اشاعتیں

دسمبر 25, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

نوٹ بندی کے 50 دن:کیا کھویا کیا پایا۔۔۔2

15.4 لاکھ کروڑ روپئے مالیت کے 500-1000 کے پرانے نوٹوں میں قریب14 لاکھ روپئے واپس بینکوں میں جمع کرائے جاچکے ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی نے 8 نومبر کو 500-1000 کے نوٹ کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا تب حکومت کو امید تھی کہ نوٹ بندی کے اس فیصلے سے اسے کئی محاذ پر فائدہ ہوگا۔ امید یہ تھی کہ کالی کمائی کی شکل میں رکھے گئے کم سے کم 3 لاکھ کروڑ روپئے مالیت کے پرانے نوٹ واپس نہیں ہوں گے۔ ایسا ہونے پر ریزرو بینک آف انڈیا حکومت کو اچھا خاصہ فائدہ دیتی لیکن یہ امید پوری ہوتی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ بینکوں میں جمع نوٹ کی مقدار سے ایسا لگتا ہے کہ لوگوں نے کالے دھن کو سفید کرنے کا راستہ نکالنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اب سرکار اس بات پر خوش ہوسکتی ہے کہ اسے2.5 لاکھ روپئے کی حد سے اوپر جمع ہوئے روپیوں پر بھاری بھرکم ٹیکس ملے گا۔ حکومت کو ایک اور فائدہ اس لحاظ سے بھی نظر آرہا ہے کہ گھروں میں رکھی گئی چھوٹی موٹی بچت کی رقم بینکوں میں آجانے سے معیشت کو مضبوطی ملے گی۔ نوٹ بندی کے اعلان کو بدھ کے روز 50 دن ہوگئے ہیں۔ ان 50 دنوں میں 14 لاکھ کروڑ سے زائد نوٹ بینکوں میں واپس آچکے ہیں یعنی 91 فیصد سے زیادہ جبکہ ا

نوٹ بندی کے 50 دن: کیا کھویا کیا پایا۔۔۔1

زیادہ ترا شوز پر ہم نے حکومت کا تب ساتھ دیا ہے جب ہمیں لگا کہ اس سے دیش کو فائدہ ہوگا اور جنتا کے مفاد میں ہے۔ جب ہمیں لگا کہ اس اشو سے دیش کی عوام کو نقصان ہوگا تو ہم نے سرکار کی مخالفت کی ہے۔ ہم عوام کو جوابدہ ہیں نہ کہ کسی سیاسی پارٹی یا اس کی سرکار کو۔ ایک صحافی کا پہلا فرض ہے کہ وہ عوام کی آواز اٹھائے اس لئے ہم نے اس کالم کا نام رکھا ہے ’’آج کی آواز‘‘ 8 نومبر کو جب وزیر اعظم نریندر مودی نے ڈیمونیٹائزیشن یعنی ’نوٹ بندی‘ کا اعلان کیا تھا تبھی سے مجھے لگا کہ یہ جن مقاصد کے لئے اٹھایا گیا ہے وہ شاید ہی اس قدم سے پورے ہوں۔ وزیراعظم نے8 نومبر کو کہا تھا کہ جنتا مجھے 50 دن دیں اس کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا۔ نوٹ بندی کے 50 دن آج پورے ہوگئے ہیں۔ ان 50 دنوں کا لیکھا جوکھا دیکھنا ضروری ہے۔ پہلے ان 50 دنوں کی کامیابیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہزاروں کروڑ روپئے کی غیر اعلانیہ آمدنی کا پتہ اب دیش کو لگ چکا ہے۔ حوالہ کاروباریوں اور ٹیکس چوروں کے لئے مشکلیں زیادہ بڑھی ہیں۔ پرانے نوٹوں کے ردی ہونے اور دہشت گردوں و نکسلیوں کی فنڈنگ پر لگام لگی ہے۔ نوٹ بندی کے بعد اکیلے چھتیس گڑھ سے نکسلیوں کے 7 ہزار کروڑ

