راہل نے کیا یوپی میں شہ مات کے کھیل کا آغاز




Published On 17th November 2011
انل نریندر
ماننا پڑے گا کہ اس مرتبہ کانگریس کے یووراج جنرل سکریٹری راہل گاندھی نے اپنے مشن 2012ء یوپی مہم کا آغاز بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ اس مرتبہ اس مہم کے پیچھے پورا ہوم ورک کرکے میدان میں چھلانگ لگائی گئی ہے۔ سیاروں کی حالت بھی بدلی ہے اور شروع میں ہی اچھا آغاز ہوگیا ہے۔پھر سیاست میں ٹوٹکوں کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ یہ بات راہل گاندھی کو بھی ا ب سمجھ میں آنے لگی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ مشن2012ء کے لئے انہوں نے اس بزرگ کی سرزمین کو چنا جہاں سے ان کے بزرگوں کو ہار کبھی جھیلنی نہیں پڑی تھی۔ پھولپور کانگریس کے لئے ایک ایسی سیٹ تھی جہاں سے جواہر لعل نہرو نہ صرف زندگی بھر جیتے بلکہ ان کے نام پر کانگریس نے یہ سیٹ کافی وقت تک برقرار رکھی۔ یہ ہی نہیں پھولپور سے ہی راہل بسپا سپریموں اور اترپردیش کی وزیر اعلی مایاوتی کے لئے دلت،براہمن تجزیوں کو پلیتا لگانے کا سندیش دینے میں کامیاب ہوتے دیکھے جا سکیں گے کیونکہ1957کے لوک سبھا چناؤ میں جب یہ سیٹ دو رہنما والی تھی تب اس سیٹ پر پنڈت جواہر لال نہرو اور مسریادین جیتے تھے۔مسریادن دلت برادری کے تھے۔ پھولپور کو اپنی مہم کیلئے چننے کا ایک پیغام یہ بھی ہے ترقی کی دوڑ میں اترپردیش اتنا پچھڑ گیا ہے۔ راہل نے اپنی تقریر میں اس حقیقت کو بخوبی اچھالا۔ پہلی مرتبہ ہم نے راہل گاندھی کو ایک اینگری ینگ مین کی ساکھ اور تیوروں میں دیکھا۔ پیر کو جھونسی کی ریلی میں جارحانہ تیور وں میں راہل نظر آئے اس سے طے ہے کہ اسمبلی چناؤبڑے سنسنی خیز ہونے والے ہیں۔ راہل نے مایاوتی سرکار کو آزادی کے بعد کی سب سے کرپٹ اور لٹیری حکومت کی تشبیہ دے ڈالی۔ ان کے ایک بیان سے بہرحال ضرور ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے نوجوانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کب تک آپ لوگ مہاراشٹر جاکر بھیک مانگو گے؟ کب تک دہلی ، پنجاب میں مزدوری کرتے رہو گے؟ آپ کی وزیر اعلی تو یہاں جیب بھرنے میں لگی ہیں۔ اس حکومت کو اب اکھاڑ پھینکئے۔ راہل نے کہا کہ نیتا جب تک غریب کے گھر جاکر گندے کنویں کا پانی نہیں پیئے گا اس کا پیٹ نہیں خراب نہیں ہوگا وہ غریبوں کے قریب نہیں سمجھا جاسکے گا۔ جو غریبوں کی حالت سمجھتا ہے غصہ اسے ہی آتا ہے۔ ایک وقت ملائم اور مایا کو بھی غصہ آیا کرتا تھا لیکن اب ان کا غصہ مر چکا ہے۔ انہیں صرف اقتدار کی فکر ہے۔ اترپردیش میں غریب 20 سال بعد بھی وہیں کا وہیں ہے۔ بجلی پیداوار کم ہوئی ہے۔ غنڈہ گردی اور کرائم تیزی سے بڑھے ہیں۔ سوچتا ہوں کیوں نہ سیدھے لکھنؤ پہنچ جاؤں اور آپ کی لڑائی لڑوں۔ موجودہ وزیر جیبیں بھر رہے ہیں۔ سپا حکومت میں غنڈے تھانے چلاتے تھے۔ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں سب کو غذا کا حق اور مضبوط لوک پال بل یوپی اے سرکار لائے گی۔
