصلہ میں کہا کہ سابق وزیر اعلی عام شہری میں کسی طرح کا امتیاز نہیں ہوسکتا۔ سابق وزیر اعلی اپنے پاس رہے عہدہ کی خصوصیت کی وجہ سے سکیورٹی سمیت دیگر پروٹوکول پانے کا حقدار ہے لیکن عہدہ سے ہٹنے کے بعد بھی سرکاری رہائش گاہ میں رہنے کی اجازت دینا یکسانیت کے آئینی اصول کے خلاف ہے۔ بڑی عدالت نے کہا قدرتی وسائل، سرکار زمین و چیزیں جن میں سرکاری رہائشگاہ بھی آتی ہے پبلک پراپرٹی ہے ، یہ دیش کے لوگوں کی ہے، ریاستوں کو اپنے وسائل کی تقسیم میں انصاف کا خیال رکھنے والی یکسانیت کے اصول کا پابند ہونا چاہئے۔ بنچ نے کہا کہ اترپردیش منتری (تنخواہ بھتہ و قانونی سہولت)1981 ایکٹ شہریوں کا ایک الگ طبقہ تیار کرتا ہے ۔ یہ انہیں سابق پبلک نمائندہ کی بنیاد پر سرکاری املاک کا حقدار بناتا ہے۔ عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی انہی

مالیا کیس : بھارت سرکار، بینکوں کا شاندار کارنامہ

ہندوستانی بینکوں سے ہزاروں کروڑ روپے لیکر دیش چھوڑ کر بھاگے ہندوستانی صنعتکار سے پیسے کی برآمدگی کے معاملہ میں بھارت سرکار و سرکاری ایجنسیوں کو زبردست کامیابی ملی ہے۔ میں بات کررہا ہوں صنعتکار ،شراب کاروباری وجے مالیا کی۔ برطانوی ہائی کورٹ میں ہندوستانی بینکوں کی طرف سے 1.55 ملین ڈالر یعنی 10 ہزار کروڑ روپے کی وصولی کے معاملہ میں مالیا کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔ جج اینڈرج ہرشی نے دنیا بھر کی املاک کو ضبط کرنے کے احکامات کو پلٹنے سے انکارکردیا۔ عدالت نے ہندوستانی عدالت کے اس فیصلے کو بھی برقرار رکھا ہے جس میں 13 بینکوں کی کنسورٹیم کو مالیا سے قریب 10 ہزار کروڑ روپے کی وصولی کرنے کا حقدار بتایا گیا ہے۔ ہندوستانی بینکوں کے حق میں آئے فیصلے سے انگلینڈ اور ویلس میں مالیا کی املاک پر بھی ہندوستانی عدالت کا فیصلہ نافذ ہوگا۔ عالمی ضبطی کا حکم بحال رہنے کے بعد مالیا انگلینڈ اور ویلس میں اپنی کسی پراپرٹی کو بیچ یا ٹرانسفر نہیں کرسکے گا، نہ ہی پراپرٹی کی قیمت گھٹا سکے گا۔ جج ہیمشا نے منگلوار کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اب مالیا کو کورٹ آف اپیل میں عرضی دائرکرنی ہوگی۔ انگلینڈ کے

