اشاعتیں

جون 23, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

روپیہ ،سونااور شیئر سب میں گراوٹ

اترا کھنڈ میں اگر ندیوں کے قہر کے سامنے پہاڑ چٹخ رہے ہیں تو اقتصادی دنیا میں مندی کی سونامی میں روپیہ ،شیئر اور سونے پر زور دار حملہ ہوا ہے ۔روپیہ سونا اور سیئر سبھی میں بھاری گراوٹ دیکھی گئی ہے امریکی معیشت کی بہتری کے ساتھ عالمی کرنسیوں کی بنسبت مضبوط ہوئے ڈالر نے روپے شیئر اور بازار اور صرافہ کی حالت پتلی کی دی ہے آخر کار بینکنگ کرنسی بازار میں روپیہ 60.72فی ڈالر ریکارڈ سطح پر اوندھے منہ گرا۔شیئر بازار میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی کمی سے سنسیکس 77.ٹوٹا سنا فی 10گرام 620روپے گرا اور چاندی 1000روپے اترکر 20مہینوں کے اندر 40500فی کیلو گرام تک آگئی ڈالر کے سامنے کمزور ہوئے روپے کا اثر ہوگا ڈالر کے مقابلے کمزوری کے مسلسل نئے دور میں چھو رہا روپیہ سرکاری خزانے پر چوٹ کرنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی بھی بڑھائے گا پیٹرول اور سونے چاندی کے معاملے میں دیش پوری طرح درآمد پر منحصر ہے لیکن پچھلے کچھ برسوں میں غذائی تیل اور دالوں کی در آمد جس طرح بڑھی ہے اس سے کمزور روپیہ عام آدمی کے نوالے پر بھاری پڑے گا۔ سونے کے علاوہ کھاد اور کوئلہ بھی منگایا جاتا ہے روپیہ کی کمزوری کا سیدھا اثر ان پر بھیپڑے گاج

جان کیری کا دورہ رسمی اور مایوس کن رہا

امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری بطور سنیٹر کئی مرتبہ بھارت آئے ہیں لیکن امریکہ کے وزیر خارجہ کے طور پر پہلی بار ہندستان آئے ہیں اور وہ بھی اہم ترین سیاسی مذاکرات کے مقصد سے ۔باہمی اور بین القوامی اہمیت کے کئی ایشو پر ہند اور امریکہ متفق نہیں ہیں دونوں ملکوں کے درمیان چوتھے دور کی حکمت عملی بات چیت کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ شاید کوئی مثبت بات چیت کی امید کم ہی تھی چونکہ کچھ دنوں سے دونوں ملکوں میں کئی معاملوں پر تلخی دکھائی دے رہی تھی ملکوں کے رشتوں یا آپسی بات چیت کو کافی اہمیت دینی ہوتو اسے حکمت عملی کہنے لا پچھلے کچھ برسوں سے چلن ہو گیا ہے لیکن اگر بات چیت کے اجنڈے پر بنیادی اختلافات پہلے سے ہی دکھائی دے رہے ہوں تو اس پر ہونے والی بات چیت کو فطری طور سے حکمت عملی یا ڈپلومیٹک نہیں کہا جاسکتا جان کیری کا دورہ بھارت سے پہلے ہندستان کو راس نہ آنے والی باتیں شروع ہو گئیں تھیں  ویسے بھی تو بھارت امریکہ کے درمیان کئی ایشو ہیں جن پر غور وخوض کر نا ضروری ہے ۔لیکن اہم ایشو اس وقت امریکہ کے افغانستان پالیسی ہے اس اشو پر جان کیری کے دہلی میں دئے گئے بیانوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان سے ہٹنے کا

