وسندھرا راضی نہیں تھیں ،اس لئے خالی گیا بھاجپا کا وار!

راجستھان میں قریب 31دنوں سے چلا آرہا سیاسی بحران فی الحال ٹلتا نظر آرہا ہے ۔باغی ہوئے سچین پائلٹ کی دہلی میں راہل گاندھی اور کانگریس جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی سے دو دو مرتبہ ملاقات کے بعد نہ صرف راجستھان کی اشوک گہلوت سرکار پر چھایا سیاسی بحران ٹل گیا ہے اور پارٹی میں بڑی پھوٹ کا اندیشہ غلط ثابت ہو گیا ہے ۔42سالہ سچین پائلٹ نے 12جولائی کو اچانک وزیر اعلیٰ گہلوت کے خلاف بغاو ت کا بگل پھونکتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ ان کی سرکار اقلیت میں آگئی ہے لیکن وہ 19سے زیادہ ممبر ان نہیں اکھٹا کر پائے بے شک بھاجپا اس کھیل میں براہ راست طور سے شامل نہیں تھی لیکن پائلٹ پر وہ داﺅں تب نہ لگائی جب وہ گہلوت سرکار گرانے کی پوزیشن میں ہوتے اس لئے اس لحاظ سے دیکھیں تو فوری طور پر گہلوت سرکار بچ گئی ہے ۔دوسری جانب پائلٹ کا کہنا ہے کہ کانگریس اعلیٰ کمان نے ان کی بات ہمدردانہ طریقے سے سنی اور ان کے ممبران کی شکایتوں کو سننے کے لئے احمد پٹیل،کیسی وینو گوپال،اور پرینکا کی رہنمائی میں ایک تین نفری کمیٹی بھی بنائی گئی ہے ۔حیرانی اس بات کو لے کر ہے کہ یہ کام پہلے ہی کر لیا ہوتا تو مہینے بھر چلی سیاسی اتھل پتھل کی نوبت نہیں آتی ۔ویسے تو پارٹی میں دو گروپ بنانا اپنے آپ میں مضحکہ خیز بات ہوتی ہے ۔مگر راجستھان کے موجودہ حالات اس ناطے سے زیادہ موضوع بحث رہے کہ کانگریس اعلیٰ کمان پورے نتائج سے شروعاتی بحران کے وقت لا پرواہ دکھائی دی ۔اس پورے پس منظر میں راجستھان میں بی جے پی کی زمینی حقیقت اور طاقتور سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا کا بھی اہم رول رہا ہے ۔سچین اور باغی ممبران کے ٹوٹ کے معاملے میں حکمراں پارٹی نے بی جے پی کو ذمہ دار مانتے ہوئے چنی ہوئی سرکار گرانے کی سازش کرنے کا الزام لگایا۔لیکن بی جے پی سرکاری طور سے یہی ظاہر کرتی رہی اس کا کانگریس کے بحران سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔اور نہ ہی وہ اسمبلی میں طاقت آزمائی کی خواہش مند ہے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بی جے پی کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا ۔کیونکہ اس سے راجستھان کے پاور ہاﺅس وسندھرا راجے سندھیا نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔اور انہوںنے گہلوت سرکار کو گرانے کے لئے باغی ممبران کے ساتھ کوئی منسوبہ بنانے سے انکار کر دیا بی جے پی کی ایک میٹنگ کو مجبوراََ منسوخ کر دیا گیا تھا ۔جس میں انہیں حصہ لینا تھا راجستھان میں ایسا کوئی منسوبہ وسندھرا کے تعاون کے بغیر بی جے پی کچھ نہیں کر سکتی تھی ۔اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وسندھرا راجے راجستھان میں کسی سرکار کی تبدیلی کے معاملے میں راضی نہیں تھیں اس لئے بی جے پی کا وار خالی چلا گیا ۔اب بغیر ایک لمحہ گنوائے کانگریس کی لیڈر شپ کو دیگر ریاستوں میں بھی اپنے کیل کانٹے درست کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔کئی نوجوان لیڈر پارٹی چھوڑ چکے ہیں اس ناطے سے اعلیٰ کمان کو زیادہ سرگرم اور سخت اتفاق رائے کے ساتھ تنظیم کو مضبوطی دینے کی حکمت عملی بنانی ہوگی اگر اب بھی کانگریس نہیں جاگی تو بھگوان ہی بچائے ۔تازہ حالات راجستھان میں تیزی سے بدل رہے ہیں ۔آج سے اسمبلی کا سیشن شروع ہو رہا ہے ۔جس میں بھاجپا گہلوت سرکار کے خلا ف تحریک عدم اعتماد لا سکتی ہے ۔فی الحال تو گہلوت سرکار کو جیون دان مل گیا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