اشاعتیں

اکتوبر 21, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

واڈراکو ڈیل بحال کرنا ٹیڑھی کھیرثابت ہورہی ہے

رابرٹ واڈرا۔ ڈی ایل ایف سمجھوتے کے تحت گوڑ گاؤں کے شکوہ پور گاؤں کی ساڑے تین ایکڑ زمین کی منتقلی کرکے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل چکبندی ڈاکٹر اشوک کھیمکا نے ہریانہ حکومت کو بری طرح سے پھنسا دیا ہے۔ منتقلی منسوخ کرنے کے بجائے گوڑ گاؤں کے ڈپٹی کمشنر ٹی سی مینا نے رجسٹری کو صحیح مانتے ہوئے ہریانہ سرکار کو خط لکھ کر اس بارے میں ہدایتیں مانگی ہیں۔ گوڑ گاؤں کے ڈی سی نے چیف سکریٹری اور ایڈیشنل چیف سکریٹری کولکھے خط میں کہا ہے کیونکہ ریاست بھر میں اسسٹنٹ چکبندی افسر ہی منتقل کررہے ہیں اور ایسے ہزاروں زمینوں کی منتقلی کئے ہوئے ہیں اس لئے واڈرا کے ذریعے ڈی ایل ایف کو بیچی گئی زمین کی 20 ستمبر کو کی گئی داخل خارج کارروائی صحیح ہے۔ اکیلے شکوہ پور گاؤں میں اسی طرح کے 150 منتقلی معاون چکبندی افسر نے کئے ہیں۔ انہیں یہ اختیار بھی سرکار نے دیا ہے اس لئے ان کا مارگ درشن کریں۔ ڈپٹی کمشنر مینا نے کہا ڈائریکٹر جنرل چکبندی کے ذریعے 15 اکتوبر کو جاری داخل خارج منسوخ کرنے کے احکامات مل گئے ہیں لیکن ان کی تعمیل نہیں کی گئی ہے کیونکہ ریاست میں اسی طرح کی داخل خارج چکبندی افسر کررہے ہیں اس لئے ڈی ایل ایف کو منتق

اس جان لیوا ڈینگو مچھر سے کیسے نمٹیں؟

کروڑوں اربوں کے مالک فلم پروڈیوسر یش چوپڑہ نے شاید کبھی تصور نہ کیا ہوگا ایک چھوٹا سا مچھر ان کی زندگی کا خاتمہ کرسکتا ہے لیکن اس مچھر نے ایک ڈنک مار کر بالی ووڈ کی ایک بڑی ہستی کو ہمیشہ کے لئے سلادیا۔ویسے ممبئی مہا نگر پالیکا انتظامیہ کی طرف سے لیلاوتی ہسپتال کو نوٹس بھیج دیا گیا ہے جس میں یش چوپڑہ کے موت کے اسباب کی رپورٹ مانگی گئی ہے۔ ہسپتال نے 24 گھنٹے کے اندر یش چوپڑہ کی ڈینگو سے ہوئی موت کی جانکاری انتظامیہ کو نہیں دی جو اسے دینی چاہئے تھی۔ ڈینگو کا اثر اتنا بڑھ گیا ہے کہ راجدھانی دہلی میں ڈینگو کے مریضوں کی تعداد730 سے اوپر پہنچ چکی ہے اور یہ جان لیوا بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ایسے میں ڈینگو بخار اور اس کے بچاؤ کو ہلکے سے لینا آپ کی جان کو آفت میں ڈال سکتا ہے۔ ہر شخص کہیں پر بھی اس مچھر کا شکار ہوسکتا ہے ڈاکٹروں کا کہنا ہے ڈینگو سے ڈریں نہیں بلکہ اس کے بچاؤ کے طریقے اپنائیں۔اگر یہ بخار کسی کو ہوتا ہے تو بغیر گھبرائے ڈاکٹر کو دکھائیں اور خیال رکھیں۔ ڈاکٹر کے پاس جانے میں دیری نہ ہو۔ ڈینگو بخار سے پہلے دن پتہ چل جاتا ہے کہ اگر بخار ہے تو پلیٹ لیٹس کی جانچ کراتے ہیں اور جب تک

