اشاعتیں

مئی 12, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

پاسوان وراثت بچانے کی جنگ !

حاجی پور سے آٹھ بار کامیاب ہونے والے رام ولاس پاسوان کی کمی ان کے چاہنے والے بہت محسوس کرتے ہیں اتنا ہی نہیں پیر کو منعقدہ ایک چناوی ریلی میں وزیراعظم نریندر مودی بھی انہیں یاد کر جذباتی ہو گئے ۔موسم ماہرین کے نام سے مشہور رام ولاس پاسوان کی کمی ان کے بیٹے چراغ پاسوان پورا کرنے کا وعدہ کررہے ہیں ۔وہاں کے لوگوں سے یہ اپیل کر ووٹ مانگ رہے ہیں کہ آپ کا ایک ایک ووٹ رام ولاس پاسوان کے ادھورے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے مجھے مضبوط بنائے گا لیکن راشٹریہ جنتا دل امیدوار شیو چندر رام کی دلیل ہے کہ مقامی امیدوار ہی حاجی پور کی پریشانیوں سے روبرو ہو کر حل کر سکتا ہے ۔مقامی اور باہری کو لیکر یہ دینے کی اپیل کررہے ہیں ۔انہیں دونوں میں سیدھی لڑائی ہے مگر مقابلہ ٹکر کا بتایا جا رہا ہے ۔حاجی پور،لال گنج ،مہنر پورہ ،مہوا ،راجپا ،رادھوپور،چھ اسمبلی حلقے ہیں یہاں کی 19 لاکھ 53 ہزار سے زائد ووٹر پانچویں مرحلے میں 20 مئی کو یعنی پیر کے روز اپنے ووٹ کا پرچار کااستعمال کریں گے ۔سابق سینٹرل ریلوے ہیڈ کوارٹر حاجی پور میںبنانے کا سہرہ سورگیہ رام ویلاس پاسوان کو ہی لوگ دیتے ہیں ۔گنگا اور بوڑھی غنڈق ندی سے گھرے رہ

دونوں ہی رام للا سے اپنا جڑاو ¿ بتا رہے ہیں!

دیش بھر میں رام مندر بھاجپا کے لئے اہم چناو¿ کی بنیادی اشو رہا ہے لیکن ایودھیا سماج وادی پارٹی کے لئے بھی یہ اتنا نہیں اہمیت رکھتا ۔رام مندر میں بھگوان رام کی پران پرتیسٹھا ہونے کے بعد پہلی بار یہاں لوک سبھا چناو¿ ہو رہے ہیں ۔بھاجپا امیدوار للو سنگھ خود کو رام بھگت اور رام مند ر تعمیر کو کارنامہ و پارٹی کے لئے ایک آستھا کا اشو کہتے ہیں ۔سپا امیدوار ابھدیش پرکاش کہتے ہیں کہ ہماری رگ - رگ میں رام ہیں وہ اپنے دادا نیول ، پتا دکھی رام اور چاچا پرشو رام اور بڑے بھائی رام ہوت کا نام لے کر کہتے ہیں کہ ہم تو پیڑیوں سے بھگوان رام کو مانتے آرہے ہیں ۔بھگوان کا ہمیں بھی آشیرواد ملتا ہے ۔فیض آباد ضلع کا نام بدل کر ایودھیا کر دیا گیا ہے لیکن لوک سبھا سیٹ فیض آباد ہی ہے ۔بھاجپا کے للو سنگھ جہاں جیت کی اپنی ہیٹ ٹرک لگانے کے لئے میدان میں اترے ہیں تو سپا 1998 سے اس سیٹ پر جیت نہیں پائی ہے ۔سپا نے جیت کے لئے ذات برادری تجزیوں کے تحت ایس سی فرقہ کے اودھیش پرساد کو اتارا ہے ۔وہ حال ہی میں لوک سبھا حلقہ کے ملکی پور سے ۹بار ممبر اسمبلی ہیں ۔اور پانچ بار ریاستی سرکار میں وزیر رہے ہیں ۔بسپا نے سچیدہ نند پان

جے پرکاش اگروال بنام پروین کھنڈیلوال!

پرانی دہلی چاندنی چوک پارلیمانی سیٹ نہ صرف ایک وقار کی سیٹ ہے بلکہ کئی معنوں میں تاریخی بھی ہے ۔اس مرتبہ اہم مقابلہ کانگریس کے لیڈر جے پرکاش اگروال اور بھاجپا کے امیدوار پروین کھنڈیلوال کے درمیان ہے ۔پروین کھنڈیلوال بڑے تاجر ہیں اور ٹریڈ فیڈریشن کے عہدیدار بھی ہیں ۔جے پرکاش اگروال سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں اور دہلی کی جانی مانی ہستیوں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔وہ ملنسار مجاز کے ہیں اور لوگوں کی ہر ممکن مدد کو تیار رہتے ہیں ۔لوگوں کے دکھ سکھ میں ہمیشہ شریک ہوتے ہیں ۔جے پرکاش اگروال چاندنی چوک سیٹ سے چوتھی بار پارلیمانی چناو¿ لڑرہے ہیں اس پارلیمانی حلقہ سے وہ پہلے تین بار ایم پی رہ چکے ہیں ۔چاندنی چوک حلقے میں پلے بڑھے جے پرکاش اگروال کا یہ آٹھواں لوک سبھا چناو¿ ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ حریف پارٹیوں کو شاید چاندنی چوک کی جغرافیائی اور لوک سبھا حلقہ کی پوری اور صحیح جانکاری نہیں ہے ۔جے پرکاش اگروال کا پریوار قریب 100 سال سے چاندنی چوک میں بسا ہوا ہے ۔چاندنی چوک میں واقع کناری بازار کے نوگھرا سیاسی حلقہ ایک اہم مرکز رہا ہے ۔یہاں مکان نمبر 1998 آزادی سے پہلے مجاہدین آزادی کا بسیرا رہا ہے ۔لالہ ر

