یوپی کی سیاسی شطرنج میں مایاوتی کا زبردست داؤ



Published On 18th November 2011
انل نریندر
اترپردیش کی سیاسی شطرنج میں پہلی چال راہل گاندھی نے چلی۔ اب بہن جی نے اس کا کرارا جواب دیا ہے ۔بسپا سپریموں نے اترپردیش کو چار حصوں میں بانٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہفتے بھر کے اندر اسمبلی کے سرمائی اجلاس میں ایک پرستاؤ پاس کرکے مرکز کو بھیج دیا جائے گا۔ اترپردیش کی پہلے ہی تقسیم ہوچکی ہے جس سے اترانچل بنا۔ شاید اسی کو ذہن میں رکھ کر بہن مایاوتی نے یہ سیاسی داؤ چلا ہے۔ اب مغربی اترپردیش پوروانچل،بندیل کھنڈ اور اودھ علاقے کو موجودہ اترپردی سے الگ کردیا جائے گا۔ کیبنٹ کی میٹنگ کے بعد مایاوتی نے اس اہم فیصلے کی جانکاری دیتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر امبیڈکر چھوٹی ریاستو ں کی تشکیل کے حمایتی تھے۔ بسپا سرکار نے 2007 ء میں ہی مرکز سے اترپردیش کو چار ریاستوں میں بانٹنے کی سفارش کی تھی۔ اسمبلی چناؤ کی آہٹ کے درمیان یوپی کے بٹوارے کا سوال اچھال کر بہن جی نے ایک ماسٹر اسٹروک کھیلا ہے۔ اترپردیش کی تقسیم ہو یا نہ ہو لیکن جب اسمبلی چناؤ سرپر ہیں ایسے میں ریاستوں کی تشکیل کا اشو اچھال کر مایاوتی نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں اترپردیش میں بسپا کو گھیرنے کی مہم میں لگی اپوزیشن خاص طور سے سپا کانگریس کے لئے مشکل کھڑی ہوگی۔ یوپی میں بڑی اپوزیشن پارٹی سماج وادی پارٹی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں سے سڑکوں پر بسپا کے خلاف مورچہ سنبھالے ہوئے ہے۔ اس نے اس مدت کے دوران بسپا حکومت کے کام کاج کو اشوبنائے ہیں۔ ریاستی تشکیل کا اشو اچھالنے کے پیچھے سپا کی جارحیت بھی بسپا کی لیڈر شپ کے ذہن میں رہی ہوگی۔ پوروانچل، بندیل کھنڈ اور مغربی اترپردیش کے لوگ طویل عرصے سے علیحدہ ریاستوں کی مانگ کررہے ہیں۔ سپا اترپردیش کی مزید تقسیم کے خلاف ہے۔ بسپا اس اشو کو خوب ہوا دے گی۔ ایسے میں پوروانچل ، بندیل کھنڈ اور مغربی اترپردیش میں سپا کو اب بسپا پر ہلا بولنے سے زیادہ وہاں کے لوگوں کو سمجھانے میں وقت ضائع کرنا پڑے گا۔ آخر کار وہ ریاست کی تقسیم کے کیوں خلاف ہے۔ لوک سبھا چناؤ میں اترپردیش میں ملی غیر متوقع کامیابی کے بعد کانگریس ریاست میں اپنی واپسی کی امید لگانے لگی ہے۔ سال2009ء کے بعد سے راہل گاندھی نے ایک طرح سے اترپردیش میں ڈیرا ڈالا ہوا ہے۔ پارٹی کی کوشش ہے کہ یوپی میں اپنے روایتی ووٹ بینک دلت، براہمن، مسلم کو کیش کرلے۔پردیش میں کانگریس کمزور ہونے پر دلت ووٹ بینک پورا کا پورا بسپا میں منتقل ہوچکا ہے۔ پچھلے چناؤ میں براہمنوں نے بسپا کا ساتھ دیا۔
بھاجپا کو ہرانے کے لئے مسلمانوں نے بھی بسپا کا ساتھ دیا۔ بسپا جانتی ہے کانگریس کے اس ووٹ بینک میں سیندھ لگانے کا مطلب اس کا کمزور ہونا ہے۔ اسی طرح کانگریس پوروانچل ،بندیل کھنڈ کی بد حالی کو اشو بنا کر بسپا کو گھیر رہی ہے۔ کانگریس کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ یہ کہہ کر بھی اترپردیش کے بٹوارے کی حمایت نہیں کرسکتی کیونکہ تلنگانہ کا مسئلہ اس کے لئے ابھی درد سر بنا ہوا ہے۔تلنگانہ کے علاوہ بھی دیش میں کئی ریاستوں کی تقسیم کی مانگیں اٹھتی رہی ہیں۔ اگر یوپی کا بٹوارہ ہوتا ہے تو اس کا بڑا رد عمل ہونے کا خطرہ ہے۔تقسیم کا سلسلہ کہاں رکے گا یہ کہنا مشکل ہے۔بہن جی کے اس دعوے سے راہل گاندھی کا یوپی مشن نئی الجھنوں میں ضرور پھنس جائے گا۔ حالانکہ کانگریس کہہ چکی ہے اس کی پالیسی یہی ہے کہ چھوٹی ریاستوں کے لئے نئی ریاست کمیشن کی تشکیل کی جائے لیکن صرف ایک جملے سے ''ہاتھی'' اس بھاری بھرکم داؤ کا شاید ہی مقابلہ کر پائے۔