تنازعوں کے چلتے گڈکری کو عہدہ چھوڑ پارٹی بچانی چاہئے

بھاجپا پردھان نتن گڈکری کی مشکلیں بڑھتی جارہی ہیں۔ گڈکری پر مہاراشٹر میں پی ڈبلیو ڈی وزیررہتے ہوئے خود کی کمپنیوں کو اقتصادی فائدہ پہنچانے کا نیا الزام سامنے آیا ہے۔ وہ مہاراشٹر کی شیو سینا بھاجپا کی سرکار میں 1995 سے1999ء تک وزیر تھے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق گڈکری کی کمپنی پورتی پاور اینڈ شوگر لمیٹڈ نے کئی گھپلے کئے۔ ان میں غلط طریقے سے پیسہ جمع کرنے سے لیکرکمپنی کے بارے میں دی گئی معلومات فرضی ہونا شامل ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پورتی کے زیادہ تر سرمایہ کار اور قرض آئی آر بی گروپ کی جانب سے دئے گئے۔گڈکری مہاراشٹر سرکار میں پی ڈبلیو ڈی وزیر تھے تب آئی آر بی گروپ کو کئی ٹھیکے دئے گئے تھے۔ پورتی کی شیئر ہولڈر کمپنیوں کے پتے بھی فرضی ہیں ان میں سے پانچ کمپنیوں کے پتے دراصل ممبئی کی جھگی بستیوں کے ہیں۔ نتن گڈکری نے اپنی صفائی میں کہا کہ مہاراشٹر سرکار میں پی ڈبلیو ڈی وزیر رہتے ہوئے پرائیویٹ کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کی بات بے بنیاد ہے۔ میں خود پر لگے ان الزامات کی کسی بھی جانچ کے لئے تیار ہوں۔ مرکزی کارپوریٹ امور کے وزیر ویرپا موئلی نے کہا کہ اس معاملے کی جانچ کرائی جائے گی۔ انکشاف کے ب

بابا رام دیو کا مرکزاور ریاستی حکومت سے بڑھتا ٹکڑاؤ

بابا رام دیو کے اثاثوں اور ان کے گورو شنکر دیو کے غائب ہونے کی جانچ سی بی آئی سے کرانے کی منظوری کو لیکر بابا اور سرکار میں ٹکڑاؤ بڑھ گیا ہے۔بابا کے نشانے پر اب دونوں مرکز اور اتراکھنڈ کی حکومت ہے۔ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو سونیا گاندھی کا روبو بتانے ،رابرٹ واڈرا کو سرکاری داماد بتانے، مرکزی سرکار پر ایف ڈی آئی وغیرہ کے معاملے میں سیدھے حملے کئے جانے سے مرکزی سرکار بابا سے بری طرح چڑھی ہوئی ہے۔ رام دیو کے گورو سوامی شنکر دیو کو اب سی بی آئی ڈھونڈے گی۔ان کے گورو کو ڈھونڈنے کے بہانے رام دیو کی جانچ کرے گی۔ فرضی پاسپورٹ ، فرضی مارک شیٹ کو لیکر ان کے ساتھی آچاریہ بالکرشن پر پہلے ہی مقدمہ درج کرچکی ہے، جس کی جانچ جاری ہے۔ خیال رہے آچاریہ کو جیل میں بھیجا گیا تھا بعد میں ان کی نینی تال ہائی کورٹ سے ضمانت ہوگئی تھی۔ سوامی رام دیو کے گورو شنکر دیو پانچ سال پہلے 14 جولائی 2007ء کو اچانک اپنے کنکھل کے آشرم دویہ یوگ مندر کرپالو باغ سے غائب ہوگئے تھے۔ دو دن بعد 16 جون 2007ء کو آچاریہ بالکرشن نے اپنے گورو کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی۔ تب بابا رام دیو بیرون ملک تھے ، بیرون ملک سے لوٹنے ک

ابوجندال کے بعد فصیح کی گرفتاری دوسری اہم کامیابی

آتنک وادی فصیح محمود کی سعودی عرب سے حوالگی سے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں ایک اہم کامیابی ملی ہے۔ انڈین مجاہدین کے مشتبہ اس آتنک وادی کی گرفتاری کو مرکزی داخلہ سکریٹری آر کے سنگھ نے بیحد اہم بتایا ہے۔ فصیح محمود کو دہلی بم دھماکوں اور بنگلورو کے چننا سوامی اسٹیڈیم میں دھماکوں میں دہشت گردی کی واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں تلاش کیا جارہا تھا۔ فصیح کی گرفتاری اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ یہ بین الاقوامی تعاون سے ممکن ہوسکی ہے۔ فصیح کی حوالگی میں وزارت خارجہ کو سعودی عرب سے کافی مشقت کرنی پڑی اور لمبی جدوجہد کے بعد یہ ممکن ہوپایا اور اس کی حوالگی سے جہاں بھارت اور سعودی عرب کے درمیان باہمی رشتوں کو مضبوطی ملی ہے وہیں پاکستان کو اس سے ایک صاف اشارہ بھی ملا ہے کہ فصیح محمود کی گرفتاری بھارت کے لئے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں دوسری سفارتی جیت ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ابو جندال کے بعد فصیح کو سونپ کر سعودی عرب نے خاص طور پر پاکستان کو یہ پیغام دیا ہے کہ دہشت گردوں کو پناہ دینے سے اسلامی ملکوں کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ سعودی عرب میں پہلی بار فصیح محمود کے خلاف ثبوت کو ناکافی بنا کر کچھ اور دستا