سڑکوں پر بائیکرس کے ہڑدنگ مچانے کا سوال

انڈیا گیٹ پر ہڑدنگ مچانا اور گاڑیوںپر اسٹنٹ کرنے کی نئی بیماری پچھلے کچھ عرصے سے ایک نیا مسئلہ بن گیا ہے۔ کچھ لوگ نہ تو قانون کی پرواہ کرتے ہیںاور نہ ہی اپنی جان کی۔ نومبر2002ء میں ہڑدنگیوں نے انڈیا گیٹ کے پاس ٹریفک قواعد کی جم کر خلاف ورزی کرتے ہوئے اسٹنٹ بازی دکھائی۔ گاڑیوں کی ٹکر کی زد میں آنے سے اس دوران کئی پولیس والے بھی زخمی ہوئے تھے۔ پولیس نے کئی لوگوں کو گرفتار کر ان کی گاڑیوں کو ضبط کیا تھا۔ پیر کو شب ِ برات کی رات انڈیا گیٹ کے آس پاس ہڑدنگیوں نے جم کر ہڑدنگ مچایا اور پولیس پر پتھرائو سے افراتفری کا ماحول بن گیا ہے۔ پولیس کو کئی جگہ لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ کافی تعداد میں بائیکرس نے قریب4 گھنٹے تک راجدھانی کی سڑکوں پر اپنا قبضہ جمائے رکھا۔ اس میں انڈیا گیٹ سمیت آس پاس کے علاقوںمیں جام کی حالت بنی رہی۔ وہیں شاستری پارک علاقے میں بائیکرس نے ایک کار کو آگ کے حوالے کردیا۔ اسٹنٹ بازی کرنے کے چکر میں جامع مسجد علاقے سے آئے ایک شخص کی موت ہوگئی۔ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے خود پولیس کمشنر کو سڑک پر آنا پڑا۔ پولیس کے مطابق شب ِ برات کے چلتے لوگوں کی کافی بھیڑ انڈیا گیٹ کے آس پا

گربھ گرہ کی تصویریں کھینچنے سے پرانی روایات اور تقدس ٹوٹیں،ذمہ دار کون

یہ انتہائی دکھ اور مایوسی کا موضوع ہے کہ قدرتی آفت کے بعد کیدارناتھ مندر کے تقدس اور یہاں کی برسوںپرانی روایات اور رسموں کو تار تار کیا جارہا ہے۔ کئی نیتائوں کی شے پر ٹی وی میں ان دنوں پورے دیش اور دنیا میں گربھ گرہ کی تازہ تصویریں دکھائی جارہی ہیں۔ پچھلے سال اگست میں جب میںاور میرے ساتھی کیدارناتھ درشن کے لئے گئے تھے تو ہم نے گربھ گرہ کی تصویریں نہیں کھینچیں تھیں صرف باہر سے ہی تصویریں لی تھیں۔ سبھی مسافر و شردھالو ہزاروں برسوں سے اسی روایت پر عمل پیرا ہیں۔ آج تک کسی نے گربھ گرہ کی تصویر نہیں دیکھی تھی لیکن پچھلے کچھ دنوں سے ہر ٹی وی چینل میں یہ بریکنگ نیوز بنی ہوئی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے لئے ذمہ دار کون ہے؟ وہاں ان ٹی وی والوں کو روکنے والا کون ہے؟مندر کے پجاری ،وہاں کے مندر کمیٹی کے لوگ، سیوادار سبھی تو اپنی جان بچانے کے لئے بھگوان کو چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ اپنی اپنی رائے ہوسکتی ہے میری رائے میں مندر کے بڑے پجاری و دیگر پجاریوں کو مندر چھوڑ کر بھاگنا نہیں چاہئے تھے۔ ہماری روایتیں یہی کہتی ہیں۔ آخر وہ تو کیدار بابا کی سیوا، پوجا ارچنا کے لئے ہی موجود تھے۔ ان کی اور ان کے

