پیٹرول کے دام پر سرکاری دلیلوں کا پردہ فاش



Published On 19th November 2011
انل نریندر
محض 15 دن میں پیٹرول کی بڑھی قیمتیں واپس ہونا اگر معجزہ نہیں تو حیرت انگیز ضرور ہے۔ پچھلے33 مہینوں میں یہ صرف دوسرا موقعہ ہے جب پیٹرول کی خوردہ قیمتوں میں کٹوتی کی گئی ہے اور پیٹرو مصنوعات پر آخر کنٹرول کس کا ہے؟ کانگریس پارٹی اس کا پورا فائدہ لینے کے چکر میں ہے۔ کیا اترپردیش میں چناوی مہم کا آغاز کرکے کانگریس جنرل سکریٹری راہل گاندھی کو مرکزی سرکار ہر طرح سے حمایت دے رہی ہے؟ یہ ہی وجہ ہے کہ راہل کی مہم شروع کرنے کے ایک دن بعد ہی حکومت کو تیل کمپنیوں نے راحت دیتے ہوئے پیٹرول کی خوردہ قیمت میں 2.25 روپے تک کی کٹوتی کردی ہے۔ پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس شروع ہونے جارہا ہے شاید سرکار نے سوچا ہوگا کہ دباؤ کم کیا جائے پھر پبلک کی ناراضگی بھی سرکار کے لئے بھاری پڑ رہی تھی۔ جنتا کے ساتھ سرکار کی اتحادی پارٹیاں خاص کر ترنمول کانگریس کا دباؤ بھی ایک وجہ ضرور رہی۔سوال یہ ہے کہ آخر پیٹرول کے داموں پر کنٹرول کس کا ہے؟ یوپی اے سرکار سے جب قیمت بڑھانے کی وضاحت مانگی گئی تو اس کے نمائندے کی شکل میں وزیر مالیات پرنب مکھرجی نے کہا تھا کہ پچھلے سال جون میں ہوئے ڈی ریگولیشن کے بعد پیٹرول کی قیمتیں طے کرنے کا حق پوری طرح سے تیل مارکٹنگ کمپنیوں کے پاس چلا گیا ہے۔ خود وزیر اعظم نے بیرون ملک سے اس بارے میں رائے زنی کی تھی۔ پیٹرول تو پیٹرول ہے آہستہ آہستہ ساری چیزوں کی قیمتیں طے کرنے کا کام بھی پوری طرح سے بازار پر چھوڑنا ان کی حکومت کی ترجیح ہے۔ یہ ہی نہیں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے یہاں تک کہا تھا کہ بڑھے ہوئے پیٹرول کے دام کم نہیں ہوں گے؟ ایسے میں یہ معجزہ آخر کیسے ہوگیا۔ تیل مارکٹنگ کمپنیاں پیٹرول کے دام حالیہ اضافے کی سطح سے تھوڑا نیچے لانے کو تیار ہوگئیں؟ ان کمپنیوں کے علاوہ اعلی افسروں کا کہنا ہے کہ ایسا انہوں نے بین الاقوامی بازار میں خام تیل کی قیمتوں اور ڈالر کے مقابلے روپے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے کیا ہے۔ ان دونوں رجحانات کو غور سے دیکھیں تو لگے گا کہ اس فیصلے کے حق میں اس سے زیادہ لچر دلیل اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ ڈالر کے مقابلے روپیہ فی الحال پچھلے33 مہینوں میں سب سے نچلی سطح پر چل رہا ہے لہٰذا او ایم سی منیجروں کے لئے اس مورچے پر کچھ کرنے کی کوئی جگہ نہیں بنتی۔ کچے تیل کی قیمتیں روزانہ گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں۔لیکن اس بازار کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پچھلے 15 روز میں ہندوستان کے لئے اس کی اوسط قیمت108 سے بڑھ کر110 فی بیرل ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے پیٹرول کی قیمتیں بازار کے کسی رجحان کے تحت نہیں بلکہ سیاسی دباؤ کے چلتے نیچے آئی ہیں اور سرکار نے ایسا کرکے اپنے آپ کو بے نقاب کردیا ہے۔ بین الاقوامی بازار میں کچے تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کی دلیل بے جواز لگتی ہے۔جون2010 میں پیٹرول قیمت ڈی کنٹرول کئے جانے کے بعد سے قیمتوں میں تقریباً 23 روپے کا اضافہ ہوا ہے اس لئے یہ کمی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہی لگتی ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو پچھلے ڈیڑھ سال میں پیٹرول کی قیمتوں میں 13 بار اضافہ کیا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ چوطرفہ دباؤ کو دیکھتے ہوئے یوپی اے سرکار بوکھلا گئی ہے۔ اس دباؤ کو دیکھ کر کانگریس اعلی کمان اور سرکار نے دیر سے ہی آتم منتھن تو کیا لیکن مہنگائی کے مسئلے پر پہلے ہی پارٹی کی کرکری ہوچکی ہے۔ ایسے میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اسے اسمبلی چناؤ میں کہیں نقصان نہ پہنچادے، ان حالات کو دیکھتے ہوئے مرکزی سرکار حرکت میں آگئی ہے اور اس نے پیٹرول کمپنیوں پر قیمت کم کرنے کا دباؤ بنایا۔ ویسے یہ سب ناٹک تھا کیونکہ انڈین آئل کے چیئرمین پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ اگر سرکار کہے گی تو ہم قیمتیں کم کرنے کو تیار ہیں۔ کل ملا کر سرکار کی دلیل کی ایک جھٹکے میں ہوا نکل گئی ہے کہ سرکار کا پیٹرو مصنوعات کی قیمتوں پر کوئی کنٹرول نہیں۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ سرکار نے پیٹرول کی قیمتوں میں یہ کمی صرف ووٹروں کو خوش کرنے کے خاطر کی ہے اور چناؤ ختم ہوتے ہی تیل کمپنیوں کو خوش کرنے کے لئے قیمتوں میں دوگنا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Petrol Price, Prime Minister, Trinamool congress, UPA, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