اشاعتیں

مئی 20, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سبھی پارٹیوں نے وسط مدتی چناؤ کی تیاری شروع کردی

بھارتیہ جنتا پارٹی نے کہا ہے کہ اس حکومت سے نہ تو اپوزیشن خوش ہے اور نہ ہی سرکار کی اتحادی پارٹیاں۔ بھاجپا نے دعوی کیا ہے کہ یہ سرکار کبھی گر سکتی ہے۔ کبھی ممتا بنرجی ناراض ہوجاتی ہیں تو کبھی شرد پوار۔ کانگریس سرکار اپنی ساری ناکامیوں کو اپنے اتحادی ساتھیوں پر تھونپنے کی کوشش شاید ہی جنتا میں ان کی ساکھ کو بہتر بنانئے۔ اگر کچھ رپورٹوں پر یقین کیا جائے تو کانگریس کے حکمت عملی سازوں نے امکانی وسط مدتی چناؤ کی تیاریاں بھی شروع کردی ہیں۔ کہنے کو تو یہ کثرت 2014ء لوک سبھا چناؤ کے لئے کی جارہی ہے لیکن وقت کا کچھ پتہ نہیں۔ اگر بھاجپا کی پیشگوئی سچ ثابت ہوئی تو دیش میں کسی بھی وقت عام چناؤ ہوسکتے ہیں۔ کانگریس کے حکمت عملی ساز وقت سے پہلے چناؤ کی خفیہ بڑی یوجنا کی تیاری میں لگ گئے ہیں۔ پارٹی کا کور گروپ کانگریس کی یوپی اے سرکار کے گرتے گراف سے خوفزدہ ہوکر لوک سبھا چناؤ کو آخری متبادل مانتا ہے۔ ایک سینئر کانگریسی لیڈر نے انکشاف کیا ہے کہ 2012ء کے آخر میں یا 2013ء کے بجٹ سے پہلے فروری یا مارچ میں عام چناؤ میں پارٹی کم از کم 125 سے130 سیٹیں جیت سکتی ہے جبکہ 22 سے 24 ماہ بعد لوک سبھا چناؤ میں کا

پیٹرول کی قیمتیں:سمجھیں اس سرکار کے بہانے،چھلاوے اور چالاکی... (1)

میں نے کئی بار اسی کالم میں لکھا ہے کہ دیش اس سرکار اور مٹھی بھر تیل کمپنیوں کی دھاندلی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سرکار ہر مرتبہ پیٹرول کے دام بڑھا کر اپنا پلہ یہ کہہ کر نہیں جھاڑ سکتی کہ ہم کیا کریں یہ فیصلہ تو تیل کمپنیوں کا ہے۔ دیش چاہتا ہے کہ ان تیل کمپنیوں کی جھوٹی دلیلوں اور سرکار کی بدنیتی کا پردہ فاش ہو لیکن اس سے پہلے کہ میں تیل کمپنیوں کی بے بنیاد دلیلوں کی بات کروں میں چاہتا ہوں ہم اس حکومت کے سوچنے کے ڈھنگ کو سمجھیں۔ ماہر اقتصادیات اور وکیلوں سے بھری پڑی کانگریس قیادت والی یوپی اے سرکار پیٹرول کو امیروں کا ایندھن مان بیٹھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دیش کے60 فیصدی سے زائد اسکوٹر، آٹو رکشہ کی بکری چھوٹے شہروں اور دیہاتی علاقوں میں ہوتی ہے۔ میٹرو شہروں میں مختلف درمیانے طبقے ہی پیٹرول کا سب سے بڑا گراہک ہیں۔ پیٹرول کی قیمت میں اضافے کا اثر ہر اس طبقے پر پڑتا ہے۔ ان کی آمدنی تو اتنی بڑھی نہیں اور خرچ بے شمار بڑھتے جارہے ہیں۔ یہ اپنا گھر بار کیسے چلائیں، کیا کام پر جانا چھوڑدیں؟ کیا کریں۔ جہاں تک ان تیل کمپنیوں کی بات ہے تو بھارت کی یہ بدقسمتی ہے کہ 90 فیصدی تیل تجارت پر سرکا