سیاحوں کے قتل نے پتھر بازوں کی قلعی کھول دی

جموں و کشمیر کے شوپیاں ضلع میں اسکولی بس پر پتھراؤ کے واقعہ کے چار دن بعد پیر کو پتھربازوں نے سرینگر کے گولمرگ ہائی وے پر ایک گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اس میں چنئی کے ایک سیاح کی موت ہوگئی۔ اس حملہ میں ایک مقامی لڑکی بھی زخمی ہوگئی۔ سیاح کی شناخت تھرومنی (22 سال ) کی شکل میں ہوئی جبکہ زخمی لڑکی ہنڈواڑہ کی سبرینا ہے۔ اس سے پہلے بدھوار کو 40سے50 بچوں سے بھری اسکولی بس کو شوپیاں کے جبورا علاقہ میں گھیرکرپتھراؤ کیا گیا۔ ان دونوں واقعات نے صوبے کی سرکار کی پتھر بازوں کو عام معافی دینے کی پالیسی پر سوال کھڑا کردیا۔ ریاست میں ایک سیاح کی موت پہلا واقعہ ہے۔ اس واردات کے بعد کشمیر کے ٹورازم پر برا اثر پڑنے کے علاوہ آنے والے دنوں میں پوتر امرناتھ یاترا پر بھی ایسے حملوں کے اندیشے کے بادل منڈرانے لگے ہیں۔ اس سے وادی میں اپنے ہی اسکولی بچوں کی بس پر پہلی بار کی گئی پتھر بازی میں سیاح کی موت سے خفیہ اور سکیورٹی ایجنسیوں کی بھنویں تن گئی ہیں۔ پتھر بازی کرنے والے کوئی بچے نہیں ہیں سب کے سب ہوش حواس والے بالغ لڑکے ہیں۔ ظاہر ہے یہ دونوں حملہ بزدلانہ اور بغیر ٹارگیٹ کے نہیں تھے۔ ان کا مقصد خاص اقتدار اور

وادی میں دہشت گردوں کا صفایا: ماحول کیسے بہتر ہو

پچھلے کچھ مہینوں سے سکیورٹی فورس نے کشمیر وادی میں دہشت گردوں کی پہچان اور ان کا چن چن کر صفایا کرنے کارروائی چلا رکھی ہے۔ اس کارروائی میں انہیں کئی بڑی کامیابی ملی ہیں۔ پچھلے ایک ہفتہ میں شوپیاں میں حزب المجاہدین کے 5 سے زیادہ اور چھتہ بل میں لشکر طیبہ کے 3 دہشت گردوں کا مارا جانا تازہ کڑی ہے۔شوپیاں میں ایتوار کوسکیورٹی فورس نے برہان وانی گینگ کے آخری کمانڈر صدام پیڈر سمیت حزب المجاہدین کے پانچ دہشت گردوں کو مار گرایا۔پیڈر ان دنوں حزب المجاہدین کی رہنمائی کررہا تھا۔ اس کی موت کے بعد سے برہان گینگ کا صفایا ہوگیا ہے۔ 2015 میں برہان گینگ کے 11 دہشت گردوں کی تصویر سوشل میڈیا میں آئی تھی جس سے پوری وادی میں سنسنی پھیل گئی تھی۔ قابل ذکر ہے برہان وانی کی 8 جولائی 2016 کو انکاؤنٹر میں موت ہوگئی تھی۔شوپیاں میں ایتوار کو صبح سویرے مارے گئے دہشت گردوں میں کشمیر یونیورسٹی کا سوشل سائنس کا اسسٹنٹ پروفیسر محمد رفیع بٹ بھی ہے۔ اسے آتنکی بنے محض 36 گھنٹے ہی ہوئے تھے۔ اس طرح ایک مرتبہ پھر وادی میں حزب المجاہدین کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ اسے بلا شبہ ہمارے بہادر سکیورٹی جوانوں کی بڑی کامیابی کہا جاسکتا

