اشاعتیں

جون 17, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کیا نتیش بہار میں آر پار کی لڑائی چھیڑ رہے ہیں؟

صدارتی چناؤ امیدوار کو لیکراین ڈی اے میں چھڑی جنگ میں ایک نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ یوپی اے امیدوار پرنب مکھرجی کو لیکر تو پہلے ہی این ڈی اے میں دراڑ پڑ گئی تھی لیکن اب تو لگتا ہے کہ کہیں این ڈی اے ہی نہیں ٹوٹ جائے؟ تازہ معاملہ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کے بیانات کو لیکر کھڑا ہوگیا ہے۔ نتیش کمار نے ایک اخبار میں یہ بیان دے کر ہنگامہ کھڑا کردیا کہ این ڈی اے کا وزیر اعظم کا امیدوار ایسا ہونا چاہئے جس کی ساکھ سیکولرہو۔ ان کے اس بیان کو جہاں گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کے امکانات پر پانی پھیرنی کی کوشش کہا جاسکتا ہے۔ وہیں انہوں نے صاف اشارہ دے دیا کہ نریندر مودی کو بطور وزیر اعظم امیدوار قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اگر بھاجپا نے ایسا کیا تو این ڈی اے چھوڑ سکتے ہیں اور انہوں نے اس بات کی بھی پرواہ نہیں کی ہوگی کہ بہار میں ان کی بھاجپا کے ساتھ سانجھا سرکار چلتی ہے یا گرتی ہے۔ نتیش نے آخر کار بیان ایسے وقت کیوں دیا ؟انہوں نے پہلے ہی صاف کردیا تھا کہ یوپی اے امیدوار پرنب مکھرجی کی حمایت کریں گے۔ پھر یہ بیان دینے کے پیچھے کیا مقصد ہے؟ کیا وہ اپنے کو وزیراعظم کا امیدوار اعلان کررہے ہیں؟

اپنی ہی بچی سے آبروریزی کرنے والا کلجگی فرانسیسی حیوان

گذشتہ دنوں ایک انتہائی تکلیف دہ اور نفرت آمیز قصہ روشنی میں آیا ہے بینگلورو سے موصولہ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ایک فرانسیسی سفارتکار پاسکل ماجوریا پر اس کی بیوی و ہندوستانی شہری سجاجونس نے اپنی ساڑھے تین سال کی بچی سے بد فعلی کرنے کا الزام لگایا ہے۔بینگلورومیں واقع فرانس کے قونصل خانے میں پاسکل ماجوریا ڈپٹی چیف ہیں۔ الزام لگنے کے بعد بینگلورو پولیس کے لئے یہ پریشانی کھڑی ہوگئی کہ ڈپلومیٹ کو گرفتار کر کیا اس پر بھارت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ اگر سفارکار کو ڈپلومیٹک سرپرستی حاصل ہے تو اس پربھارت میں مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا لیکن پھر یہ صاف ہوا کہ ملزم کو کوئی ڈپلومیٹک سرپرستی حاصل نہیں ہے کیونکہ وہ ایک ڈپلومیٹ نہیں ہے۔ اس کے پاس سروسز پاسپورٹ ہے ۔ ڈپلومیٹک پاسپورٹ نہیں ہے۔ اسے ڈپلومیٹک چھوٹ حاصل نہیں ہے اور اس کے خلاف بھارت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔سفارتکار کی بیوی سجا جونس ماجوریا نے وزیر داخلہ پی چدمبرم اور وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کو ایک خط لکھ کر حکومت سے یہ یقینی بنانے کی اپیل کی ہے کہ اس کے شوہر کو تب تک دیش چھوڑنے سے روک دیا جائے جب تک سبھی قانونی تقاضے پورے نہیں

اکثر پھسل جاتی ہے دگوجے سنگھ کی زبان

مجھے آج تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ کانگریس سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ کس حیثیت سے آئے دن بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔ باتیں بھی وہ ایسی کرتے ہیں جن کا سنگین سفارتی و سیاسی مطلب نکلتا ہے۔ اگر وہ کانگریس کے ترجمان نہیں ہیں تو کس حیثیت سے اور کس کی شے پر وہ بیان بازی کرتے ہیں؟ ان کو کسی نہ کسی کی شے تو ضرورت حاصل رہی ہوگی؟ نہیں تو وہ پالیسی ساز بیان کیسے دے سکتے ہیں۔ تازہ مثال دگوجے سنگھ کی ممتا بنرجی کے خلاف ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل پر بیان بازی کی ہے۔ انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ترنمول کانگریس چیف ممتا بنرجی کو غیر سنجیدہ اور بددماغ بتایا تھا اور کہا کہ پارٹی کے صبر کی ایک حد ہوتی ہے۔ سنگھ نے یہ بھی کہا تھا کہ ممتا کو منانے کے لے پارٹی ایک حد سے آگے نہیں جائے گی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ دگوجے سنگھ نے ایسا بیان کیوں دیا؟ کیا یہ کانگریس کی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ تم بیان دے دو بعد میں ہم اس کی تردید کردیں گے۔ ممتا کو اشارہ بھی مل جائے گا اور پھر ہم پارٹی کو آپ کے بیان سے الگ کرلیں گے؟ یہ پہلی بار نہیں ہوا جب دگوجے سنگھ نے اس طرح کے متنازعہ بیان دئے ہوں۔ حال ہی میں دگوجے نے نائب صدر حامد انصاری کے ب