دھونی کی نوجوان بریگیڈ نے تو جھنڈے گاڑھ دئے ہیں

ٹیم انڈیا کے کپتان مہندر سنگھ دھونی کا کامیابیوں سے ناطہ ہمیشہ ہی گہرا رہا ہے اور اب برنگھم میں منعقدہ آئی سی سی چمپئن ٹرافی جیتنے کے بعد ان کے کارناموں میں ایک اور ٹرافی جڑ گئی ہے۔ بھارت اس کامیابی کے ساتھ مسلسل ونڈے ،ورلڈ کپ اور چمپئن ٹرافی جیتنے والا آسٹریلیا کے بعد دوسرا ملک بن گیا ہے۔ بھارت نے 2011ء میں ورلڈ کپ پر قبضہ جمایا تھا۔ برنگھم میں ٹیم انڈیا نے جس طرح کے کھیل کا مظاہرہ کیا اور فائنل میں انگلینڈ کی ٹیم کو ہرا کر کپ پر قبضہ کیا، اس سے دیش کے کرکٹ شائقین کا حوصلہ بڑھنا فطری ہی ہے۔ دراصل آئی پی ایل کے چھٹے ایڈیشن میں اسپاٹ فکسنگ سے اٹھے تنازعے کے سبب کرکٹ کے امیج کو گہرہ دھکا لگا ہے۔ اس دورہ لوگوں میں کرکٹ سے جو دلچسپی تھی وہ کم ہونے لگی تھی لیکن انگلینڈ میں اس شاندار کامیابی نے وہ تصور ختم کرکے نیا حوصلہ پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ایسا نہیں کے بھارت پہلی بار ورلڈ چمپئن بنا۔ آج سے ٹھیک30 سال پہلے انگلینڈ میں ہی ورلڈ کپ چمپئن بنا تھا۔ کپتان کپل دیو کی رہنمائی میں اس وقت کی دھماکیدار ٹیم نے کرکٹ کے مکا کہے جانے والے لارڈس میدان پر مضبوط حریف ویسٹ انڈیز کو ہرا کر پہل

کہیں کانگریس کو ہی نہ بہا لے جائے اتراکھنڈ کا سیلاب

اتراکھنڈ میں قدرت کے قہر کے بعد شروع ہوئے راحت رسانی کے کام میں اب سیاست شامل ہوگئی ہے۔ ابتدائی بدانتظامی کے الزامات سے لڑ رہی مرکز میں اتراکھنڈ سرکار نے اب دوسری ریاستوں سے براہ راست راحت اور بچاؤ کے کام میں لگنے پر روک لگادی ہے۔ حکومت نے یہ صاف کردیا ہے کوئی بھی راحت یا بچاؤ کا کام اب اتراکھنڈ سرکار کی نگرانی میں ہی ہوگا۔ مرکز اور اتراکھنڈ سرکار کے تازہ فیصلے کو سیدھے طور پر نریندر مودی نے اتراکھنڈ میں پھنسے گجراتیوں کو واپس لانے کے لئے ریاست کی جانب سے ہیلی کاپٹرا ور جہازوں کے انتظام کا سہرہ لینے کی کوشش کی شکل میں کانگریس دیکھ رہی ہے۔ ظاہر ہے راحت رسانی کے کام میں بدانتظامی کے الزامات جھیل رہی کانگریس کی مرکزی و ریاستی سرکار کو یہ قطعی پسند نہیں آیا۔ یہ ہی نہیں نریندر مودی کے اتراکھنڈ دورے سے کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کی غیر حاضری پر بھی کانگریس میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔ راہل گاندھی اتراکھنڈ میں ہوئی تباہی کے9 دن بعد دکھائی پڑے۔ جب گوچر دورے پر گئے تو شام ہونے پر انہیں وہاں رکنا ہی پڑا۔ بیرونی ملک سے لوٹتے ہی راہل گاندھی نے نہ صرف اتراکھنڈ جانے کا پروگرام بنایا بلکہ کانگریس ص

خراب موسم اور وبا کی دوہری چنوتی!