راہل گاندھی نے اپنی ماں سونیا گاندھی کے ساتھ مل کر اترپردیش میں کانگریس کو پھرسے زندہ کرنے کا کام کیا تھا جس کے سبب لوک سبھا میں اس کو سب سے زیادہ سیٹیوں والی ریاست میں 2009ء میں 22 سیٹیں ملی تھیں۔ اس جیت کو اگر اسمبلی سے تجزیہ کرکے دیکھا جائے تو کانگریس کو آنے والے چناؤ میں قریب100 سیٹیں جیتنی چاہئیں لیکن راہل کا مشن 2012ء کا راستہ آسان نہیں ہے۔ بیشک جو باتیں انہوں نے کہی ہیں وہ کافی حد تک صحیح ہیں اور ان کی سراہنا ہونی چاہئے۔ کسی نے تو کہنے کی ہمت دکھائی ہے لیکن جو پوزیشن 2009 ء میں ممکن دکھائی دے رہی تھی وہ 2011ء کے گذرتے گذرتے ناممکن معلوم پڑ رہی ہے کیونکہ منموہن سنگھ سرکار اپنے دوسرے عہد میں سامنے آئے کرپشن کے معاملوں اور جان لیوا مہنگائی کے سبب کانگریس کے لئے ناراضگی بٹور رہی ہے۔ راہل کا یہ کہنا کہ آپ کب تک مہاراشٹر میں بھیک مانگو گے ۔ میری رائے میں انہوں نے صحیح الفاظ کا انتخاب نہیں کیا تھا۔ بہتر ہوتا وہ کہتے کب تک یوپی کے نوجوان مہاراشٹر میں نوکریوں کے لئے بھٹکیں گے؟ نوکری مانگنا بھیک مانگنے کے برابر نہیں ہے۔ جو بات کانگریس کو سب سے زیادہ ستائے گی وہ ہے وہاں پر لچر کانگریس تنظیم۔ راہل گاندھی کی دھواں دھار تقریر پر بسپا کے ساتھ ساتھ جس طرح دیگر پارٹیوں نے بھی رد عمل ظاہر کرنے میں دیر نہیں لگائی ا سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ کانگریس کی اس ریلی کو سیاسی یا چناوی فائدہ مل سکے گا۔ اگر اترپردیش میں کچھ بھی ٹھیک نہیں اور یہاں تک کہ وہاں مافیا راج جیسے حالات ہیں جیسا کہ راہل نے کہا تو پھر ان کی یوپی یونٹ نے اس کے خلاف کوئی مہم کیوں نہیں چھیڑی؟ ریاست میں کانگریس کی سرگرمیوں سے تو ایسا احساس نہیں ہوتا کہ حالات اتنے خراب ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ راہل گاندھی اترپردیش انتظامیہ کی خامیوں کے خلاف رہ رہ کر آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ دورے بھی کرتے رہے ہیں لیکن ان کی اپنی پارٹی نے عام جنتا کے درمیان ان کا پیغام پہنچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش شاید ہی کی ہو۔ راہل کی اس ریلی سے بیشک سیاسی ہلچل مچ گئی ہے لیکن ایک اکیلی ریلی سے یوپی کے سیاسی تجزیئے شاید ہی بدل پائیں؟ شہ مات کا یہ کھیل ابھی تو شروع ہوا ہے آگے آگے دیکھے ہوتا ہے کیا۔
Anil Narendra, Bahujan Samaj Party, Congress, Daily Pratap, Mayawati, Rahul Gandhi, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