گھٹتے کسان اور اس سے زیادہ گھٹتی کسانی

ہندوستانی معیشت کی بنیاد زراعت ہے۔ بھارت کے جی ڈی پی میں زراعت کا اشتراک 17 فیصد سے زیادہ ہے۔ کسان دیش کی آبادی کو نہ صرف کھانا فراہم کرتے ہیں بلکہ زراعت میں ایک بڑی آبادی کو روزی روٹی بھی مہیا کراتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کافی حد تک دیش کی صحت کسانوں کی صحت پر منحصرکرتی ہے۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ آج بھارت کا کسان بہت دکھی ہے اور مشکل دور سے گذر رہا ہے۔ ایک بڑا سوال ہے جو ہم سب کو بے چین کررہا ہے کہ کھیتی کے معاملے میں کسانوں کا رجحان گھٹ رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق 98.2 فیصد کسانوں کی نئی نسل میں کسانی کے تئیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے درمیانے و چھوٹے کسانوں نے کھیت بیچ کر اپنے بچوں کو زندگی میں کام آنے والی تعلیم دینا بہتر سمجھا ہے۔ تاملناڈو کے ایک کسان کے بیٹے نے انجینئرنگ کی پانچ لاکھ فیس اپنے کھیتوں کو بیچ کر اور کچھ ادھاری میں رقم جٹائی ہے۔ دراصل چھوٹے اور درمیانے کسانوں کے لئے اپنے یہاں کھیتی فائدہ کا سودا نہیں رہا۔ آج چھوٹا کسان نریگا کی مزدوری کرکے زیادہ خوش ہے۔ کسان پہلے کھیت جوتا کرتے تھے پھر اس کے بیج کیلئے جتائی بوائی سے لیکر ر

منموہن حکومت کی تین سالہ کارکردگی: مایوسی اور لاچاری

یوپی اے نے اپنی تیسری سالگرہ پر دیش کو زبردست تحفہ دیا ہے۔اس نے راتوں رات 7 روپے50 پیسے فی لیٹر پیٹرول کے دام بڑھا دئے ہیں۔روپے کی قیمت اتنی گر گئی کے پرانے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے روپے کی قیمت 53.39 پر نیچے آگئی ہے۔ افراط زر میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔سب سے مزیدار بات یہ ہے کہ سرکار کہتی ہے کہ اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے وہ بین الاقوامی حالات پر مجبور ہے اور لگتا ہے کہ اس سرکار کو اب یقین ہوچکا ہے کہ اس کی اب آخری پاری ہے اس لئے جو کرنا ہے کرڈالو، اقتدار میں پھر تو آنا نہیں،جتنا ہو سکے کرلو۔ دیش کی جنتا مجبور ہے ، وہ کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ انہیں اقتدار میں لانا اتنا بھاری پڑے گا اس کا شاید عوام نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔ مرکزی اقتدار کی دوسری پاری کے تین سال پورے کرنے والی کانگریس قیادت والی یوپی اے سرکار کی ساکھ اتنی گر چکی ہے کہ اگر مستقبل قریب میں چناؤ کرادئے جائیں تو وہ کبھی جیت کر واپس نہیں آسکتی۔ نیوز چینل آئی بی این 7 کے ذریعے کرائے گئے سروے کی مانیں تو جنتا یوپی اے سرکار سے بری طرح ناراض ہے۔ سروے میں جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ کیا یوپی اے کو ایک اور موقعہ م