نوٹ بندی کے بعدبسپا کے کھاتے میں کروڑ روپئے کا مسئلہ

انفورسٹمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے نوٹ بندی کے بعد بہوجن سماج پارٹی کے کھاتے میں 104 کروڑ روپئے اور پارٹی چیف مایاوتی کے بھائی آنند کمار کے کھاتے میں 1.43 کروڑ روپے جمع ہونے کے خلاصہ سے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچنا فطری ہی تھا۔ یہ رقم یونائیٹڈ بینک آف انڈیا کے کھاتوں میں جمع کرائی گئی۔ قرولباغ میں واقع بینک برانچ کے سروے کے دوران ای ڈی کو اس بات کی جانکاری ملی۔ ای ڈی کے مطابق نوٹ بندی کے بعد ان دونوں ہی کھاتوں میں کثیر تعداد میں پرانے نوٹ جمع کرائے گئے۔ جمع رقم میں 102 کرور روپئے 1000 کے وٹ اور باقی 500 روپئے کے پرانے نوٹ شامل ہیں۔ حکام کے مطابق اس کے بعد بھی یہ سلسلہ رکا نہیں اور ہر دن 15 سے17 کروڑ روپئے اس کھاتے میں جمع کرائے جاتے رہے۔ ہر دوسرے دن رقم جمع ہونے سے افسر بھی حیران ہیں۔ جانچ ایجنسی نے بسپا چیف مایاوتی کے بھائی آنند کمار کے اسی برانچ میں ایک اور کھاتے کا پتہ چلا ہے۔ اس میں 1.43 کروڑ روپئے جمع ہیں۔ اس میں 18.98 لاکھ روپئے نوٹ بندی کے بعد پرانے نوٹوں کی شکل میں جمع کرائے گئے۔ پورے معاملے پر مایاوتی نے کہا یہ ساری رقم ورکروں سے ملے چندے کی تھی۔ اسے پارٹی نے انکم ٹیکس محکمہ اور

غیر ملکی اکنامک ریٹنگ ایجنسی کی نظر میں نوٹ بندی

ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی خود اعتمادی سے لبا لب ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ یہ گلاس جو آدھا خالی ہے اس خالی حصے کی ہوا کو بھی بھارت کی بھولی جنتا کو بیچ سکتے ہیں۔ پانی کو بیچ دیں گے اور ہوا کو بھی۔ نوٹ بندی سے کالا دھن تو ختم ہونے سے رہا لیکن مودی جی نوٹ بندی کو جنتا میں کامیاب کر کے دکھانے کی کوشش ضرور کررہے ہیں۔یہی ان کیا سیاسی فن ہے۔ کالا دھن ختم نہیں ہوگا لیکن وہ اسے ختم ہوتا دکھا رہے ہیں۔ لوگوں کو راغب کرنے کی ان کا مارکٹنگ فن اندرا گاندھی، نہرو سے بھی کئی معنوں میں لاجواب ہے۔ کیونکہ 56 انچ کی چھاتی کے راشٹرواد سے وہ سنگھ پریوار کے تام جھام، ماں کی ممتا، تیا گ کا پرچار اور سوشل میڈیا کے ایسے فائدے ہیں جو کسی سابقہ وزیر اعظم کو نہیں حاصل تھے۔ پورے معاملے کاجادو منتر یہ ہے کہ اگر مارکٹنگ ٹھیک ہے تو سونا ، کوئلہ بنا دیں گے او کوئلہ سونا ۔ غریب کی سفید نقدی کالی ہوگئی ہے اور امیر کے کالے نوٹ سفید ہوں گے۔ تب بھی مودی مودی کے نعرے ان کی ریلیوں میں لگیں گے۔ بھارت کی عوام کی جیب خالی کردی لیکن مودی جی کی تقریر فن اور لاجواب ہمت کا غیر ملکی فائننشیل سروسز پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا دکھائی دے ر

