اشاعتیں

دسمبر 4, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

۲جی اسپیکٹرم گھوٹالے میں پھنستے پی چدمبرم

تصویر
 Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 11th December 2011 انل نریندر مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم کے ستارے آج کل گردش میں چل رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے یوپی اے سرکار اور کانگریس پارٹی کی فضیحت مسلسل جاری ہے۔سی بی آئی کی عدالت نے نامور وکیل ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کی اس عرضی کو منظور کرلیا جس میں چدمبرم کے خلاف ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالے میں دو گواہوں سے پوچھ تاچھ کے لئے مانگ کی گئی تھی۔ عدالت نے دونوں گواہوں کو پیش کرنے کی اجازت دے دی لیکن یہ بھی کہا پہلے ڈاکٹر سوامی خود گواہی دیں گے اگر ان کی گواہی میں دم ہوا تو آگے کی کارروائی ہوگی۔ سوامی کی تسلی بخش گواہی کے بعد ہی دونوں گواہوں کی پیشی ہوگی۔ ایک گواہ شری کھلر جو وزارت خزانہ میں جوائنٹ سکریٹری ہیں اور دوسرے گواہ ایس سی اوستھی جو سی بی آئی میں جوائنٹ ڈائریکٹر ہیں۔ قابل غور ہے کہ وزیر داخلہ ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالے کے وقت وزیر خزانہ تھے۔ سوامی کے مطابق ٹو جی اسپیکٹرم الاٹمنٹ میں ہوئی بے قاعدگیوں کی پوری واقفیت چدمبرم کو تھی۔ وہ چاہتے تو گھوٹالہ رک سکتا تھا۔ دراصل اس وقت کے مالیات سکریٹری ڈاکٹر ڈی سبا راؤ کی جانب سے 6 جولائی

پاکستان میں زرداری کے مستقبل کولیکر قیاس آرائیاں

تصویر
 Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 10th December 2011 انل نریندر پاکستان میں افواہوں کا بازار ایک بار پھر گرم ہوگیا ہے۔ وجہ اس بار یہ ہے کہ اچانک پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اپنا علاج کرانے کے لئے دوبئی چلے گئے ہیں۔ پاکستانی حکام حالانکہ کہہ رہے ہیں صدر صاحب اپنے معمول کے چیک اپ کے لئے دوبئی پہلے سے ہی طے شدہ پروگرام کے مطابق گئے ہیں اور جلد واپس آجائیں گے۔ لیکن سیاسی مبصرین کا کچھ اور ہی کہنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خفیہ خط تنازعہ اور نیٹو حملے کے بعد زرداری پاکستانی فوج کے دباؤ میں آکر استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ امریکی میگزین 'فارن پالیسی' نے دعوی کیا ہے اوبامہ انتظامیہ کے حکام نے بتایا ہے پاکستانی فوج کی طاقتور جنرل کے بڑھتے دباؤ کے سبب علاج کے لئے وہ دوبئی گئے۔ زرداری واپس نہیں آئیں گے اور وہیں سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔ سوال یہاں یہ بھی کیا جارہا ہے کہ دوبئی میں کونسا علاج ہوتا ہے۔ دوبئی میں تو کوئی ایسا میڈیکل سینٹر ہی نہیں جہاں امراض قلب کا کوئی خاص علاج ہوتا ہے۔ اگر انگلینڈ یا امریکہ کی بات ہوتی تب بھی سمجھ میں آنے والی تھی لیکن دوبئی میں

اور اب سرکار کا نشانہ سوشل سائٹس پر

تصویر
 Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 9th December 2011 انل نریندر مرکزی وزیر مواصلات کپل سبل کو تنازعات میں گھرے رہنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ پہلے انا ہزارے معاملے میں، پھر بابا رام دیو معاملے میں اور اب سوشل نیٹ ورکنگ کو لیکر وہ سرخیوں میں آگئے ہیں۔ کپل سبل نے اب گوگل ، یاہو، مائیکرو سافٹ و فیس بک جیسی سوشل سائٹوں پر فحاشی و قابل اعتراض اور توہین آمیز میٹر ڈالنے پر روک لگانے کا عہد کیا ہے۔ سبل کا کہنا ہے ان پر وزیراعظم منموہن سنگھ ، کانگریس صدر سونیا گاندھی و کچھ مذہبی فرقوں کے خلاف قابل اعتراض میٹر ڈالے ہوئے ہیں جنہیں فوراً ہٹانا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا سرکار ان سوشل ویب سائٹوں پر کسی طرح کی سینسر شپ نہیں لگانا چاہتی لیکن قابل اعتراض مواد کو ہٹانے کیلئے ایک کنٹرول سسٹم نافذ کرنا چاہتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا اگر ان ویب سائٹوں نے ایسا نہیں کیا تو حکومت کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ ان کا یہاں تک کہنا تو ٹھیک ہے کے ایسی پبلک ویب سائٹوں پر سب کو قابل قبول پیمانوں کو اپنانا چاہئے اور فحاشی کو بڑھاوا نہیں دیا جانا چاہئے لیکن ان پر کسی طرح کی پابندی کی مخالف