آمیر اور ناہرگڑھ سمیت درجن بھر قدیمی وراثتوں کا ٹھیکہ

لال قلعہ کو مرکزی سرکار کی جانب سے ڈالمیا گروپ کو دئے جانے کی جو مخالفت ہورہی ہے۔ آئے دن اس فیصلے کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں اجے ماکن کی قیادت میں پردیش کانگریس کا مظاہرہ ہوا۔ صدر اجے ماکن نے کہا کہ مودی سرکار کے ذریعے تاریخی لال قلعہ کو سازش کے تحت نجی ہاتھوں میں دیا جانا نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ ہمیں قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کانگریس ورکر علامتی طور پر 5-5 روپے دان پیٹی میں ڈال کر اکٹھا کرکے لال قلعہ کے رکھ رکھاؤ کے لئے مودی جی کو بھیجیں گے۔ اگر ضرورت پڑی تو کانگریس ورکر ہر برس 5 کروڑ روپے اکٹھاکرکے مرکزی حکومت کو دیں گے لیکن مودی سرکار کو لال قلعہ بیچنے نہیں دیں گے۔ ماکن نے کہا مودی سرکار اپنے پروپگنڈہ کے لئے 3 ہزار کروڑ روپے تو خڑچ کرسکتی ہے لیکن دیش کی قدیمی وراثت لال قلعہ کی مرمت و دیکھ بھال کے لئے پانچ کروڑ روپے سالانہ خرچ نہیں کرسکتی۔ ادھر چاندنی چوک سے عام آدمی پارٹی کی ممبر اسمبلی الکا لامبا نے بتایا کہ صرف گیٹ ٹکٹوں سے ہی لال قلعہ میں اینٹری کے لئے سالانہ 18 کروڑ روپے کے ٹکٹ بکتے ہیں۔ دیویا چیتنا کمیٹی کے ساتھیوں نے ہاتھوں میں ڈبے لیکر عام جنتا سے لال قلعہ کو

افغانستان میں 7 انجینئروں کا اغوا

خانہ جنگی سے تباہ حال افغانستان کی مدد کرنے اور وہاں ترقی کو رفتار دینے میں لگا بھارت ہمیشہ سے طالبان کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا۔ بغلان صوبہ میں ایتوار کو بجلی ٹرانسمیشن لائن لگانے والی ہندوستانی کمپنی کے ای سی کے 8 ملازمین کو مسلح افراد نے اغوا کرلیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق طالبان جنگ باز انہیں سرکاری ملازم سمجھ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ ایسوسی ایٹیٹ پریس کے مطابق ان میں 7 ہندوستانی انجینئر شامل ہیں اس کے علاوہ ایک افغان شہری بھی اغوا کیا گیا۔ جس جگہ سے اغوا ہوا وہاں حالیہ دنوں میں طالبان کی طاقت کافی بڑھی ہے۔ مانا جارہا ہے کہ اس اغوا میں بھی طالبان کا ہاتھ ہے۔ افغان چینل تولو نیوز نے اپنے حکام کے حوالہ سے بتایا کہ اغوا بغلان کی راجدھانی پل اے خوچر کے باغ شمائل علاقہ میں ہوا۔ سبھی الیکٹرک انجینئرہیں۔ کے ای سی کو اس علاقہ میں ایک بجلی سب اسٹیشن کو چلانے کاکام ملا ہوا ہے۔ ادھر آر پی جی انٹر پرائز کے چیئرمین ہرش گوئنکا نے انجینئروں کو چھڑانے کے لئے وزیر خارجہ محترمہ سشما سوراج سے مدد مانگی ہے۔ کے ای سی بڑے پیمانے پر بجلی کے سیکٹر میں کام کرتی ہے۔ اس کے افغانستان میں قریب 150 انجینئر و تکنیکی

کیا پاکستانی فوج بھارت کے ساتھ رشتے بحال کرنا چاہتی ہے

پاکستانی فوج دیش کی ترقی اور خوشحالی کے لئے بھارت کے ساتھ رشتوں کو بہتربنانا چاہتی ہے۔ یہ نظریہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوا کے ذہن میں پیدا ہورہا ہے۔ برطانیہ کے رائل یونائیٹس سروس انسٹیٹیوٹ کے پاکستانی ماہر کمال عالم نے کہا پاکستان کی سیاست میں فوج کا موثر دخل رہا ہے۔ ایسے میں باجوا بھارت کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں تو یہ ایک اچھا قدم ہے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان اور بھارت کی فوجیں بھی ایک دوسرے کا تعاون کرتی دکھائی دے سکتی ہیں۔ پاکستان کی سرکاری پالیسی طے کرنے میں پاک فوج کا اہم رول ہوتا ہے۔ پاکستان کے قیام کے 70برسوں میں زیادہ تر وقت اقتدار فوج کے ہاتھ میں رہا ہے۔ جب وہ درپردہ طور سے اقتدار پر قابض نہیں رہی ہے تب بھی اس کی سرکار پر لگام رہی ہے۔ پاکستانی فوج کا نظریہ بدلنے کا ثبوت یہ ہے کہ اپریل میں یوم پاکستان کی فوجی پریڈ میں پہلی بار ہندوستانی سفارتخانہ میں تعینات ملٹری اطاچی اور اس کے ساتھیوں کو مدعو کیا گیا۔ یہ بات کمال عالم نے بھی لکھی ہے اس کے دو ہفتے بعد جنرل باجوا نے پڑوسی دیش کے تئیں اپنے نظریئے میں تبدیلی لاتے ہوئے کہا پاکستانی فوج بھارت کے ساتھ رشتوں سے امن