دگوجے نے کجریوال کو اور جارحانہ بننے کا موقعہ دیا

اپنی اپنی رائے ہوسکتی ہے۔ میری رائے میں کانگریس سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ نے انڈیا اگینسٹ کرپشن کے اروند کیجریوال سے سیدھا سوال پوچھ کر ٹھیک نہیں کیا۔ بیشک انہوں نے جوابی حملہ کیا لیکن اس سے الٹا یوپی اے سرکار اور کانگریس لیڈرشپ کو ہی نقصان ہوسکتا ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ کانگریس پارٹی نے دگوجے کی اس مہم سے اپنے آپ کو الگ کرلیا ہے۔ پارٹی جنرل سکریٹری و میڈیا محکمے کے چیئرمین جناردھن دویدی کا کہنا ہے کہ یہ سوال شری سنگھ نے اپنے سطح پر پوچھے ہیں اور اس سے پارٹی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وہیں پارٹی کے دوسرے لیڈر بھی ان سوالوں کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے کیجریوال گھرنے کے بجائے زیادہ جارحانہ ہوجائیں گے۔ کیونکہ یہ سوال اتنے کمزور ہیں کہ اس سے جنتا میں یہ پیغام جائے گا کہ کانگریس اور اس کی لیڈر شپ والی سرکار کے لاکھ تلاشنے کے بعد بھی کیجریوال کے خلاف کچھ نہیں نکلا کیونکہ اگر کانگریس کے پاس کچھ مضبوط حقائق کیجریوال کے خلاف ہوتے تو دگوجے سنگھ کو ایسے سوالوں کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔ مثال کے طور پر دگوجے نے ایک سوال میں پوچھا ہے کہ اپنی سرکاری نوکری کے دوران کیجریوال 20 سا

نوکرشاہ اب نیتاؤں کے دباؤ میں نہیںآئیں گے

ہریانہ کے سینئر آئی ایس افسر اشوک کھیمکا کو جس طرح سے پریشان کیا جارہا ہے اس سے افسر ناراض ہیں۔ بیورو کریسی اس دیش میں انتہائی طاقتور ہے اور اس کو نظرانداز کرنا سیاسی پارٹیوں اور حکومتوں کو کبھی کبھی بھاری پڑ سکتا ہے۔ سیاستداں اکثر اپنے الٹے سیدھے کام انہی افسروں کے ذریعے سے کراتے ہیں اور کسی بھی نیتا یا وزیر کی ساری پول اس کے سیکریٹریوں کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے جو گھوٹالوں کا پردہ فاش ہورہا ہے اس میں گھوٹالوں کی باریکیاں، حقائق تو افسر ہی لیک کررہے ہیں۔ اشوک کھیمکا نے دکھا دیا ہے کہ اگرافسرسیاستداں سے تعاون نہ کریں تو حکومتیں کتنی مشکلیں میں آسکتی ہیں اور جب کسی بھی گھوٹالے کا پردہ فاش ہوجاتا ہے یہ نیتا لوگ صرف اور صرف اپنا بچاؤ کرتے ہیں۔ افسر شاہوں کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم نے ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالوں میں دیکھا، کومن ویلتھ گیمس میں بھی دیکھا کے کس طرح سیاستدانوں کی توقعات کو پورا کرنے کے لئے افسروں کو مہینوں جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ افسر شاہی برادری کو سب سے پہلے اقتدار بدلنے کے اشاروں کا پتہ چل جاتا ہے۔ چناؤ سے پہلے انہیں پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں سرکار دوبارہ ا