اتراکھنڈ میں قدرت کا قہر ابھی رکا نہیں۔ حادثے کو8 دن سے زیادہ گذر چکے ہیں لیکن ابھی بھی وہاں لوگ مصیبت میں پھنسے ہیں۔ ان کی تعداد15 ہزار سے زائد ہے۔ شردھالوؤں اپنی جان کی حفاظت کے لئے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ موسم پھر خراب ہوگیا ہے اور کئی حصوں میں پھر بارش شروع ہوگئی ہے۔ فوج اور سکیورٹی فورس کے جوانوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر ہزاروں بھگتوں کو بچایا ہے۔ بیشک خراب موسم کی وجہ سے ہوائی راحت رسانی و بچاؤ کا کام رک گیا ہے کیونکہ ہیلی کاپٹر ایسے موسم میں اڑان نہیں بھر سکتے لیکن زمینی بچاؤ مہم جاری ہے۔ کیدار وادی میں بچاؤ کے کام میں لگے 258 میں سے 150 پولیس والے لا پتہ ہیں جن میں سے 15 خاتون کانسٹیبل بھی ہیں۔ راحتی ٹیموں میں شامل کئی پولیس والے بیمار بھی ہوگئے ہیں۔ اتراکھنڈ میں اب تک سب سے بڑی راحت رسانی مہم آپریشن سرچ چل رہا ہے۔ ایئر فورس نے کہا ہے کہ پھنسے لوگوں کو نکالنے میں کم سے کم ایک ہفتہ اور لگ جائے گا، وہ بھی جب موسم ساتھ دے۔ یہ ہمارے دیش کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ اتنی بڑی قدرتی آفت سے نمٹنے کے لئے سرکاری ایجنسیوں میں اصلی تال میل کی کمی ہے۔ دیش تو متحد ہوگیا ہے اورمدد کے لئ

افغانستان چھوڑنے پر امریکیوں کی بیتابی

امریکی صدر براک اوبامہ نے اعلان کیا ہوا ہے کہ 2014ء میں امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں ہٹا لے گا۔ جیسے جیسے یہ تاریخ قریب آرہی ہے ، امریکہ بے چین ہورہا ہے۔ اب وہ اس حد تک جانے کو تیار ہے کہ اپنے کٹر دشمن جس کے خلاف وہ برسوں سے لڑ رہا ہے ، سے بھی بات چیت کو تیار ہے۔ 9/11 کے آتنکی حملے کے بعد امریکہ نے افغانستان میں طالبان کو ختم کرنے کا عہد کیا تھا۔ طالبان تو ختم نہ ہوپائے مگر اس کا سرغنہ اسامہ بن لادن ضرور مارا گیا۔2011ء کی گرمیوں میں ناٹو فوجوں کی واپسی شروع ہوئی تھی اور اب تک 10 ہزار امریکی فوجی وطن لوٹ چکے ہیں۔ 2013ء میں باقاعدہ طور سے ناٹو افواج نے افغانستان کی سکیورٹی کی ذمہ داری افغانی فوجیوں کو سونپ دہی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے طالبان القاعدہ سے اپنے رشتے توڑ لیں لیکن طالبان کی ضد ہے کہ پہلے غیر ملکی افواج افغانستان خالی کریں۔ وہ امریکی قید میں پڑے اپنے کمانڈروں کی رہائی چاہتا ہے۔ اسی کو لیکر بات چیت ہوگی۔ افغانستان میں امن اور استحکام کے لئے امریکہ اپنے کٹر مخالف طالبان سے بات چیت کرنے کو ایک بار پھر رضامند ہوگیا ہے۔ امریکی صدر براک اوبامہ نے امریکہ کی طالبان کے ساتھ طے بات چیت