روس میں ولادیمیر پوتن کی مقبولیت کا گرتا گراف

تصویر
 Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 9th December 2011 انل نریندر مخائل گورباچیف کی اصلاحاتی پالیسیوں وا قتصادی اصلاحات کے سبب اور برسوں سے دبی سیاسی مخالفت کی چنگاری کی وجہ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک سوویت روس کا بٹوارہ ہوگیا اور بڑی سوویت ایمپائر 15 آزاد ضمنی ریاستوں میں بٹ گئی۔ ان حالات میں 31 دسمبر1999ء کو اچانک صدر بورس یلتسن نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جس سے ولادیمیر پوتن دیش کے نگراں صدر بن گئے۔ فروری2000ء میں طویل لڑائی کے بعد روسی لیڈروں نے چیچن باغیوں کو شکست دیتے ہوئے راجدھانی گروزنی پر اپنا حق جمالیا۔ پوتن کے اس قدم سے ان کی مقبولیت میں بھاری اضافہ ہوا۔ 26 مارچ2000ء کو پوتن نے صدارتی چناؤ جیت لیا۔ اس کے بعد انہوں نے اقتدار کی لامرکزیت بحال کرنا شروع کردی۔ صوبائی گورنروں اور کاروباری گھرانوں کی بڑھتی طاقت پر روک لگائی۔ اگرچہ اقتصادی نکتہ نظر سے روس نے پوتن کے عہد میں کوئی خاص ترقی تو نہیں کی لیکن ولادیمیر پوتن نے سوویت کے خاتمے کے بعد روس کو پہلی بار سیاسی پائیداری کا ماحول ضرور فراہم کیا۔ اسی وجہ سے پوتن مارچ2004ء میں پھر روس کے صدر بنے۔ گذشتہ

ایف ڈی آئی پر رول بیک یا ہولڈ بیک پوزیشن واضح نہیں

تصویر
 Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 8th December 2011 انل نریندر ایف ڈی آئی پر سرکار کی پوزیشن ابھی تک صاف نہیں ہے۔ دراصل منموہن سنگھ سرکار کی نیت صاف نہیں لگتی۔ پہلے تو ممتا بنرجی سے کہہ دیا کہ آپ اس کوروکنے کا اعلان کردو لیکن جب اپوزیشن اس بات پر اڑ گئی کہ سرکار کو اعلان کرنا چاہئے تاکہ ایک اتحادی پارٹی کو تو وزیر خزانہ پرنب مکھرجی نے لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج، بھاجپا کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی، مارکسی ایم پی سیتا رام یچوری سمیت اپوزیشن کے لیڈروں سے تبادلہ خیال کر بتایا کہ ملٹی برانڈ ریٹیل میں 51 فیصدی ایف ڈی آئی کا فیصلہ روک لیا گیا ہے۔ سبھی پارٹیوں کے اتفاق رائے کے بعد ہی اس پر آخری فیصلہ کیا جائے گا لیکن تازہ خبر ہے کہ بدھوار کو ہوئی آل پارٹی میٹنگ میں اس پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ یعنی کل ملاکر سرکار نے اسے واپس لیا ہے یا اسے ٹالے رکھا ہے۔ ارون جیٹلی نے منگلوار کو کہا بھاجپا کو ایف ڈی آئی کے مسئلے پر رول بیک پر کوئی ڈھیل نہیں دی جائے گی۔ جیٹلی نے کہا ایف ڈی آئی سے کسانوں ،چھوٹے دوکانداروں اور عام لوگوں کے مفادات پر صرف غیر ملکی کمپنیوں