اوبامہ نے زرداری سے ملنے سے انکار کیا

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری ایتوار کی شام شروع ہوئی شکاگو میں نیٹو کانفرنس میں شرکت کرنے اس مقصد سے گئے تھے کہ شاید پاکستان اور امریکہ کے بگڑتے رشتوں میں تھوڑی بہتری آسکے اور دونوں کے آپسی رشتوں کو نئی راہ مل سکے لیکن زرداری صاحب کو کوئی خاطر خواہ کامیابی فی الحال ملتی نظر نہیں آئی۔ امریکہ کے صدر براک اوبامہ نے جناب زرداری صاحب سے ملنے سے انکارکردیا اور صاف کہہ دیا نیٹو سپلائی راستہ کھولنے پر معاہدے کے بغیر ملاقات ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ اور پاکستان کے درمیان جو کڑواہٹ ختم ہونے کی امیدیں پیدا ہوئی تھیں وہ بھی اب تاریک ہوگئیں۔ دوسری جانب افغانستان میں موجودہ نیٹو فورسز تک سپلائی کے لئے پاکستانی زمین کے استعمال کا معاملہ بھی پھنس گیا ہے۔وائٹ ہاؤس نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اوبامہ نے زرداری سے ملنے کا وقت نہیں نکالا۔ زخم پر نمک چھڑکنے کی نیت سے اوبامہ نے جن ملکوں کا افغانستان میں فوج کو سامان کی سپلائی کے لئے شکریہ کیا ان میں پاکستان کا نام نہیں لیا گیا۔ اسے صاف طور پر پاکستان کو نظر انداز کیا جانا مانا جاسکتا ہے۔ پیر کے روز شکاگو میں ہوئی نیٹو کانفرنس کے دوسرے اور آخر

جاوید اختر کی مہم رنگ لائی کاپی رائٹ بل پاس

فلموں میں موسیقی سازوں اور نغمہ نگاروں سمیت مختلف عوامی بہبود سے جڑے لوگوں کے کاپی رائٹ حقوق کی حفاظرت کرنے کی مانگ بہت دنوں سے اٹھ رہی تھی۔ آخر کار راجیہ سبھا میں کاپی رائٹ سے متعلق بل کو منظوری مل گئی ہے۔ اس بل پر مفصل بحث بھی ہوئی۔ موجودہ ایکٹ میں کاپی رائٹ سے متعلق قواعد اتنے دھندلے ہیں کے فلم پروڈیوسر موسیقی کا کاروبار کرنے والی کمپنی یا ٹی وی چینل آسانی سے ان کی خلاف ورزی کرلیتے ہیں۔ کیسے نغمہ نگار یا موسیقار یا کہانی کے مصنف کا شروع میں جس کمپنی سے معاہدہ ہوگیا اور ا س کے لئے پیمانے جو طے ہوئے اسی پر تسلی کرنی پڑتی ہے جبکہ اس کے لکھے گیت و مکالمے اور موسیقی کا استعمال ریڈیو ، ٹی وی جیسے مختلف ذرائع ابلاغ میں بار بار ہوتا ہے۔ فلموں کے معاملے میں کاپی رائٹ ایکٹ کے مطابق ٹی وی چینلوں کو متعلقہ پروڈیوسر کو ہر نشریہ پر ادائیگی کرنی پڑتی ہے جبکہ موسیقار مکالمہ اور کہانی کے مصنف کو اس میں سے حصہ نہیں ملتا۔ اس لئے اس ایکٹ میں ترمیم کی مانگ طویل عرصے سے جاری تھی۔ تازہ ترمیم میں نغمہ نگار ، موسیقار، مکالمہ نگار اور کہانی کے مصنف کے کاپی رائٹ کی حفاظت کی گئی ہے۔ اگر کوئی ذرائع ابلاغ ان

جاوید اختر کی مہم رنگ لائی کاپی رائٹ بل پاس

فلموں میں موسیقی سازوں اور نغمہ نگاروں سمیت مختلف عوامی بہبود سے جڑے لوگوں کے کاپی رائٹ حقوق کی حفاظرت کرنے کی مانگ بہت دنوں سے اٹھ رہی تھی۔ آخر کار راجیہ سبھا میں کاپی رائٹ سے متعلق بل کو منظوری مل گئی ہے۔ اس بل پر مفصل بحث بھی ہوئی۔ موجودہ ایکٹ میں کاپی رائٹ سے متعلق قواعد اتنے دھندلے ہیں کے فلم پروڈیوسر موسیقی کا کاروبار کرنے والی کمپنی یا ٹی وی چینل آسانی سے ان کی خلاف ورزی کرلیتے ہیں۔ کیسے نغمہ نگار یا موسیقار یا کہانی کے مصنف کا شروع میں جس کمپنی سے معاہدہ ہوگیا اور ا س کے لئے پیمانے جو طے ہوئے اسی پر تسلی کرنی پڑتی ہے جبکہ اس کے لکھے گیت و مکالمے اور موسیقی کا استعمال ریڈیو ، ٹی وی جیسے مختلف ذرائع ابلاغ میں بار بار ہوتا ہے۔ فلموں کے معاملے میں کاپی رائٹ ایکٹ کے مطابق ٹی وی چینلوں کو متعلقہ پروڈیوسر کو ہر نشریہ پر ادائیگی کرنی پڑتی ہے جبکہ موسیقار مکالمہ اور کہانی کے مصنف کو اس میں سے حصہ نہیں ملتا۔ اس لئے اس ایکٹ میں ترمیم کی مانگ طویل عرصے سے جاری تھی۔ تازہ ترمیم میں نغمہ نگار ، موسیقار، مکالمہ نگار اور کہانی کے مصنف کے کاپی رائٹ کی حفاظت کی گئی ہے۔ اگر کوئی ذرائع ابلاغ ان