نیشنل فلم ایوارڈفنکشن تنازعات میں

نیشنل فلم ایوارڈ فنکشن کی اپنی اہمیت ہے۔ بڑے سے بڑا فلم ساز نیشنل ایوارڈ پا کر فخر محسوس کرتا ہے ۔ اسے پاتے ہوئے ان کی آنکھوں میں الگ چمک ہوتی ہے اور ہونٹوں پر ایک الگ مسکان اور چہرے پر ایک الگ سکون ہوتا ہے۔ یہ ایوارڈ جہاں کسی فلم ایکٹر کے فن کی کوالٹی کو ایک پہچان اور منظوری دیتا ہے وہیں دیش کے صدر کے ہاتھوں سے اس کا ملنا ان کی زندگی کا ایک نایاب لمحہ بن جاتا ہے ۔ لیکن اس بار 3 مئی کو نئی دہلی کے وگیان بھون میں 65 واں نیشنل فلم ایوارڈ فنکشن تنازعوں میں آگیا ہے۔ خوشی اور جوش کے موقعہ پر یہ غمگین اور مایوسی کا ماحول اچانک تب بنا جب ایوارڈ پانے والوں کو 2 مئی کو فنکشن کی ریہرسل کے دوران پتہ لگا کہ اس مرتبہ صدر جمہوریہ اپنے ہاتھوں سے نہ صرف 11 افراد کو ہی ایوارڈ دیں گے اور دیگر انعام پانے والوں کو اطلاعات و نشریات محترمہ اسمرتی ایرانی نوازیں گی۔انعام ونرس نے اس سے ناراض ہوکر تقریب کا بائیکاٹ کردیا۔ 53 ونر اپنا ایوارڈ لینے نہیں پہنچے۔ دراصل اب تک یہ ایوارڈ صدر جمہوریہ ہی دیتے رہے ہیں۔ صدر کے پریس سکریٹری کا کہنا ہے کہ صدر رامناتھ کووند عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ہی ایسے پروگراموں کے لئے ص

ہمیں کیوں نہیں ملتی طوفان آنے کی آہٹ

قدرت کا قہر لمحہ بھر میں ہی تباہی مچا دیتا ہے۔ موسم کے اچانک پلٹنے سے بدھوار کو راجستھان اور اترپردیش میں وسیع تباہی مچی۔ 132 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلی آندھی طوفانی ہوا نے نہ صرف کئی جانیں لے لیں ساتھ ہی گیہوں، آم، سرسوں کی فصل کو بھی نقصان پہنچایا۔ اب تک سوا سو سے زیادہ لوگوں کے مارے جانے کی اطلاع ملی ہے جبکہ 70 سے زیادہ لوگ اترپردیش میں اور 40 سے زیادہ لوگ راجستھان میں اس کی زد میں آگئے ہیں۔ چونکانے والی بات یہ ہے کہ بھاری تام جھام اورنامی سائنسدانوں سے بھرے پڑے محکمہ موسم نے مشرقی اور نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں 1 سے4 مئی تک بھاری بارش اور طوفان کی وارننگ دی تھی۔ اس میں کہیں بھی اترپردیش کا ذکر نہیں تھا جبکہ سب سے زیادہ نقصان راجستھان، اترپردیش، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش،بنگال اور بہار میں ہوا جبکہ موسم کی جانکاری دینے والے ادارہ اسکائی مینٹ نے نارتھ انڈیا میں تباہی کا اندیشہ جتایا تھا اور وارننگ بھی جاری کی تھی۔ محکمہ موسمیات کی ایسی ناکامی سرکار اورجنتا دونوں کے لئے تشویش کا سبب ہے۔ سینکڑوں جانور مارے گئے، مکان ڈھے گئے اور پیڑ ٹوٹنے ،بجلی کے کھمبے گرنے کے علاوہ گیہوں اور آم ک

