’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

ہندوتو اور دھرم پریورتن، گھر واپسی سمیت تمام معاملوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس پریوار سے جڑے لیڈروں کے متنازعہ بیانات سے وزیر اعظم نریندر مودی کافی دکھی ہیں۔انہوں نے سنگھ اور پارٹی کے سینئر لیڈروں کو اشارہ دے دیا اگر یہی حالات بنے رہتے ہیں تو وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیں گے۔ انہوں نے سنگھ کے لیڈروں سے کہا کہ مجھے عہدے کا لالچ نہیں ہے ۔ ہندی فلم کی یہ مشہور لائنیں ’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا، میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘مودی حکومت پر یہ سطور بالکل کھری بیٹھتی ہیں۔ مودی سرکار کو مرکز میں آئے ابھی 7 مہینے بھی نہیں گزرے لیکن اس وقت جتنی تنقید آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں نے کی ہے اتنا تو خود اپوزیشن پارٹیاں بھی نہیں کرپائیں۔ اور تو اور حکومت کی کرکری یا کہیں اپوزیشن کو مودی سرکار پر حملہ کرنے کا اشو مل گیا ہے۔ بھاجپا کے پاور ہاؤس مانے جانے والے آر ایس ایس کے لوگ یہ اشو دستیاب کرا رہے ہیں ۔ عموماً کسی بھی حکومت کا پہلا سال ہنی مون پیریڈ کہا جاتا ہے کیونکہ اس میعاد میں خود اپوزیشن بھی حکمراں پارٹی کی پالیسیوں اور ان کے ذریعے کی جانے والی غلطیوں کاانتظار کرتی ہے۔ اس کے بعد ہی سرکار کے کام کاج کی بنیادپر نکتہ چینی شروع ہوتی ہے۔ لیکن یہاں تو حالات ہی بالکل الٹے ہیں۔ آر ایس ایس اور سے وابستہ مختلف تنظیموں نے گھر واپسی کے نام پر جیسی ہڑبڑی اور دکھاوے کا مظاہرہ کیا ہے اس سے دیش دنیا کو یہ غلط پیغام گیا ہے۔ بھاجپا مخالف سیاسی پارٹیوں کو منفی پروپگنڈہ کرنے کا موقعہ بھی ملا ہے۔ جب مناسب طریقے سے کی گئی تبدیلی مذہب یا پھر گھر واپسی پر کسی طرح کی پابندی نہیں تب پھر کسی بھی تنظیم کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ اس معاملے میں نشانہ طے کرتی اور مہم چھیڑتی نظر آئے۔ مبینہ گھر واپسی کے سلسلے میں اس طرح کے اعلانات تو سخت اعتراض آمیز ہیں۔ ہم ایک طے برس تک سب کو ہندو بنا دیں گے۔ ایسے اعلانات سے دیش کے ساتھ ساتھ ہندو مذہب کی بھی بدنامی ہورہی ہے جو اپنی فراخدلی اور بھائی چارگی کے لئے زیادہ جانا جاتا ہے۔ مودی کا درد صرف سنگھ میں ہی نہیں بلکہ ان کے گھر میں بیٹھے لوگ بھی ہیں۔ اس کڑی میں پہلا نام سادھوی نرنجن جوشی کا ہے دوسرا نام ساکشی مہاراج کا۔ ابھی مودی ممبران پارلیمنٹ پر کنٹرول ہی کررہے تھے کہ بھاجپا کے بزرگوار اترپردیش کے گورنر نے رام مندر کا راگ چھیڑ کر سرکار کے سامنے نئی پریشانی کھڑی کردی ہے۔ اتنے واویلے کے بعد بھی لگتا ہے کہ سنگھ کے لوگوں نے ابھی کوئی سبق نہیں لیا ہے کم سے کم سنگھ چیف موہن بھاگوت کے کولکتہ میں دھرم پریورتن پر دئے گئے بیان کو دیکھتے ہوئے تو نہیں لگتا مودی نے سنگھ کے نیتاؤں سے کہا کہ اس طرح کے بیانوں سے سرکار کی ساکھ ملیا میٹ ہورہی ہے۔ بھاجپا کی دلیل ہے کہ سرکار گڈ گورنینس کے ایشو پر جیت کر آئی ہے اور اس طرح کی بیان بازی سے مودی سرکار کی کٹر ساکھ بننے کا خطرہ ہے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ میں بھی مودی نے سخت الفاظ میں اس طرح کے بیانات سے بچنے کیلئے کہا تھا لیکن اس کے فوراً بعد ہی یوگی آدتیہ ناتھ نے متنازعہ بیان دے دیا۔ پارٹی کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کو یہ بھی بتایا گیا کہ اگر ایسی طرح کے متنازعہ بیان چلتے رہے تو کسی بھی وقت دہلی اسمبلی چناؤ کا اعلان اور 2017 میں یوپی کا مشن فیل ہوسکتا ہے۔اس سے آر ایس ایس کے منصوبوں کو بھی دھکا لگے گا۔ خیال یہ بن رہا ہے کہ مودی سرکار کے اقتدار میں آتے ہی آر ایس ایس کا قبضہ ہورہا ہے۔ویسے بھی یہ پیغام بے مطلب نہیں کہ تبدیلی مذہب یا گھر واپسی میں کہیں نہ کہیں لالچ کا بھی رول ہوتا ہے۔ ان حالات میں یہ سب ضروری ہوگیا ہے کہ تبدیلی سے متعلق قانون کو درست کرکے سخت اور اس سے وابستہ تنظیم یہ سمجھیں کہ اگر وہ مودی سرکار کے ہمدرد ہیں تو گھر واپسی و دیگر ایسے اشو کو فوراً ترک کریں۔ مودی سرکار کے ترقی کے ایجنڈے کو چلنے دیں۔ بے وجہ انہیں الجھائے نہ رکھیں۔ یہ سب متنازعہ اشو بعد میں بھی اٹھائے جاسکتے ہیں، سرکار کو صحیح معنی میں جمنے تو دیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