’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

سپریم کورٹ میں بھی عجیب و غریب مقدمات آرہے ہیں۔ تازہ مثال بحریہ کے کچھ افسروں پر بیویوں کی ادلہ بدلی سے متعلق معاملات ہیں۔ بحریہ کے ایک افسر سے الگ رہ رہی ان کی بیوی نے اپنی ایف آئی آر میں الزام لگایا کہ ان کے شوہر کے علاوہ بحریہ کے چار افسران ان میں سے ایک کی بیوی ’وائف سواپنگ‘ میں شامل ہے۔ سال 2013ء میں کوچی میں تعینات ایک بحریہ کے افسر کی بیوی نے بحری جوانوں کی بیویوں کی ادلا بدلی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ شوہر کے سامنے ہی اس سے اجتماعی آبروریزی کی گئی۔ شکایت کے باوجود پولیس نے کارروائی نہیں کی۔ اس لئے معاملے کی جانچ کے لئے سپریم کورٹ سی بی آئی سے معاملے کی جانچ کرائے۔ ریاستی حکومت نے اس کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ ریاستی پولیس اس معاملے کی جانچ کرسکتی ہے اور اسپیشل ٹیم جانچ کرہی رہی ہے۔متاثرہ خاتون نے اپنی شکایت میں اپنے شوہر لیفٹیننٹ روی کرن کبدولا، لیفٹیننٹ ایشور چند ودیاساگر، کیپٹن اشوک اکتا اور اس کی بیوی پرینا اکتا ودو دیگر فوجی افسران کو ملزم بنایا گیا ہے۔ متاثرہ نے الزام لگایا ہے کہ جب اس کے شوہر کی کوچی میں پوسٹنگ تھی تو وہ انہیں بیویوں کی ادلا بدلی پارٹیوں میں لے جاتے تھے۔ وہاں ایسی پارٹیاں اکثر ہوتی رہتی تھیں۔ ایسی ہی ایک پارٹی میں جب انہیں کسی اور افسر کے ساتھ جانے کو کہا گیا تو اس نے منع کردیا۔ اس پر اس کی پٹائی کی گئی اور انہیں ٹارچر کیا گیا۔ متاثرہ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر معاملے کی سی بی آئی جانچ کرانے کی مانگ کی تھی۔ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر، جسٹس آر بانومتی اور جسٹس یو یو للت نے کیرل پولیس کے ڈائریکٹر جنرل سے کہا کہ وہ معاملے کی جانچ کے لئے ڈی آئی جی سطح کے افسر کی سربراہی میں ایف ایس آئی ٹی بنائیں اور تین ماہ میں جانچ پوری کریں۔ سی بی آئی جانچ کی مانگ مسترد کرتے ہوئے جسٹس بانومتی نے کہا کہ یہ صاف ہے کہ آئینی عدالتوں کی سی بی آئی جانچ کی ہدایت دینے کے خصوصی اختیارات کا استعمال خاص حالات میں اور بہت ہی اہم معاملوں میں کیا جانا چاہئے۔ بنچ نے معاملے کے حقائق اور حالات کو دیکھنے کے بعد کہا کہ عدالت کو نہیں لگتا کہ اسے ریاستی پولیس یا اسپیشل ٹیم سے لیکر سی بی آئی کے حوالے کیا جائے۔ ریاستی پولیس اس معاملے کی بہتر جانچ کرسکتی ہے۔ عدالت نے کہا اب وقت آگیا ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ معاملوں کو سی بی آئی کو منتقل کرنے کے اپنے غیر معمولی اختیارات کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں۔ عدالت ایسے ہی معاملوں کو سی بی آئی کو منتقل کرے جس کا قومی یا بین الاقوامی سطح پر اثر ہو یا وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہو۔ عدالت نے دہلی ہائی کورٹ میں معاملے کو منتقل کرنے سے بھی انکار کردیا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