صدارتی چناؤ کے دنگل کا تیسراباب

صدارتی چناؤ کے تیسرے باب کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ چناؤ دنوں کانگریس اتحاد اور اپوزیشن کے لئے اپنے اپنے اسباب سے ایک سیاسی چیلنج بن گیا ہے۔ پہلے بات کرتے ہیں این ڈی اے کی۔ سابق صدر اے پی جے عبدالکلام کے چناؤ لڑنے کے انکار سے این ڈی اے میں اب آپسی پھوٹ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ این ڈی اے اتحادی پارٹیوں کی دو میٹنگیں ہوچکی ہیں لیکن کوئی حکمت عملی نہیں بن پارہی ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ سمجھی جارہی ہے کہ بھاجپا کے سرکردہ لیڈر بھی یوپی اے کے امیدوار پرنب مکھرجی کے مقابلے اپنا امیدوار اتارنے نہ اتارنے کو لیکر شش و پنج میں مبتلاہیں۔ یہ بحث بھی جاری ہے کہ اب جب ڈاکٹر کلام دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں تو کیا ایسے میں لوک سبھا کے سابق اسپیکر پی اے سنگما کو ہی اپنی حمایت دے دی جائے؟ بھاجپا کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی صدارتی چناؤ لڑنے کے خواہش مند بتائے جارہے ہیں۔ اڈوانی جی کہتے ہیں کہ جمہوریت میں چناؤ لڑنا ضروری ہوتا ہے۔ وہ یوپی اے امیدوار کو بلامقابلہ نہیں جتانا چاہتے۔ ذرائع کے مطابق بھاجپا صدر نتن گڈکری ہار کی فضیحت سے بچنے کے لئے امیدوار اتارنے کے حق میں نہیں ہیں۔ارون جیٹلی بھی گڈکری کے ساتھ ہیں۔ سابق پردھان راجن

ضمنی چناؤ کے واضح اشارے ہوا کانگریس کے خلاف چل رہی ہے

عام طور پر ضمنی چناؤ کا دوررس اثر نہیں ہوتا لیکن تازہ ضمنی چناؤ کے نتیجے کانگریس پارٹی کے لئے گہری تشویش کا باعث ہونا چاہئے۔ یوں تو ضمنی چناؤ کئی ریاستوں میں کئی جگہ ہوئے ہیں لیکن آندھرا پردیش کے ضمنی چناؤ کی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ آندھرا کی 18 اسمبلی اور 1 لوک سبھا سیٹ پر ہوئے ضمنی چناؤ اس بات کا صاف اشارہ دے رہے ہیں کہ اس کانگریس کا گڑھ مانے جانے والی ریاست میں کانگریس کی ہوا خراب ہوچکی ہے۔ اس طرح کے نتیجے کی شاید کانگریس کو بھی امید نہ رہی ہو۔ بغاوت کر وائی ایس آر کانگریس کی تشکیل کرنے والے وائی۔ ایس۔ جگنموہن ریڈی کو دھول چٹانے کے ارادے سے کانگریس نے اقتدار کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کردیا۔تجارت میں غیر اخلاقی وسائل کے استعمال کے الزام میں سی بی آئی نے انہیں 27 مئی کو ہی گرفتار کرلیا تھا۔ یقینا12 جون کو چناؤ کو ذہن میں رکھ کر ہی ایسا کیا گیا تھا۔ جگن کو گرفتار کرنے کا الٹا اثر ہوا ہے۔ ان سے جنتا کی ہمدردی بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے 18 میں سے15 اسمبلی سیٹوں کو اپنی جھولی میں ڈال لیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک لوک سبھا سیٹ بھی جگن کی پارٹی کو مل گئی ہے اور ان کی بھاری کامی