کیا ایران نے امریکہ کے جدید ڈرون جہاز کو مار گرایا ہے؟

تصویر
 Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 8th December 2011 انل نریندر کیا ایران نے امریکہ کے سب سے جدید بغیر پائلٹ جہاز آر کیو170 ڈرون کو مار گرایا ہے۔ایران نے ایتوار کو دعوی کیا تھا کہ اس نے امریکہ کے اس جہاز کو مشرقی حصے میں مار گرایا ہے۔ نیویارک ٹائمس کے مطابق امریکی خفیہ جہازوں کے بیڑے میں آر کیو170 سب سے جدید تکنیک والا جنگی جہاز ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ان جنگی جہازوں کی تعیناتی حال ہی میں کی گئی تھی اور اس نے ہی ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کے اوپر سے پرواز کی شروعات کی تھی لیکن پاکستان کا ایئرڈیفنس سسٹم اسے پکڑ نہیں پایا تھا۔ یعنی پاکستانی راڈار اس کا پتہ نہیں کرسکے۔امریکہ کو اب یہ پریشانی ستا رہی ہے کہ ایران امریکی تکنیک تک جزوی پہنچ بنانے میں اہل ہوگیا ہے۔ امریکہ کو اس بات کا ڈر ہے کہ اس کے انتہائی جدید ڈرون جہاز میں لگے آلات کا ایران کو پتہ چل جائے گا۔ اس میں کیا تکنیک اپنائی گئی ہے اس کی ایران کو جانکاری ہوجائے گی۔ حالانکہ ابھی تک ایرانی حکومت نے اس گرائے گئے جہاز کی کوئی تصویر جاری نہیں کی ہے۔ غیر مصدقہ خبروں کا دعوی ہے کہ ایک سائبر اٹیک ک

دیو صاحب کے دیہانت سے ایک دور کا خاتمہ ہوگیا

تصویر
 Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 7th December 2011 انل نریندر سدا بہار اداکار دیو آنند اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ 65 سال تک پردے پر اجلے رومانس کا خالق چلا گیا۔ ہر فکر کو دھوئیں میں اڑانے والے دیو آنند کا لندن میں دیہانت ہوگیا۔ آپ کی عمر85-88 برس تھی۔ وہ کہا کرتے تھے میں اس دنیا سے جب رخصت ہوجاؤں تو کام کرتے ہوئے جاؤں اور ویسے ہی انہوں نے کیا ۔ وہ آخری وقت تک اپنے کام میں مشغول تھے۔ کام کرنے کی طاقت دیو صاحب میں غضب کی تھی۔ انہوں نے100 سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ ان سے جب کسی نے پوچھا کہ آپ کے جواں رہنے کا راز کیا ہے، تو کہتے تھے میں نئے زمانے کی سوچ کے ساتھ چلتا ہوں۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ان کی کئی فلمیں وقت سے آگے کی تھیں۔ مثال کے طور پر 'گائڈ، ہرے رام ہرے کرشنا' اپنے وقت سے کافی آگے کی تھیں۔ جب دیو آنند بھارتیہ سنیما میں آئے تو ان کی خوبصورتی سے اور اپنے انداز سے وہ بالی ووڈ میں چھا گئے۔ وہ اتنے ہینڈ سم تھے کہ جوان لڑکیاں ان کی ایک جھلک پانے کیلئے ترستی تھیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہیرو کی خوبصورتی بہت زیادہ اہم ہوا کرتی تھی۔ آج تو شکل صورت پر کوئی اتنا

چین کے تئیں بھارت کواپنی پالیسی بدلنی ہوگی

تصویر
 Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 7th December 2011 انل نریندر ہندوستان اور چین کے درمیان رشتے ہمیشہ سرد گرم ہوتے رہے ہیں۔ ہندوستان سے ہی چین میں بودھ دھرم کی تبلیغ اور فروغ ہوا تھا۔1949ء میں چین کی کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی اور دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں کا قیام عمل میں آیا۔ بھارت نے شروع سے ہی چین کے تئیں دوستی اور بھاری چارگی کا اظہار کیا ہے۔ بھارت ایک ایسا پہلا غیر کمیونسٹ ملک تھا جس نے چین کی کمیونسٹ سرکار کو تسلیم کیا تھا اور اقوام متحدہ نے بھی چین کو منظوری دلانے کی کوشش کی تھی۔1954 میں چین اور بھارت کے درمیان ایک آٹھ سالہ معاہدہ ہوا جس کے تحت بھارت نے تبت سے اپنے فاضل ملکی اختیارات کو چین کو سونپ دیا۔ اس کی بنیاد پر دونوں ملکوں کے درمیان پنچ شیل اصولوں کی تعمیل کی گئی۔ 1957ء میں دونوں ملکوں کے درمیان تبت کو لیکر رشتے خراب ہونا شروع ہوگئے۔ 31 مارچ 1959ء کوتبت میں چینی دمن کی وجہ سے وہاں کے دھرم گورو دلائی لامہ نے بھارت میں سیاسی پناہ لی۔ اس کی کشیدگی 1962ء میں ہند۔ چین جنگ کی شکل میں ہوئی۔آج بھی دلائی لامہ اور ان کے ماننے والوں کو لیکر بھارت چین می