جسٹس افتخار چودھری پاکستان کی سیاسی سمت بدلنا چاہتے ہیں

کسی بھی ملک میں کبھی ایسا شخص پیدا ہوتا ہے جو دیش کی سیاست کو بدلنے کی طاقت کا اظہارکرتا ہے۔ پختہ عزم سے وہ ایسے حوصلہ افزاء قدم اٹھاتا ہے جس سے دیش کی سیاست کو نئی سمت ملتی ہے۔ پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری اسی لائن میںآتے ہیں۔ انہوں نے محض پاکستان کی سپریم کورٹ کو اس کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کیا ہے بلکہ کئی ایسے معاملوں میں مداخلت کی ہے جنہیں پہلے کسی نے چھونے کی ہمت نہیں کی تھی۔ بیشک ان میں سے کچھ متنازعہ معاملے بھی ہوسکتے ہیں۔ تازہ معاملہ پاکستانی فوج اور اس کی خفیہ برانچ آئی ایس آئی کی دیش کی سیاست میں مداخلت ہے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی والی ڈویژن بنچ نے جمعہ کو سرکار کے سابق فوج کے سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ اور سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی کے خلاف 1990ء میں ہوئے انتخابات میں دھاندلی کے لئے سیاستدانوں کو لاکھوں روپے کی ادائیگی میں ان کے رول کے لئے قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کی رہنمائی والی تین نکاتی ڈویژن بنچ نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ فوج کو پاکستان کی سیاست میں دخل دینے کی عادت سے باز آنا چاہئے۔1996ء میں دائر ایک عرضی

سبھاش پارک میں ناجائز تعمیرات پر ہائی کورٹ کا ہمت افزاء و لائق تحسین فیصلہ

دہلی ہائی کورٹ کی اسپیشل بنچ جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس ایم ایل مہتہ اور جسٹس راجیو شکدھر نے جمعہ کو ایک افزاء فیصلہ دیا۔ معاملہ تھا دہلی کے سبھاش پارک میں ناجائز مسجد بنانے کا۔ قابل غور ہے کہ میٹرولائن بچھانے کے دورن سبھاش پارک میں ایک دیوار ملی تھی جسے ایک فرقے نے مبینہ طور سے اکبری آبادی مسجد کے باقیات قرار دیتے ہوئے وہاں راتوں رات تعمیر شروع کردی۔ اس مسئلے کو لیکر کچھ تنظیم دہلی ہائی کورٹ پہنچی اور اس ناجائز تعمیرات کو ہٹانے کی درخواست کی۔ ہائی کورٹ نے 30 جولائی کو پولیس کو یہ ناجائز تعمیرات ہٹانے کے لئے ایم سی ڈی کو فورس دستیاب کرانے کی ہدایت دی تھی لیکن ایم سی ڈی نے 31 جولائی کو ہی پولیس کو خط لکھ کر فورس دینے کی درخواست کی تاکہ عدالت کے حکم کی تعمیل ہوسکے۔ پولیس نے درخواست دے کر دلیل رکھی کہ رمضان، یومیہ آزادی کی تیاریوں کی وجہ سے پولیس فورس مصروف ہے اس لئے ایسے میں فورس مہیا کرانا ممکن نہیں ہے۔ بنچ نے کہا کہ ان کی نظر میں پولیس کی ڈیوٹی ہے کہ وہ امن و قانون کی صورتحال بنائے رکھے اور کوئی بھی قانون نہ ٹوٹے۔ اتنا ہی نہیں پولیس نے اپنی درخواست میں یہ بھی کہا تھا کہ ناجائز مسجد گرا

اور اب کیجریوال اور ٹیم ہی کٹہرے میں کھڑی

دوسروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے والے اروند کیجریوال نے جب اپنی گھوٹالے بازوں کا پردہ فاش کرنے کی مہم شروع کی تو انہوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ ان پر بھی جوابی حملے ہوسکتے ہیں اور وہ بھی کٹہرے میں کھڑے ہوسکتے ہیں۔ الزام درالزام کے اس دور میں اب کیجریوال کی ٹیم بھی نشانے پر آگئی ہے۔ گھوٹالوں کی پول کھولنے والوں میں کیجریوال کے ساتھ ساتھ ان کی ٹیم کا بہت بڑا رول رہا ہے۔ گھوٹالوں کی پول کھول مہم خاص طور پر انڈیا اگینسٹ کرپشن کے سپہ سالارہیں۔ کانگریس، این سی پی، بھاجپا سبھی پر ٹیم نے حملہ بولا ہے۔ اب ٹیم کیجریوال کے اس مہم کے لئے سیاسی پارٹیاں بھی جوابی کارروائی کرنے پر اتر آئی ہیں۔ کانگریس کے سکریٹری جنرل اور بڑبولے لیڈر دگوجے سنگھ نے سنیچر کو خود اروند کیجریوال پر ہی حملہ بول دیا اور ان پر27 سوال داغ دئے۔ سوال کیجری کی نوکری، این جی او اور تحریک سے جڑے ہیں۔ انہوں نے کچھ نجی سوال بھی پوچھے ہیں۔ حالانکہ اروند کیجریوال نے دگوجے سنگھ کے اس سوالنامے کا جواب تو نہیں دیا لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کانگریس نے کیجریوال کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے۔ ٹیم کیجریوال کی ایک مشہور رضاکار انجلی دامانیہ انہ