احتجاج سے شروع ہوا ہے ولادیمیر پوتن کا تیسرا عہد

روس میں صدر ولادیمیر پوتن کی کیا اقتدار پر پکڑ ڈھیلی ہوتی جارہی ہے؟ پوتن نے 7 مئی کو اپنی تیسری صدارتی میعاد کا آغاز کیا ہے۔ سال2000ء میں بورس یلتسن کو ہرا کر پوتن پہلی مرتبہ روس کے صدر بنے تھے۔2004 میں انہوں نے دوبارہ چناؤ جیتا وہ2008 میں بھی صدارتی چناؤ لڑے مگر آئینی رکاوٹیں بیچ میں نہیں آتیں تو اسے دور کرنے کے لئے پتن پردھان منتری بن گئے اور اپنے بھروسے مند دیمتری میدوف کو ملک کا صدر بنوادیا۔ تیسری بار حلف لینے کے فوراً بعد پوتن نے وزیر اعظم کی شکل میں میدوف کو بٹھا دیا۔ یہ دونوں لیڈروں کے درمیان اقتدار کی سانجھے داری کے سمجھوتے کے تحت کیا گیا۔ خفیہ ایجنسی کے جی بی کے افسر کے طور پر کام کرچکے پوتن اپنی یہ میعاد پوری کرتے ہیں تو وہ اسٹالین کے بعد سوویت روس اور روس میں سب سے زیادہ مدت تک صدر کا عہدہ سنبھالنے والے لیڈر بن جائیں گے۔ لیکن گذشتہ دنوں پوتن کے خلاف ہزاروں لوگ ماسکو کی سڑکوں پر اترآئے۔ مظاہرین ’’پوتن بنا روس‘‘ اور ’’پوتن چور ہے‘‘ کے نعرے لکھے بینر لے کر سڑکوں پر اترآئے ہیں۔ یہ موجودہ عہد میں پوتن کے خلاف سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ چشم دید گواہوں کا کہنا تھا کہ مارچ میں صدارتی چنا

راشٹرپتی چناؤ دنگل کا دوسرا باب

اگر جمعرات کا دن ممتا بنرجی اور ملائم سنگھ یادو کے نام رہا تو جمعہ کا دن یقینی طور سے سونیا گاندھی کے نام رہا۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے ممتا کی چنوتی کو قبول کرتے ہوئے پرنب مکھرجی کو یوپی اے کا صدارتی امیدوار اعلان کردیا۔یہ ہی نہیں شام ہوتے ہوتے ملائم سنگھ یادو اپنی عادت کے مطابق پلٹی کھاگئے اور انہوں نے پرنب کو حمایت دینے کا اعلان کیا۔ بسپا چیف مایاوتی نے بھی یوپی اے امیدوارکی حمایت رسمی طور پر کردی ہے۔ نمبروں کے حساب سے پرنب مکھرجی کا پلڑا بھاری ہے۔ صدارتی چناؤ کے لئے کل ووٹ ہیں 10988821 کیلئے 549442 ووٹ درکار ہیں۔ یوپی اے+ سپا+ بسپا + آر جے ڈی اگر جڑ جائیں تو یہ 571644 ووٹ بنتے ہیں جبکہ این ڈی اے کے پاس کل304785 ووٹ ہی رہ جاتے ہیں۔ اس لئے نمبروں کے حساب سے مسٹر پرنب مکھرجی کا صدر بننا طے ہے حالانکہ ممتا بنرجی ابھی بھی کہہ رہی ہیں کہ کھیل ابھی باقی ہے آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے؟ کیا کانگریس پارٹی کی اب بھی کوشش ہے کہ پرنب دا کا انتخاب اتفاق رائے سے ہوجائے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے پرنب دا کے نام کا اعلان ہونے کے بعد لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج کو فون کرکے بھاجپا کی حمایت م

شیام میں حالات دھماکہ خیز ہونے لگے

مشرقی وسطیٰ میں بدامنی کا ماحول ختم ہونے کا نام نہیں لے رہاہے۔شیام میں تو حالات بیحد دھماکہ خیز ہوتے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے ایک امن ٹیم شیام بھیجی ہے۔ اس امن ٹیم کے سربراہ کا کہنا ہے یہاں اب خانہ جنگی کے حالات ہیں۔ ٹیم کے افراد نے کہا جب وہ شیام کے شہر کوفہ میں داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے تو ان پر گولیاں چلائی گئیں اور واپس جانے کے لئے مجبور کیا گیا۔ نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے دفتر میں وہاں کے ترجمان ہرب لیڈآس نے بتایا کہ شیام کا بڑا حصہ اب سرکار کے کنٹرول سے باہر ہے اور وہاں کے حالات بے قابو ہوتے جارہے ہیں۔ پچھلے ہفتے تین قتل عام کے واقعات ہوئے اور تینوں میں سینکڑوں لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ نارتھ حبا صوبے میں تو قتل و غارت گری کا ماحول بنا ہوا ہے۔ صدر بشرالاسد کی حکومت اور باغیوں کے درمیان کسی سمجھوتے کے کوئی امکان نہیں بن پارہا ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ اٹل ہیں ۔سوویت یونین کے زوال کے بعد بھلے ہی دنیا کی ایک پولارائزیشن سیاسی سسٹم میں چل رہی ہے ہو لیکن شیام کی جنگ پر یہ دونوں بٹے ہوئے نظر آرہی ہیں۔ ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی ملک ہیں تو دوسری طرف روس ،چین ،ایران ہی