ججوں پر حملہ روڈ ریج کا معاملہ نہیں اقدام قتل کا ہے

ساکیت عدالت کے تین جج صاحبان پر قاتلانہ حملہ کرنے والے چاروں ملزمان کو سنیچر کے روز عدالت میں 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا ہے۔ ملزمان کے نام دکشن پوری کے باشندے انل راج، سنیل راج و سنگم وہار کے باشندے روہت اور پرشانت عرف ہنی بتائے جاتے ہیں۔ انل راج اور سنیل راج سگے بھائی ہیں۔ گرفتار کئے گئے ملزم انل راج کے خلاف امبیڈکر نگر تھانے میں پہلے ہی سے دو معاملے درج ہیں۔ پولیس کے اسپیشل کمشنر (لا اینڈ آرڈر) دھرمیندر کمار کے مطابق جج صاحبان کے کار ڈرائیور چمن لال اور بائیک سوار ملزمان کے درمیان بیچ روڈ پر کہا سنی ہوگئی تھی۔ پہلے تو انہوں نے معاملے کو رفع دفع کرنے کی سوچی لیکن جب اس نے دیکھا کہ کار پر جج کا سٹیکر لگا ہوا ہے تو اس نے وہاں اپنے ساتھیوں کو بھی بلا لیا۔ اسپیشل کمشنر دھرمیندر کے مطابق انل راج سے پوچھ تاچھ جو بات پتہ چلی وہ بیحد چونکانے والی ہے۔ حملے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انل راج کو ایک معاملے میں انہی ججوں نے سزا سنائی تھی۔ایڈیشنل پولیس کمشنر ساؤتھ ایسٹ اجے چودھری کے مطابق پوچھ تاچھ میں چاروں ملزمان انل راج ، سنیل راج، روہت و پرشانت نے اقبال کیا ہے کہ انہوں نے

بابا رام دیو کے ٹرسٹوں کو 58 کروڑ کے نوٹس کا سوال

یوگ گورو بابا رام دیو آج کل پھر سرخیوں میں ہیں۔ پچھلے کئی دنوں سے بابا رام دیو نے بیرونی ممالک میں جمع دیش کی کالی کمائی کو قومی اثاثہ اعلان کرنے کا ابھیان چلا رکھا ہے۔ عوامی نمائندوں کے خلاف خاص کر ممبران پارلیمنٹ کے تئیں سخت زبان کا استعمال کرنا اس کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ بابا رام دیو اس حکومت کی آنکھوں کی کرکری بن چکے ہیں ۔ حکومت نے بھی بابا رام دیو پر جوابی حملہ کرنا شروع کردیا ہے۔ سرکار کا کہنا ہے کہ یوگ گورو بابا رام دیو کو انکم ٹیکس چکانے کیلئے ملی چھوٹ ختم ہوگئی ہے۔ ان کے ٹرسٹوں کو 58 کروڑ روپے چکانے کا نوٹس بھیج دیا گیا ہے۔آیورویدک دوائیں بیچنے سے شروع ہوئی کمائی پر انکم ٹیکس چکانے کے لئے رام دیو کے ٹرسٹوں کو نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ گذشتہ برس 2009-10 کے دوران ہوئی 100 کروڑ کی کمائی پر ٹیکس چکانے کے لئے ہریدوار میں واقع پتنجلی یوگ پیٹھ ٹرسٹ دویہ یوگ ٹرسٹ اور بھارت سوابھیمان ٹرسٹ کو یہ نوٹس جاری کیا گیا ہے۔انکم ٹیکس محکمے نے انہیں کاروباری ادارے مان کر نوٹس دئے ہیں۔بیرونی ممالک میں جمع ہندوستانی شہریوں کی کالی کمائی ک

