علماؤں کا انتہا پسندی و دہشت گردی کے خلاف فتویٰ لائق خیر مقدم!

ہم جمعیت العلمائے ہند کے ذریعے بلائی گئی سہ روزہ عالمی امن کانفرنس کی تعریف کرتے ہیں۔ رام لیلا میدان میں منعقدہ اختتامی ریلی میں سب سے زیادہ نمائندے پاکستان سے آئے تھے۔ دوسرے نمبر پر بنگلہ دیش، انگلینڈ، نیپال، سری لنکا، مال دیپ، میانمار کے نمائندے موجود تھے۔ شروعات کے دو دن تک یہ کانفرنس دارالعلوم دیوبند میں ہوئی اور ایتوار کو اس کا اختتام دہلی کے رام لیلا میدان میں ہوا۔ اختتام کے دن کئی اتفاق رائے سے ریزولوشن پاس ہوئے مگر سب سے خاص تھا دہشت گردی کی جم کر مذمت کرنا اور ا س کے خلاف ایک آواز میں فتویٰ جاری کرنا۔ یہ پہلا موقعہ ہے جب بھارت اور اس کے پڑوسی ملکوں کے اسلامی علماء دہشت گردی کے خلاف ایک اسٹیج پر جمع ہوکر ایک رائے پر متفق ہوئے۔ کانفرنس کی صدارت دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اور جمعیت العلماء ہند کے صدر مولانا محمد سید عثمان منصوری نے کی تھی اور اس کو چلانے کا کام جمعیت العلماء ہند کے سابق ایم پی اورجنرل سکریٹری محمود اسد مدنی نے کی۔ فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نہ صرف تباہی ہورہی ہے بلکہ یہ پوری طرح سے اسلام کے خلاف ہے۔ پاکستان جمعیت العلمائے اسلام کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہمیں جنگ سے پرہیز کرنا چاہئے اور دونوں ملکوں کے سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ بات چیت کے ذریعے کشمیر مسئلے کا حل کریں تاکہ امن قائم ہوسکے۔سری لنکا کے مفتی ریاض صاحب نے کہا دہشت گردی کی وجہ سے ترقی میں رکاوٹ آرہی ہے۔ کئی مقررین نے کہا اس وقت دنیا ایک طرح سے گلوبن ولیج بن چکی ہے جس میں چھوٹی چھوٹی باتوں سے دشمنی بڑھتی ہے اور اگر اس میں بات چیت کی گنجائش ہو تو دشمنوں کو مات دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح نیپال سے آئے مولانا خالد صدیقی اور مالدیپ سے شیخ فہمی اور میانمار سے مولانا نور محمد نے بھی دہشت گردی کے اسباب کا پتہ لگانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
کانفرنس میں مظفر نگر فسادات پر پاکستان سمیت تقریباً سبھی ملکوں سے آئے علمائے کرام نے نہ صرف افسوس ظاہر کیا بلکہ فسادات کے لئے اترپردیش سرکار کی جم کر کھنچائی کی۔ ایک برس پہلے دارالعلوم دیوبند نے دہشت گردی کے خلاف ریزولوشن پاس کیا تھا جس میں قریب دنیا بھر سے 800 علمائے کرام نے شرکت کی تھی لیکن ان تجاویز کو سختی سے نافذ کرنے کے لئے اس کانفرنس کو بلایا گیا تھا۔ ہم دارالعلوم دیوبند کو اس کامیاب امن کانفرنس اور اس میں لائے گئے ریزولوشن کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