ایک غلطی کی اتنی بڑی قیمت؟



Published On 19th November 2011
انل نریندر
ٹائمس ناؤ ٹی وی چینل کو کبھی یہ اندازہ نہ رہا ہوگا ایک چھوٹی سی غلطی کا اتنا بڑا خمیازہ اسے بھگتنا پڑے گا۔ ہوا یوں کہ ٹی وی چینل ٹائمس ناؤ نے ایک خبر کے ساتھ غلطی سے کسی دوسرے جسٹس کے نام کے ساتھ پریس کونسل کے سابق چیئرمین پی بی ساونت کی فوٹو دکھا دی۔ لہٰذاپی بی ساونت نے چینل کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردیا۔ ممبئی ہائی کورٹ نے چینل کو ہدایت دی کہ وہ100 کروڑ کا ہرجانہ ادا کرے۔ 20 کروڑ روپے نقد جمع کرانے اور 80 کروڑ روپے کی بینک گارنٹی دینے کو کہا گیا ہے۔ پیر کے روز سپریم کورٹ نے ممبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے میں مداخلت سے انکار کردیا۔ممبئی ہائی کورٹ کے حالیہ حکم میں ٹائمس ناؤ چینل سے کہا گیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس پی بی ساونت کو100 کروڑ روپے کا ہرجانہ دئے جانے کے نچلی عدالت پر سماعت سے پہلے 20 کروڑ روپے نقد اور 80 کروڑ روپے بینک گارنٹی جمع کرے۔ پریس کونسل کے چیئرمین مارکنڈے کاٹجو نے ٹائمس ناؤ چینل کے معاملے میں ہائی کورٹ اور ممبئی ہائی کورٹ کے احکامات کوسخت قراردیا اور ان پر پھر سے نظرثانی کی اپیل کی ہے۔ قومی پریس دوس پر ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ٹائمس ناؤ چینل کے معاملے میں ممبئی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے احکامات کے سلسلے میں میرا ایک بیان ہے ان احکامات کے تئیں پورے احترام کے ساتھ میرا خیال ہے کہ وہ غلط ہے اور اس پر دوبارہ غور کئے جانے کی ضرورت ہے۔ چینل کی غلطی کو بھول اور انسانی غلطی بتاتے ہوئے انہوں نے کہا اس میں کوئی غلط نیت ظاہر نہیں ہوتی اور غلطی تکنیکی گڑ بڑی کی وجہ سے ہوئی۔ انہوں نے کہا ’’ہم سبھی انسان ہیں‘‘ اور ہم سب غلطی کرتے ہیں۔ میرے خیال میں مناسب حکم یہ ہوتا کہ ٹی وی چینل کو مستقبل میں ہوشیار رہنے کی سخت وارننگ دے دی جاتی۔ کاٹجو نے کہا ان کا بااحترام نظریہ یہ ہے کہ 100 کروڑ روپے کا جرمانہ لگایا جانا غلطی کے حساب سے بہت زیادہ ہے۔ قانونی کتاب میں تناسب کے اصول اچھی طرح سے واضح ہیں۔ کوی رحیم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا ایک بار بھگوان وشنو سو رہے تھے تو رشی بھرگو وہاں آئے اور انہوں نے وشنو کے سینے پر زور سے لات ماردی۔ وہ (بھگوان) جاگے اور اس کا جواب دینے کے بجائے انہوں نے بھرگو سے پیار سے پوچھا کہ کہیں ان کے پیر میں چوٹ تو نہیں لگ گئی۔ کاٹجو نے کہا ’’بھگوان وشنو سرو شکتی مان تھے پھر بھی انہوں نے جوابی کارروائی نہیں کی۔ میں بھارت میں سبھی ججوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مہان کوی کے دوہے کو یاد رکھیں‘‘۔
ہم جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے نظریات سے متفق ہیں اور ان کی رائے کی حمایت بھی کرتے ہیں۔ ٹائمس ناؤ سے غلطی ہوئی ہے جان بوجھ کر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ایک غلطی کی اتنی بڑی سزا نہیں ہونی چاہئے تاکہ ادارہ ہی بند ہونے کے دہانے پر پہنچ جائے۔ٹائمس ناؤ تو شاید اس جھٹکے کو جھیل جائے لیکن درجنوں چینل ایسے ہوں گے جو اتنا بھاری بھرکم جرمانہ نہیں سہہ پائیں گے۔ کل کواخباروں کا بھی نمبر آسکتا ہے۔ کیا ایک طریقے سے یہ پریس کا گلا گھونٹا تو نہیں ہے؟
Anil Narendra, Bombay High Court, Daily Pratap, Justice Katju, Supreme Court, Times Now, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