اٹل جی کی شخصیت عہدے سے ہمیشہ بالاتر رہی ہے

سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی دیش کی سیاست کے نایاب لوگوں میں سے ہیں جن کی شخصیت کا قد ان کے عہدے سے ہمیشہ اونچا رہا ہے۔ اٹل جی کثیر خوبیوں کے مالک شخصیت کے دھنی ہیں۔ ایک منجھے ہوئے سیاستداں ،مثالی منتظم اور ادیب ، کوی ،پختہ نظریات کے عوام کے ہیرو ہیں۔ جن کے لئے آج بھی لوگوں میں عزت اور محبت ہے۔ اٹل جی کو بچپن سے ہی ادیب اور صحافی بننے کی تمنا تھی۔ پڑھائی پوری کرنے کے بعد اٹل بہاری واجپئی نے صحافت میں اپنا کیریئر شروع کیا۔ انہوں نے راشٹر دھرم، پانجنہ اور ویر ارجن اخبارات کو ایڈٹ کیا۔ اپنی باصلاحیت طریقہ کار سے سیاست کے ابتدائی دنوں میں ہی انہوں نے اپنا رنگ جمانا شروع کردیا تھا۔ اٹل جی سے میرے اچھے رشتے اور روابط رہے ہیں۔ مجھے ان کے ساتھ اقوام متحدہ (امریکہ) انڈونیشیا جانے کا فخرحاصل ہوا۔ اکثر میں ان سے ملتارہتا تھا۔ اگر انہیں میرا کوئی اداریہ پسند نہیں آتا تو وہ فون کرکے اپنی نا اتفاقی کا اظہار کر دیتے۔ عوام اور ان کے پریمی ان کی طبیعت اور موجودہ حالات کے بارے میں اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں۔ 25 دسمبر کوان کی 92 سالگرہ پر کافی گہما گہمی رہی۔ صبح صبح وزیر اعظم نریندر مودی اور بھاجپا صدر

جاتے جاتے اوبامہ نے اسرائیل کو دیا جھٹکا

امریکہ کے نئے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل حمایتی لابی کے زبردست دباؤ کے باوجود اوبامہ انتظامیہ نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے اس ریزولوشن کو منظور ہونے دیا جس میں اسرائیل کے ذریعے متنازعہ علاقے میں بستیوں کی تعمیر کرنے کی مذمت کی گئی تھی۔ امریکہ پر اس مذمتی ریزولوشن کو ویٹو کے ذریعے روکنے کا دباؤ تھا۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل سے مانگ کی ہے کہ وہ فلسطینی علاقے سے ناجائز طور پر بنی یہودی بستیوں کو ہٹائے۔بھاری دباؤ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے امریکہ نے اسرائیل سے فلسطینی علاقے سے ناجائز بستیاں تعمیرکرنے سے روکنے کی مانگ کرنے والے ریزولوشن پر اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل میں اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرنے سے بچتے ہوئے اسے پاس کرنے کی کونسل کو منظوری دے دی۔یہ اہم ترین لمحہ ہے جب امریکہ نے اپنے ویٹو پاور کا استعمال نہیں کیا اور نہ ہی ووٹنگ میں حصہ لیا۔ سکیورٹی کونسل کے اس ریزولوشن کی مخالفت اسرائیل کے علاوہ امریکہ کے نئے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کررہے تھے۔ ٹرمپ نے اس ریزولوشن پر رد عمل ظاہرکرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا : اقوام متحدہ کے لئے 20 جنوری کے بعد حالات بدل جائیں گے۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سا

کیا نجیب جنگ کے ہٹنے سے دہلی کی جنگ ختم ہوگئی

ایک نیک نیت اچھے انسان نجیب جنگ نے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کے عہدے سہ استعفیٰ دے کر سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ نجیب جنگ نے اپنے استعفے کے لئے کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا ہے ۔ وہ وزیر اعظم سے ملے بھی لیکن لگتا ہے ان کا عہدہ چھوڑنے کا پکا ارادہ ہے۔ مودی سرکار نے ڈھائی سال کے عہد میں یوپی اے سرکار کے ذریعے مقرر زیادہ تر گورنروں کو بدل دیا لیکن دہلی میں نجیب جنگ برقرار رہے اور دہلی حکومت سے ان کی جنگ بھی جاری رہی۔ ایل جی آفس سے جاری بیان کے مطابق جنگ واپس اپنے تعلیمی میدان میں لوٹ جائیں گے۔ انتہائی قریب ترین ذرائع کے مطابق تذکرہ ہے کہ مرکز میں اعلی لیول سے ہٹنے کیلئے کہاگیاتھا۔ کئی بار آپ سرکار کے خلاف زیادہ ہی سرگرمی بھاجپا اور مرکز کے مسئلے ان کے لئے مصیبت بن گئے تھے۔ بتایا جاتا ہے نجیب کے بی جے پی اور آر ایس ایس میں رشتے نہ کے برابر تھے۔ بھاجپا نیتا ڈاکٹر سبرامنیم سوامی بھی ان پر کانگریس کے اشارے پر کام کرنے کا الزام لگا چکے ہیں۔ اگلے برس دہلی میونسپل کارپوریشن کے چناؤ ہونے ہیں۔پچھلا اسمبلی چناؤ بری طرح ہار چکی بھاجپا کے کئی لیڈر کافی وقت سے نجیب جنگ کو ہٹوانا چاہتے تھے۔ وجہ کچھ بھی رہ

