کیا قانون بیٹیوں کو ان کا حق دلا سکتا ہے؟

یہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ تمام دعووں و قوانین کے باوجود خواتین کو برابری سے نہیں دیکھا جاتا مرد اکثریتی ملک میں خواتین کو اپنی حق کے لئے ہر سطح پر لڑنا پڑتا ہے ۔گھرمیں جب بچہ پیدا ہونا ہوتا ہے تو ماں باپ یہی امید کرتے ہیں کہ بیٹا ہو مگر بیٹی ہو تو اس کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے ۔آج بھی حمل میں بچے کے مارے جانے کی خبریں آتی رہتی ہیں ۔والد کے املاک میں بیٹے کے برابر بیٹی کو بھی حق ملنا چاہیے اسے لے کر ہمارے سماج میں ایک طرح سے منفی نظریہ رہا ہے ۔حالانکہ قانون کے مطابق قریب 15سال پہلے بیٹیوں کو والد کی وراثت میں بیٹوں کے برابر حق یقینی بنایا گیا تھا لیکن اب بھی اسے لے کر کہیں نہ کہیں تنازعہ جاری تھا اب دیش کی 74ویں یوم آزادی سے ٹھیک پہلے منگل کے روز سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں بڑا فیصلہ دے دیا ہے اور اسے ایک طرح سے ساری الجھنیں دور ہو گئی ہیں ویسے تو ہندو عورتوں کو والد کی پراپرٹی پیدائشی حق ہے ۔لیکن ہندو جانشین ترمیم قانون 2005کے قانون میں عمل میں آنے کے بعد ہی مل گیا تھا اس معاملے میں بڑی عدالت کا یہ فیصلہ 2005کے قانون کی ہی توسیع سوال آخر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کو 2005کے قانون میں ترمیم کرنے کی ضرورت پڑی ؟حقیقت میں بڑی عدالت کے ہی دو متاضاد فیصلوں کے بعد اُٹھے پیچدگی کو دور کرنے کے لئے یہ فیصلہ دینا پڑا اب سپریم کورٹ کے تین ججوں کی بنچ نے اس متضاد فیصلوں پر روک لگاتے ہوئے صاف کیا ہے کہ مشترکہ ہندو خاندان کی پراپرٹی میں بیٹی کا یکساں حق ہوگا بھلے ہی 2005کے قانون کے عمل میں آنے سے پہلے ہی اس کے والد کی موت ہو گئی ہو ۔حقیقت میں ہندو سماج پراپرٹی کا مسئلہ بہت پیچیدہ رہا ہے ۔عورتوں کو والد کی پراپرٹی میں حق اس لئے نہیں دیا گیا تھا کہ سماجی سسٹم کے تحت یہ مانا جاتا تھا کہ بیٹیوں کا حصہ اسے شادی کے وقت جہیز میں دے دیا گیا ہے اور جب شادی ہو گئی تو وہ دوسرے گھر کی بہو بن گئی ۔اس لئے والد کی پراپرٹی پر اس کا کوئی حق نہیں رہتا آج عدالتوں میں کئی شادی شدہ خوشحال عورتیں اپنے والد کی پراپرٹی میں حق کے لئے بھائیوں کے خلاف لڑ رہی ہیں پتا کے گھر کے ساتھ اس کا صرف جذباتی تعلق رہ جاتا تھا اب مسئلہ یہ ہے کہ والد کی پراپرٹی پر قانونی طور پر بیٹی کا حق بھلے ہی ہو لیکن عام طور پر آج بھی پرانا چلا آرہا ہے ۔کہ والد کی پراپرٹی پر لڑکوں کا ہی حق رہتا ہے اس پورے مسئلے کے سماجی پہلو پر بھی غور کرنا ضروری ہوگا والد کے کنبے کی جتنی ذمہ داری ہوتی ہے اس کو بھی لڑ کے کو ہی پوری کرنی ہوتی ہے ۔مگر بد قسمتی سے والد کوئی قرضہ اپنے اوپر چھوڑ جاتا ہے تو اسے ادا کرنے کا کام بھی بیٹا ہی کرتا ہے ۔اس لئے جانشینی کے مسئلے پر لڑکوں کی شکایت یہی رہتی ہے کہ خرچ تو وہ برداشت کرتے اور پراپرٹی لڑکی لینے چلی آتی ہے ایسی صورت میں لڑکی کے ساتھ برابر سامان کا بٹوارہ لڑکوں کو تکلیف ضرور دیتا ہے جب تک اس کا سماجی حل نہیں نکلتا تب تک اس قانون سے بہت زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی ۔74ویں یوم آزادی پر ہم تمام ملک کے شہریوں کو مبارکباد دیتے ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