لو ان ریلیشن کے بڑھتے ٹرینڈ سے کئی پریشانیاں درپیش!

دہلی میں لو ان ریلیشن کے معاملے بڑھنے لگے ہیں۔ لو ان ریلیشن یعنی سانجھہ زندگی جینا اور شادی کی رسم کے بغیر لڑکا لڑکی ایک ساتھ رہتے ہیں اور میاں بیوی کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس سے سماجی مسئلہ تو کھڑا ہورہا ہے لیکن ساتھ ساتھ قانونی دشواری بھی بڑھ رہی ہے۔ راجدھانی میں لو ان ریلیشن میں رہنے والوں کے خلاف بدفعلی کے معاملے تین گنا بڑھے ہیں۔ اعدادو شمار کی مانیں تو ہر مہینے ایسے 23 معاملے مختلف تھانوں میں درج ہوتے ہیں۔ اس سال اکتوبر تک ایسے کل 228 معاملے درج ہوئے جو بدفعلی کی اور دوسری حرکات کا 16 فیصدی ہیں۔ یہ انکشاف دہلی پولیس کی ایک اندرونی رپورٹ سے ہوا ہے۔ یہ رپورٹ دہلی پولیس نے بدفعلی کے معاملے میں ملزمان کے الگ الگ زمروں کی پہچان کرنے کے لئے مختلف تھانوں میں درج معاملوں کی بنیاد پر تیار کرائی ہے۔ اس کے مطابق گزرے سال جہاں لو ان ریلیشن میں رہنے والوں کے خلاف بدفعلی کرنے کے 80 معاملے درج کئے گئے تھے وہیں اس سال اکتوبر تک یہ نمبر 228 تک پہنچ گیا ہے۔ حال ہی میں ایڈیشنل سیشن جج یوگیندر کھنہ کی عدالت میں ایک ایسا معاملہ آیا۔ لو ان ریلیشن میں رہنے والی اپنی پارٹنر کو شادی کا جھانسہ دیکر اس سے کئی بار آبروریزی کرنے کے الزام میں ایک ایم بی اے کے طالبعلم کو عدالت نے سات سال قید کی سزا سنائی۔ جسٹس موصوف نے ایل ایل بی کی ایک طالبہ سے آبروریزی کے قصوروار پائے گئے 31 سالہ ہری موہن شرما کو جیل بھیجا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے حقائق اور حالات کو دیکھتے ہوئے و جرم کے ٹرینڈ پر غور کرتے ہوئے ہری موہن شرما کو دہلی پولیس کی دفعہ 376 (آبروریزی ) کے تحت 7سال قید مشقت جیل کی سزا دیتا ہوں۔ اترپردیش کے باشندے شرما کو اپنی پارٹنر کی شکایت پر گرفتار کر مقدمہ چلایا گیا تھا جس میں متاثرہ نے الزام لگایا تھا کہ دسمبر2010 سے جنوری2011 کے درمیان شادی کا جھانسہ دیکر انہوں نے کئی بار اس سے آبروریزی کی۔ پولیس کا کہنا ہے لڑکی نے اگست2011ء میں تب شکایت درج کرائی جب وہ حاملہ ہوگئی تھی۔ شرما نے اس سے شادی کرنے سے منع کردیا ۔اس کے والدین اس کے پریم رشتوں کے خلاف تھے۔ 
سماعت کے دوران ملزم شرما نے آبروریزی کے الزامات سے انکارکرتے ہوئے کہا کہ انہیں غلط طریقے سے پھنسایا گیا ہے ۔ لڑکی اپنی مرضی سے ساتھ رہ رہی تھی اس لئے آبروریزی کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ لیکن عدالت نے ملزم شرما کی دلیلوں کو و عرضی کو مسترد کرتے ہوئے کہا لو ان ریلیشن محض ساتھ ساتھ رہنا نہیں ہوتا بلکہ اس سے دو پریمیوں کے درمیان مستقبل کا عزم بھی جڑا ہوتا ہے۔ یہ لو ان ریلیشن موجودہ پیڑھی کی ایک جدید سوچ ہے جبکہ بھارت دقیانوسی دور میں جی رہا ہے۔ پرانی پیڑھی اپنی زندگی کو اہم مانتی ہے جبکہ یہ صاف ہے کہ نوجوان کے نظریئے میں فرق آگیا ہے۔ اصولوں سے کھلواڑ ہوا ہے۔ زیادہ کھلا پن اور روایات کو نہ ماننا اپنے حساب سے زندگی گزارنا آج کے نوجوانوں کی سوچ ہے۔ سماج کے لئے اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے اور وقت کے ساتھ اس میں اصلاح ضروری ہوگی۔ پھر بھی غنیمت یہ ہے کہ مسئلہ صرف بڑے شہروں تک محدودہے یوپی ،ہریانہ وغیرہ کے دیہی علاقوں میں تو آج بھی اس طرح کے رشتوں کو کوئی تسلیم نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسے برداشت کرسکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