فی الحال نوٹ بندی کا نقصان۔ فائدہ کس کو

اگر ہم یہ کہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے نوٹ بندی کرکے نہ صرف اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگادیا ہے بلکہ اپنی پارٹی کا بھی مستقبل کافی حد تک نوٹ بندی کی کامیابی پر ٹک گیا ہے۔گزشتہ دنوں میری ایک سینئر بھاجپا لیڈر سے بات ہورہی تھی پہلے تو وہ مودی جی کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے پھر مان گئے کہ بات اتنی آسان نہیں ہے، جتنی بتائی جارہی ہے۔ لمبی بحث کرتے ہوئے انہوں نے کچھ لمبی سانس لی ،بولے کہ ایسا ہے یہ سمجھ لو کہ مودی جی نے خود کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ ساتھ ہی فی الحال پارٹی بھی داؤ پر لگ گئی ہے۔آخر کار کہنے لگے کہ اچھا خاصہ معاملہ جما ہواتھا پی او کے میں سرجیکل اسٹرائک کا اثر سال بھر تک نہیں ختم ہونا تھا، اس کا فائدہ پارٹی کو ملتا۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ تو نمٹ جانے دیتے؟ اب اپنی امیج اور پارٹی دونوں کے لئے سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ دیش کے اندر جو حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں لیکن اب تو بیرونی ممالک میں بھی نوٹ بندی پر سوال کھڑے کئے جارہے ہیں۔ نوٹ بندی کا ونر فی الحال کون ہے؟ وہ جمع خور جنہوں نے اپنے جمع کئے ہوئے ہر نوٹ کو سفید کرلیا، کالے دھن کو سفید کرنے والے دلال، کرپٹ بینک ملازمین کو س

آخر کیوں ہے’’ تیمور‘‘ نام رکھنے پر اتنا وبال

سوشل میڈیا پر سیف علی خان اور کرینہ کپور کے بیٹے کے نام پر ہنگامہ ہورہا ہے۔ ویسے اپنے بچے کا نام کیا رکھنا ہے یہ تو ماں ۔ باپ و خاندان والوں کا حق ہے لیکن بچے کا نام عام طور پر ایسے آدمی کے نام پر نہیں رکھا جاتا جو کہ صرف اپنے ظلم کے لئے بدنام ہو۔ نام اور بھی رکھے جاسکتے ہیں مثال کے طورپر سکندر، علی، سلطان وغیرہ لیکن تیمور نام اپنی سمجھ میں تو نہیں آیا۔ کیونکہ فلمی ستاروں کی ہر چیز پبلک ہوتی ہے اس لئے سوشل میڈیا پر اس کی جم کر تنقید ہورہی ہے۔ تیمور لنگ آخر کون تھا؟ کیا اسکا نام کوئی اپنے بچے کا نہیں رکھتا جیسے کوئی راون، وبھیشن نہیں رکھتا؟سیف علی خاں اور کرینہ کپور نے اپنے بیٹے کا نام تیمور رکھا تو سوشل میڈیا پر یہ بڑی بحث کا موضوع یوں ہی نہیں بنا۔کئی لوگوں نے بیشک اسے دونوں کا شخصی معاملہ کہاتو کئی لوگوں نے اس بات پر اعتراض جتایا اور کہا کہ ایک ظالم حملہ آور کے نام پر بیٹے کا نام رکھنا غلط ہے۔ آخر تیمور نے بھارت میں ایسا کیا کیا تھا؟ تاریخ داں مانتے ہیں کہ چغتائی منگولوں کے خان تیمور لنگ کا ایک ہی سپنا تھا وہ یہ کہ اپنے آباؤ اجدادچنگیز خاں کی طرح ہی وہ پورے یوروپ اور ایشیا کو اپنے ق