الیکٹرونک مشینوں میں بہتری کی تجویز:ووٹر کوپتہ لگ سکے گا اس کا ووٹ کہاں پڑا

دیش کے ووٹروں کو اب جلد ہی یہ پتہ لگ سکے گا کے اس نے چناؤ میں الیکٹرونک مشین کے ذریعے جو ووٹ ڈالا ہے وہ اسی امید وار کے حق میں گیا ہے یا نہیں جس کے لئے اس نے ووٹ کیا تھا۔ اس کارروائی میں ووٹر کی تصدیق کے لئے ایک پرنٹڈ پرچی دی جائے گی اور چناؤ کمیشن کی جانب سے ووٹ ویریفائی پیپر آڈٹ سسٹم لاگو کیا جانے پر جلد ہی یہ اسکیم حقیقت کی شکل لے لے گی۔ چناؤ کمیشن نے حال ہی میں سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ اس نے وی وی پی اے ٹی ڈیزائن کو منظوری دے دی ہے اور اسے پوری طرح ٹھیک کرنے کے لئے اس میں کچھ نوک پلک درست کرنے کی ضرورت ہے۔ کمیشن نے اس نئے سسٹم پر غور وخوض کے لئے سیاسی پارٹیوں کے نما ئندوں کو بھی بلایا ہے۔ چناؤ کمیشن کے اعلی ترین ذرائع کے مطابق پی وی این مشینوں سے جوڑنے کے لئے جون میں قریب250 پرنٹر حاصل کئے جائیں گے۔ تجربے کے بعد ضمنی چناؤ میں انہیں تجرباتی طور پراستعمال کیا جائے گا اور نیا سسٹم ممکن ہے دیش میں اگلے عام چناؤ تک لاگو ہوپائے۔ کیونکہ ہائی ٹیک ای وی این مشین سے جوڑنے کے لئے اس طرح کے 13 لاکھ نئے کل پرزوں کی ضرورت ہوگی۔ اس پر قریب 17 کروڑ روپے خرچ آنے کا امکان ہے۔ نئے سسٹم کے تحت ا

آؤ سب مل کر راحت میں ہاتھ بٹائیں

اتراکھنڈ کے جو حالات اب سامنے آرہے ہیں اس سے صاف ہے کہ دیش قومی آفت کی زد میں آچکا ہے۔جان مال کے بڑھتے نقصان کے اعدادو شمارسنسنی پیدا کرنے والے ہیں مشکل یہ ہے کہ پانچ چھ دن ہونے کے بعد بھی یہ جاننا مشکل ہے کہ تباہی کی حد کیا ہے؟ اتراکھنڈ کی کسی بھی سرکاری ایجنسی کو یہ معلوم نہیں کہ 11759 فٹ کی اونچائی پر کیدارناتھ کے درشن کے لئے کتنے لوگ آئے اور کتنے لاپتہ ہوگئے ہیں اور کتنوں کی موت ہوچکی ہے۔ لگتا یہ ہے کہ دراصل یہاں مسافروں کی صحیح تفصیل رکھنے کا کوئی سسٹم نہیں ہے۔ تباہی والی رات کیدارناتھ اور بدری ناتھ میں قریب30 ہزارلوگ تھے۔ ابھی تک 10 ہزار کے قریب لوگ باہر نکالے گئے ہیں۔ اکیلے کیدارناتھ اور بدری ناتھ میں 20 ہزارسے زیادہ لوگوں کو ابھی تک پتہ نہیں چل سکا۔ اگر ہم پورے اتراکھنڈ کی بات کریں تو اندازہ ہے کہ50422 لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ ردر پریاگ میں 22429 ، چمولی میں 18162 اور اترکاشی میں 98316 لوگ ہیں۔ راحت رسانی میں فوج اور آئی ٹی بی پی کے 6 ہزار جوان لگے ہوئے ہیں۔ ٹی وی اور اخباروں میں ہم نے دیکھا کے کس طرح فوج کے جوانوں نے جان کی بازی لگا کر لوگوں کو بچایا۔ انڈین ایئرفورس نے ہر ہند