دفعہ377 پر سپریم کورٹ میں دائر عرضی کا راستہ آسان نہیں!

مرکزی سرکار نے ہم جنسوں کے رشتوں کو جرم ماننے والے عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی عرضی داخل کردی ہے۔ حکومت نے فیصلے سے ہم جنسوں اور ہیجڑوں کو ہو رہی پریشانی کی دہائی دیتے ہوئے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی ہے۔ عدالت پہنچی سرکار کا کہنا ہے دفعہ 377 یکساں اور آزادانہ بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ نے 11 دسمبر کو ہم جنسی کو جرم کے زمرے سے باہر کرنے والے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کردیا تھا اور آئی پی سی کی دفعہ377 کو آئینی ٹھہرایا تھا۔ سینئر عدالت کے فیصلے سے ہم جنسی کے رشتے ایک بار پھر جرائم کے زمرے میں آگیا ہے۔ اس معاملے میں جسٹس جے۔ ایس سنگھوی اور جسٹس سدھانشو جوتی نے فیصلہ سنایا تھا۔ جسٹس سنگھوی ریٹائر ہوچکے ہیں ایسے میں نظرثانی عرضی پر سماعت کے لئے جسٹس مکھوپادھیائے کے ساتھ ایک نئے جج معاملے کی سماعت کریں گے۔ حکومت نے اپنی نظرثانی عرضی میں بڑی عدالت کے فیصلے کو صحیح نہیں مانتے ہوئے اس سے ہم جنسوں اور ہیجڑے متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ نا انصافی کو روکنے کے لئے ہی سرکار نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ مرکزی سرکار کو ان کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے ان کی عرضی پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ کچھ انچاہے سوالوں کا جواب دینا پڑ سکتا ہے۔ ہندو، مسلم ،عیسائی اور سکھوں کے مذہبی اداروں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ حکومت نے ہائی کورٹ میں کہا تھا کہ دفعہ377 کے بیجا استعمال ہونے کا ثبوت نہیں ہے۔ جب سے یہ وجود میں آئی ہے تب سے صرف15 برس میں صرف200 معاملوں میں لوگوں کو سزا دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہم جنسی سیکس کرنے والے لوگوں کی تعداد پورے ملک میں25 لاکھ کے قریب ہے۔ ان لوگوں میں ایڈس کا فروغ بھی زیادہ نہیں ہے۔ سماعت کے دوران وزارت داخلہ نے ہائی کورٹ میں دئے گئے اپنے حلف نامے میں کہا تھا کہ آئینی کمیشن نے اپنی 42 ویں رپورٹ میں دفعہ377 کو برقرار رکھنے کی سفارش کی تھی۔ کیونکہ سماج میں اس کے خلاف ناراضگی ہے۔ سماعت کے دوران سرکار نے کہا تھا دفعہ کسی بھی حساب سے غیر آئینی نہیں ہے۔ ایک غیر قانونی کام صرف اس وجہ سے قانونی نہیں ہوجاتا کے اسے کرنے والے آپسی رضامندی سے کررہے ہیں۔ دفعہ377 متاثرہ کی شکایت پر عائد ہوتی ہے اس لئے اس کے لئے منمانے طریقے سے استعمال ہونے کی کوئی مثال نہیں ہے۔ آئین کے سیکشن 14,21 (برابری اور زندگی )کے حق کے برعکس نہیں ہے۔ عوام کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے آئین سازیہ نے اس دفعہ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ عدالت کا کام نہیں ہے وہ سماعت پر غیر معمولی اخلاقی تقاضوں و قدرتی نظام کے خلاف ایک ناقابل برداشت دفعہ جرم کو فروغ دینے والی ہے جو برطانوی دور کے قوانین سے میل کھاتی ہے جسے بھارت میں 1860 میں لایا گیا تھا۔ اب آگے کیا ہوگا؟ جسٹس مکھوپادھیائے کے ساتھ اب دوسرے جج اس عرضی پر اسی ماہ سماعت کرنے والے ہیں۔ نظرثانی عرضیوں کی کامیابی کا ریکارڈ مشکل سے ایک فیصدی ہے کیونکہ جن نکتوں پر بحث پہلے ہو چکی ہوتی ہے ان پر بحث کے بعد فیصلہ پلٹنا مشکل ہوتاہے۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر ارون جیٹلی کا کہنا ہے کہ معاملے پر بحث ختم نہیں ہوئی ہے۔ عدالت نے دفعہ377 کے جواز کو صحیح ٹھہرایا ہے۔ اس دفعہ کے تحت کیا آتا ہے اور کیا نہیں اسے لیکر ابھی پوزیشن واضح نہیں ہے۔ آخر کار سرکار آگے بڑھے اور راستہ نکالے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