بھارت سرکار کے دیویانی معاملے پر موقف سے بوکھلایا امریکہ!

امریکہ میں ہندوستانی سفارتکار دیویانی کھوبراگڑے کے معاملے میں بھارت سرکار نے جس طرح کی کڑک مزاجی دکھائی ہے اس کے مثبت نتائج دوسرے ملکوں سے بھی سامنے آنے لگے ہیں اور بھارت ہی نہیں دنیا کے کئی ملکوں میں بحث شروع ہوئی ہے کہ آخر کب تک دنیا امریکہ کی دادا گیری برداشت کرے گی۔ پڑوسی ملک پاکستان سے بھی بھارت کے موقف کو حمایت مل رہی ہے۔ ’دی نیشن‘ اخبار نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ اس پر کس کو شبہ ہوگا؟ یہ مانا جاتا ہے کہ اس کی حکومت میں دنیا کے سب سے ذہین اور وسیع دماغ والے شخص شامل ہوں گے لیکن ہندوستان کے قونصل خانے کی سینئر افسر دیویانی کی گرفتاری اور ان کے ساتھ کی گئی بدسلوکی امریکی انتظامیہ کی سیاسی سوجھ بوجھ کس میں شک پیدا کرسکتی ہے۔ آخر یہ نوبت آئی کیسے؟ یہ پورا ڈرامہ جو ہوا اس سے تلخی پیدا ہوئی ہے اسے سوجھ بوجھ سے ٹالا جاسکتا تھا۔ پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ دیویانی کی گرفتاری میں شامل رہے امریکی وکیل مارشل اور ان کی گرفتاری پر دستخط کرنے والے محکمہ خارجہ کے حکام نے مبینہ طور پر گھریلو جرائم کو بین الاقوامی رنگ دے دیا ہے۔ انہوں نے امریکہ کو لاہور میں امریکی سفارتخانوں میں کام کررہے ریمنڈ ڈیوس معاملے کی یاد دلائی۔ پچھلے دو سال پاکستان شہریوں کے قتل کرنے والے امریکی سفارتکار ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں بتایا کہ ہم نے ڈیوس کے معاملے میں پاکستان اور امریکہ کے رشتوں کو بنیاد بنایا تھا جبکہ یہ خون کا معاملہ تھا جو ایک سنگین جرم تھا۔ مجھے بھی کسی عام شخص کی طرح اس بات پر غصہ آیا تھا کہ ایک شخص نے بھرے بازار میں دو لوگوں کو مار ڈالا تھا جبکہ ان کی جان کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ بلا شبہ ڈیوس کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہئے تھی۔ اس کارروائی سے امریکہ پاکستان کے تعلقات متاثر ہوسکتے تھے۔ دیویانی کے معاملے میں سخت ہوئی یوپی اے سرکار نے اسی سلسلے کو بڑھاتے ہوئے بحرین کے ایک سفارتکار کے خلاف اپنی ممبئی ہاؤسنگ سوسائٹی کی ایک خاتون منیجر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کو لیکر ایک معاملہ درج کرایا۔ حالانکہ انہیں سفارتکار کا اسپیشل افسر کے ہوتے ہوئے گرفتار نہیں کیا گیا۔ یہ دیویانی معاملے کے بعد آئے سخت رخ کا نتیجہ ہے۔ ادھر دیویانی کے والد اتم کھوبراگڑے نے الزام لگایا کہ ان کی بیٹی سابق نوکرانی سنگیتا رچرڈ امریکی خفیہ کی ایجنٹ ہوسکتی ہے۔ دیویانی کو تو بلی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔ امریکہ کے دوہرے پیمانوں کی ایک مثال ہے سعودی عرب اور روس کے سفارتکاروں کی غلطیوں پر آنکھیں بند رکھنا۔سعودی فوجی اتاشی کے واشنگٹن میں واقع گھر سے ظلم و زیادتی سے تنگ فلپین کی دو عورتوں کو بچایا گیا تھا جبکہ روس کے سابق موجودہ49 سفارتکاروں اور ان کے رشتے داروں پرامریکی ہیلتھ اسکیم میں 15 لاکھ ڈالر کی دھوکہ دھڑی کے معاملے کا الزام لگا تھا اس میں11 تو اب بھی امریکہ میں تعینات ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میری ہرش اس سوال کا جواب نہیں دے پائیں کے دیویانی کے تئیں سختی برتنے والا امریکی انتظامیہ سعودی عرب اور روس کے سفارتکاروں کی غلطیوں پر کیوں آنکھیں بند کئے ہوئے ہے؟ ادھر نئی دہلی میں بھارت ۔ امریکی کانگریس کی مخالفت کے باوجود امریکی سفارتخانے کے آس پاس پھر سے حفاظت کے سخت انتظام کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ غور طلب ہے گذشتہ17 دسمبر کو امریکی سفارتخانے کے گیٹ اور سڑک سے سکیورٹی ہٹانے کے بعد پہلی بار امریکی کانگریس نے تلخ ناراضگی دکھائی تھی۔ بھارت نے صاف اشارہ دیا ہے کہ دیویانی کی گرفتاری کے معاملے میں وہ قابل قبول ہل نہ نکلنے تک اس کا امریکی سفارتخانے کے سامنے سکیورٹی تعینات رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ بھارت اس معاملے میں اپنے رخ پر قائم ہے۔ خبر اب یہ بھی ہے کہ امریکی سفارتخانے اور امریکی قونصل خانے اور اسکولوں و دیگر اداروں میں کام کرنے والے دیش کے لوگوں کو ملنے والی سہولیات و تنخواہ کی جانکاری مانگ کر امریکہ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے والا قدم ہے۔ امریکہ اپنے ملازمین کو ان کی واجب تنخواہ کا آدھا بھی نہیں دیتا۔ سفارتکاروں کے یہاں کام کرنے والے گھریلو نوکروں کا تو امریکی سفارتخانے کے پاس کوئی ریکارڈ بھی نہیں ہے۔ بھارت کے پاس ان ملازمین کو رکھنے نکالنے کے دوران وزارت محنت قانون کی خلاف ورزی کے کئی ثبوت ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ امریکہ جہاں اس بارے میں جانکاری دستیاب کرانے میں زیادہ وقت مانگ کر معاملے کو ٹالنے کی کوشش میں ہے۔ آج پورا دیش اس اشو پر مرکزی سرکار کے ساتھ ہے۔ آپ بھلے ہی اڑے رہو اس کا فائدہ اسی جگہ نہیں کئی اور جگہوں پر بھی ملے گا۔ جھکانے والا چاہئے دنیا جھکتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