جناح کی تصویرپر جنگ کا میدان بنی مسلم یونیورسٹی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے یونین ہال میں محمد علی جناح کی تصویر لگانے پر تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ یہ تصویر 1938 سے وہاں لگی ہوئی ہے۔ بی جے پی کے ایم پی ستیش گوتم اور مہیش گیری نے جناح کی تصویر وہاں ہونے کی مذمت کی ہے۔ بدھ کو کچھ لوگوں نے یونیورسٹی کے باہر نازیب نعرہ بازی کی۔ طلبا نے ان باہری عناصر کی گرفتاری کی مان کی۔ تنازعہ اتنا کھڑا ہوگیا کہ پولیس کوکیمپس میں آنسو گیس کے گولہ چھوڑنے پڑے اور لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ اس میں اے ایم یو اسٹوڈینٹ یونین کے صدر سمیت درجن بھر طالبعلم زخمی ہوگئے۔ ایس پی سٹی، سی او سمیت آدھا درجن پولیس والے بھی زخمی ہوئے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ محمد علی جناح مسلمانوں کے لئے پاکستان کی مانگ کے پیروکار رہے ہیں۔ ان کی پہل پر بھارت کی تقسیم ہوکر ایک نیا دیش پاکستان بنا اور وہ وہاں کے قائد اعظم کہلائے۔ اس طرح جناح بھارت کے لئے کھلنائک بن گئے۔ تبھی سے عام ہندوستانی میں ان کا نام بٹوارے یا کہئے کہ دیش سے بغاوت کا محاورہ وابستہ ہوگیا لیکن اتنے برسوں سے ٹنگی تصویر پر اب واویلا کیوں؟ پچھلے80 سال پہلے سے یہ تصویر ٹنگی ہوئی ہے۔ تصویر کلیان سنگھ جب وزیر اعلی تھے

پانچ سال :بینک دھوکہ دھڑی بے مثال

پچھلے پانچ برسوں میں دیش کے بینکوں میں 23866 گھوٹالہ پکڑے گئے۔ اس میں 1لاکھ718 کروڑ روپے کی دھوکہ دھڑی کی گئی یعنی روزانہ بینک دھوکہ دھڑی کی 14 معاملے ہوئے جس میں بینکوں کو ہر دن 778 کروڑ روپے کا چونا لگا۔ یہ سنسنی خیز خلاصہ ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں ریزرو بینک نے کیا ہے۔ بینک گھوٹالہ میں سب سے بڑی حصہ داری قرض کی جعلسازی کی ہے۔ فروری میں ایک دوسری آر ٹی آئی کے جواب میں ریزرو بینک نے بتایا کہ 2012-13 سے 2016-17 کے دوران سرکاری بینکوں میں قرض جعلسازی کے 8670 معاملہ ہوئے۔ ان می بینکوں کے 61260 کروڑ روپے پھنسے۔ 2012-13 میں 6357 کروڑ روپے کی جعلسازی ہوئی۔ 2016-17 میں یہ بڑھ کر 17634 کروڑ روپے ہوگئی۔ وزیر مملکت مالیات شیو پرساد شکلا کے مطابق اس میعادتک پنجاب نیشنل بینک کا ایم پی اے 55200 کروڑ ، آئی ڈی بی آئی بینک کا 44542 کروڑ، بینک آف انڈیا کا 43774 کروڑ، بینک آف بروڈہ کا 41649 کروڑ ، یونین بینک آف انڈیا کا 38047 کروڑ، کینرا بینک کا 37794 کروڑ، آئی سی آئی سی آئی بینک کا 73849 کروڑ روپے تھا۔ آئی آئی ایم بنگلورو کی اسٹڈی رپورٹ کے مطابق قریب 55 فیصد بینک جعلسازی سرکاری بینکوں میں