راجدھانی کی سڑکوں پر عام آدمی تو کیا جج بھی محفوظ نہیں

دہلی کی سڑکیں اتنی غیر محفوظ ہوتی جارہی ہیں کہ اب تو سڑک پر چلنے سے ڈر لگنے لگا ہے۔ عام آدمی تو اب دور کی بات ہے راجدھانی میں جج صاحبان تک محفوظ نہیں ہیں۔ حال ہی میں لاجپت نگر علاقے میں ایک سڑک پر ہوئے غنڈہ گردی کے واقعہ میں ایک جج کے ساتھ مار پیٹ ہوئی تھی۔ اب جمعرات کی شام ایک بار پھر ایک کار سوار نے تین ججوں پر حملہ کردیا۔ یہ واردات دکشن پوری کے علاقے میں ہوئی جہاں اسٹیم کار میں سوار تین ججوں کی گاڑی معمولی طور سے ایک بائیک سوار سے ٹچ ہوگئی تھی۔ اس بات کو لیکر ہوئی کہا سنی کو لیکر جھگڑا اتنا بڑھ گیا کہ بائیک سوار لڑکوں نے جج کی گاڑی پر اینٹوں سے حملہ کردیا۔ میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ اچاریہ گرگ اور دو اڈیشنل ڈسٹرکٹ جج منوج کمار ناگپال اور اندر جیت سنگھ شام کو ساکیت عدالت سے ایک ہی کار میں فرید آباد اپنے گھر جارہے تھے۔ دکشن پوری کے جے بلاک میں ان کی گاڑی ایک پلیٹینا بائیک سے ٹکرا گئی۔ اس سے بائیک سوار دو لڑکے بھڑک گئے اور انہوں نے کار کے ڈرائیور چمن لال کو باہر کھینچ لیا۔ لڑکوں نے پہلے تو کار میں بیٹھے ججوں کے ساتھ بد تمیزی کی اور پھر ان کے ساتھ مار پیٹ کی۔ تھوڑی دیر بعد بائیک

قصاب کی مہمان نوازی پر ہورہے 20 کروڑ کا خرچ کون برداشت کرے؟

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ رحم کی اپیلوں کے معاملے میں اس کے سامنے دو معاملے التوا میں ہیں۔ ان معاملوں میں وہ کچھ ایسی ہدایت دے سکتی ہے جو صدر کے پاس التوا میں پڑی رحم کی اپیلوں کو لائن میں لگا سکتی ہے۔اس لئے بہتر ہوگا کہ وہ رحم کی اپیلوں کے نپٹارے کے لئے کوئی وقت یا میعاد مقرر کرے۔ جسٹس جی ایس سنگھوی، ایس جے مکھ اپادھیائے کی ڈویژن بنچ نے کہا ہے کہ مرکز وقت اور میعاد مقرر کرنے پر غور کرے۔ حالانکہ معافی دینے کے صدر کے مخصوص اختیارات پر وہ کوئی ہدایت نہیں دینا چاہتے۔ عدالت نے کہا ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ سرکار جلد بازی میں فیصلہ کرے کیونکہ اس سے اس کے سامنے التوا معاملوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔ عدالت نے یہ رائے زنی کرتے ہوئے کہا کہ حالانکہ ہم نے دیکھا ہے کہ حکومت نے بھلر کے معاملے میں سرگرمی تبھی دکھائی جب اس نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔ اس کی عرضی کے ایک ماہ بعد ہی حکومت نے اسے خارج کردیا۔ اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس کے مقدمے کے نفع نقصان کی بنیاد پر فیصلہ ہوا ہے۔ صدر کے سامنے رحم کی عرضیوں کے برسوں تک لٹکے رہنے کے خلاف موت کی سزا یافتہ دو قصورواروں دیویندر سنگھ بھلر او