بسپا کیبنٹ نے ریاستی تشکیل کے ریزولیوشن کو بھلے ہی اپنی منظوری دے دی ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں یہ بات صاف ہونے والی ہے کہ سرکار اسے پاس بھی کرا لے گی لیکن یہ کوشش ریاستی تشکیل کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ آئینی نظام کے مطابق ریاست کی تشکیل مرکز کی طرف سے ریزولیوشن پاس ہونے پر ہی ہوسکتی ہے اس لئے ان ریاستوں کی تشکیل کا راستہ بہت لمبا ہے اور یہ تشکیل اسی صورت میں ہوگی جب مرکز پرستاؤ پاس کرے۔ آئین کی دفاع تین کے مطابق کسی نئی ریاست کی تشکیل یا کسی ریاست کی تقسیم یا ریاستوں کے کچھ حصوں کو آپس میں بدلنے کا حق صرف مرکز کے پاس ہی ہے۔ کسی بھی ریاست کے ذریعے بھیجے جانے والی تقسیم کی تجویز ماننے کے لئے مرکز پابند نہیں ہے۔ کسی بھی ریاست کی تقسیم کے لئے نہ تو ریاستی کمیشن بنانے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ریاستی حکومتوں کی منظوری کی۔ اگر کسی ریاست کی تقسیم کو کرکے نئی ریاست بنانا ہے تو مرکز کو کیبنٹ کی منظوری کے پرستاؤ کو راشٹرپتی کو بھیجنا ہوتا ہے۔ راشٹرپتی اسے ریاست میں یا راجیوں کو بھیجتے ہیں جن کی تقسیم ہوتی ہے۔ متعلقہ اسمبلیوں کو ایک یقینی مدت میں اپنی رائے صدر کو بھیجنی ہوتی ہے۔ اگر کسی اسمبلی کے ذریعے اس پرستاؤ کی مخالفت کی جاتی ہے تو اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ صدر کی منظوری کے بعد مرکز کو اسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس کرانا ہوتا ہے اور اس کے بعد ہی اسے پھر صدر کو بھیجا جانا ہوتا ہے۔ صدر کی منظوری کے بعد ہی ریاست کی تقسیم کرکے نئی ریاست کی تشکیل ہوسکتی ہے۔
اترپردیش کو بانٹنے کی تجویز بیشک نئی نہیں ہے لیکن اس مسئلے پر مایاوتی نے تیزی دکھا کر جس طریقے سے اسے پاس کرنے کا عزم دکھایا اس سے اس نے تمام پارٹیوں کواس سے اس نے تمام پارٹیوں کو بیک فٹ پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں حالانکہ یہ سوال بھی کررہی ہیں کہ ریاست کو بانٹنے کی یہ پہل انہوں نے ابھی کیوں کی ہے۔ کیونکہ چناؤ سر پر ہیں لیکن ہمیں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی سیاست میں نہ پڑ کر ریاست کی بہتری کی سمت میں سوچنا چاہئے۔حمایتیوں کی دلیل ہے کہ بڑی ریاست میں ایک حصے کی آواز پورے صوبے تک نہیں جا پاتی۔ اسی وجہ سے انتظامیہ کیلئے کئی بار پریشانی کھڑی ہوجاتی ہے۔ ریاست کی تقسیم سے یہ انتظامی مسئلہ تو ختم ہوگا لیکن مقامی مسائل کی ہلکی گارنٹی بھی ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عوامی سہولیات اور ترقی کی گارنٹی کے لئے جس سسٹم کی ضرورت ہوتی ہے اس پر آج کوئی بات کرنا نہیں چاہتا۔ سوال یہ بھی ہے کیا آزادانہ طور سے ان مجوزہ ریاستوں کے پاس سبھی قسم کے تمام وسائل بچے رہ جائیں گے جس پر اترپردیش کھڑا ہے؟ جس طرح سے باقی نئی چھوٹی ریاستیں بنی ہیں ان کے سیاسی تجربات تو دراصل کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ تلنگانہ جیسے اشو کو کانگریس نے سیاسی فائدے کے لئے کھلے عام اٹھایا لیکن جب سامنا کرنے کی باری آئی تو وہ پس و پیش میں الجھا دئے گئے۔ ہرسیاسی پارٹی کی یہ ہی ٹریجڈی ہے کہ علاقے کے اہم وراثتوں کے راج تلک کی باتوں کو ترقی کی قیاس آرائی کے انتظام کا نام دے دیا جائے لیکن چاہے یہ سیاسی داؤ ہی کیوں نہ ہو۔ مایاوتی نے بڑی چالاکی سے ایک بحث چھیڑ دی ہے اور چناؤ کی لکھنؤسے نکل کر دہلی کی سیاست فی الحال گرم ہے۔ ووٹ کی سیاست میں خطرہ لینے سے سب ڈرتے ہیں لیکن نیت میں کھوٹ کے سوال پر سبھی لوگ بحث کو تیار ہیں ۔کیا اس کی سیاسی پارٹیوں میں سچ مچ کوئی اخلاقی ہمت ہے تو اترپردیش میں سچائی کے ساتھ جا سکیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ سرکاریں اس وقت سیاسی مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسے فیصلے کرتی ہیں لیکن یہ مناسب نہیں کہ کسی ریاست کی تشکیل کا فیصلہ صرف چناوی فائدے کے لئے کیا جائے۔ اگر سبھی سیاسی پارٹیاں متفق ہوں تو مرکزی حکومت کو چاہئے کہ اس مسئلے کے حل کے لئے ایک دوسرا ریاستی تشکیل کمیشن بنانے کا فیصلہ لے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Mayawati, Rahul Gandhi, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