کشمیر میں بی جے پی چناو ¿ کیوں نہیں لڑ رہی ہے؟

جموں وکشمیر سے چار سال پہلے آرٹیکل 370 ہٹانے والی برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی نے فیصلہ لیا ہے کہ وہ کشمیر وادی میں لوک سبھا چناو¿ میں اپنے امیدوار نہیں اتارے گی اور مسلم اکثریتی کشمیر وادی کی تینوں سیٹوں میں سے ایک سیٹ پر بھی اپنا امیدوار نہیں کھڑا کرے گی ۔سیاسی تجزیہ نگاروں اور اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ بھاجپا کا یہ فیصلہ یہاں کے لوگوں کے درمیان غصہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے پارٹی مان رہی ہے ۔کشمیر اور دہلی کے درمیان دہائیوں سے رشتہ کشیدہ رہے ہیں ۔حکومت ہند کے خلاف کٹر پسند اور اسے دبانے کے لئے ہوئی فوجی کاروائی نے پچھلی تین دہائیوں سے یہاں بہت سے لوگوں کی جان لے لی ہے ۔حالات تب اور خراب ہوئے جب سال 2019 میں وزیراعظم نریندر مودی کی سرکار نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر جموں اور کشمیر کو دو مرکزی حکمراں ریاستوں میں بدل دیا اورجموں و کشمیر اور لداخ یہ دو ریاستیں بنیں ۔ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 جموں وکشمیر کو اچھی خاصی مختاری دیتا تھا۔ساتھ ہی مرکزی حکومت نے انٹر نیٹ اور کمیونیکیشن سسٹم کو بھی محدودکرتے ہوئے تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت سینکڑوں لیڈروں کو مہینوں جیل میں ڈالے رک

متاثرہ پہلوانوں کا سنگھرش رنگ لایا!

ممبر پارلیمنٹ انڈین کشتی فیڈریشن کے سابق صدر برج بھوشن شرن سنگھ کو عدالت کے سمن اور جنسی اذیت رسانی کا ملزم ثابت کرنے کیلئے متاثرہ خاتون پہلوانوں کو لمبی جدوجہد کرنی پڑی اس درمیان عدالتی کاروائی کو لٹکا کر رکھنے کی کئی کوششیں بھی ہوئیں ۔الزام طے کئے جانے کیلئے عدالت میں دو بار بحث چلی ایسا بیچ میں مجسٹریٹ کے تبادلے کی وجہ سے ہوا ۔دوسری بار بحث پوری ہونے کے بعد عدالت نے 27 فروری کو الزامات طے کرنے کے مسئلے پر اپنا حکم محفوظ کر لیا تھا ۔لیکن حکم آنے سے پہلے برج بھوشن شرن سنگھ ایک اور عرضی لیکر عدالت پہونچ گئے جو 26 اپریل کو خارج کر دی گئی تھی اس میں انہوں نے اپنے خلاف چھ خاتون پہلوانوں کے ذریعے درج کرائے گئے جنسی اذیت رسانی کے معاملے کی آگے کی جانچ کی مانگ کی گئی تھی ۔وہ الزامات پر اور دلیلیں پیش کرنے لگے اور آگے کی جانچ کے لئے وقت مانگ رہے تھے ۔دلیل دی گئی تھی کہ وہ تاریخ پر بھارت میں نہیں تھے جس میں ایک شکایت کنندہ نے الزام لگایا تھا کہ اسے ڈبلیو ایف آئی آفس میں پریشان کیا گیا تھا ۔الزامات پر بحث کے دوران شکایت کنندگان اور پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کے خلاف مقدمہ چلانے کے لئے کا

وراثت بچانے اور گڑھ بھیدنے کی لڑائی!

رائے بریلی کے چناوی دنگل میں راہل گاندھی کی اینٹری ہوتے ہی یہاں کا چناوی ماحول گرم ہو گیا ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ راہل نے امیٹھی سے چناو¿ نہ لڑ کر رائے بریلی کو چنا اسے ایک طرح سے ترپ کا اکّا رہا ۔بھاجپا نے امیٹھی سے راہل کو گھیرنے کی پوری تیاری کر دی تھی آخری لمحہ میں یہ فیصلہ کہ راہل رائے بریلی سے لڑیں گے اور پنڈت کشوری لال امیٹھی سے لڑیں گے نے نہ صرف بھاجپا کو بیک فٹ پر لا دیا ہے بلکہ خود کانگریسیوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔اور چنندہ وی آئی پی سیٹوں میں شمار رائے بریلی گاندھی خاندان کا گڑھ رہا ہے اس بار راہل سے مقابلہ کرنے کیلئے بھاجپا نے یوگی سرکار کے وزیر دنیش پرتاپ سنگھ کو میدان میں اتارا ہے وہیں بسپا نے ٹھاکر پرساد یادو کو چناوی میدان میں اتارا ہے ۔اس چناو¿ میں رائے بریلی کی لڑائی کئی معنوں میں خاص ہے ۔یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ راہل اپنے خاندان کی وراثت بچانے کے ساتھ ہی والدہ سونیا گاندھی سے بڑی جیت کانگریس کو دلا پاتے ہیں یا نہیں ۔سپا کے ساتھ میں اس لڑائی کو اور دلچسپ بنا دیا ہے ۔دوسری طرف بھاجپا کے سامنے کانگریس کے اس مضبوط قلعے کو مسمار کرنے کی چنوتی ہے ۔وہیں بسپا کی کوشش کرے گی