اور اب شرد پوارو منموہن سنگھ کی باری

چاروں طرف سے حملوں سے گھرتی یوپی اے سرکار اور کانگریس پارٹی کو کوئی امید کی کرن فی الحال نظر تو نہیں آرہی ہے۔ تازہ حملہ کانگریس کی یوپی اے سرکار کو حمایت دے رہی این سی پی کے چیف شرد پوار پر ہواہے۔ ایک سابق آئی پی ایس افسر و اروندکیجریوال کے ساتھی رہے وائی پی سنگھ نے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے مہاراشٹر کے لواسا پروجیکٹ میں گڑ بڑی کرنے میں مرکزی وزیر شرد پوار کا پورا خاندان شامل ہے۔مسٹر سنگھ مہاراشٹر کیڈر کے1985ء بیچ کے افسر رہے ہیں۔ وہ فی الحال وکالت کررہے ہیں، کا دعوی ہے کہ 2002ء میں 348 ایکڑ زمین لیک سٹی کارپوریشن کو30سال کے لئے پٹے پر دی گئی۔ یہ کمپنی ہندوستان کنسٹرکشن کی معاون کمپنی ہے۔ زمین الاٹ کرنے کا کام شرد پوار کے بھتیجے اور مہاراشٹر کے اس وقت کے وزیر آب پاشی اجیت پوار نے کیا تھا۔ پوری زمین لواسا کو 23 ہزار روپے فی ایکڑ ماہانہ کے حساب سے 30 سال کے لئے پٹے پر دی گئی۔ جب زمین ٹرانسفر کی گئی تو پوار کی بیٹی سپریہ اور ان کے شوہر سدانند کو لواسا لیک سٹی کو 10.4 فیصدی شیئر ملے۔2006ء میں سپریہ اور سدانند نے اپنے20.8 فیصد شیئر بیچ دئے۔ اس حساب سے سپریہ کو اپنے حصے کے 10.4 فیصد شیئر

ڈی ایل ایف کو پیمنٹ کیلئے واڈرا کے پاس 7.94 کروڑ کہاں سے آئے؟

رابرٹ واڈرا ڈی ایل ایف کی ایک متنازعہ سودے بازی دن بدن نئے سوال کھڑے کررہی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس زمین کے سودے پر نہ تو رابرٹ واڈرا اور نہ ہی ڈی ایل ایف کے ذریعے کوئی تشفی بخش جواب آیا ہے۔ نیا انکشاف کارپوریشن بینک کی طرف سے آیا ہے۔ خیال رہے کہ رابرٹ واڈرا کی کمپنی اسکائی لائٹ نے کمپنی رجسٹرار کے سامنے مالی سال 2007-08 کی آڈٹ رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ کارپوریشن بینک کی دہلی میں واقع نیو فرینڈس کالونی برانچ نے کمپنی کو اوور ڈرافٹ سہولت فراہم کی ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں رابرٹ واڈرا اور ان کی ماں ایم واڈرا کے دستخط ہیں۔ یعنی کارپوریشن بینک کے اوور ڈرافٹ اکاؤنٹ سے اسکائی لائٹ کمپنی نے 7.94 کروڑ روپے نکالے اور اس سے ڈی ایل ایف کو پیسہ دیا گیا۔ جمعہ کو کارپوریشن بینک کے چیئرمین و منیجنگ ڈائریکٹر اجے کمار نے بھی اس بات پر مہر لگادی کہ ان کے بینک نے واڈرا کی کمپنی کو کوئی قرضہ یا اوور ڈرافٹ کی سہولت فراہم نہیں کی ہے۔ اجے کمار کے بیان کے بعد یہ سوال مزید سنگین ہوجاتا ہے کہ آخر رابرٹ واڈرا کے پاس 7.94 کروڑروپے کی وہ کثیر رقم کہاں سے آئی جو انہوں نے اپنی کمپنی کی بیلنس شیٹ میں اوور ڈرافٹ کے ذری