کوٹ لکھپت جیل قبر گاہ بن کر رہ گئی ہے

پاکستان اپنی ناپاک حرکتوں سے شاید ہی کبھی باز آئے۔بس سوال یہی ہے کہ وہ کتنا گر سکتا ہے۔ انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ۔ پاکستان کے برتاؤ میں کوئی مقام نہیں ہے کوٹ لکھپت جیل میں ہندوستانی قیدی کرپال سنگھ کی مشتبہ حالات میں موت کے 10 دن بعد اس نے منگل کے روز اس کی لاش بھیجی۔ 21 سال سے بھارت واپسی کی راہ دیکھ رہے کرپال سنگھ پردیسی نے 11 اپریل کو کوٹ لکھپت جیل میں آخری سانس لی تھی۔بھارت پہنچنے پر کرپال کی لاش کا امرتسر میڈیکل کالج میں پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ اس سے پتہ چلا کہ پاکستانی ڈاکٹروں نے لاش سے پہلے ہی دل اور جگر نکال لیا تھا اور لاش کا لاہور میں بھی پوسٹ مارٹم ہوا تھا۔ پاکستان نے کرپال کی موت دل کا دورہ پڑنے سے بتائی تھی جس کے لئے دل اور جگر نکالا گیا۔ اندرونی اعضا کو نکال کر لیب میں بھیج دیا گیا جہاں واضح ہو گا کہ انہیں زہر دے کر تو نہیں مارا گیا؟ مئی2013ء میں پاکستان نے سربجیت سنگھ کی لاش بھی دل اور دونوں گردے نکال کر بھیجی تھی۔ کرپال سنگھ کے بھتیجے اشونی نے دعوی کیا کہ اس کے چاچا کوٹ لکھپت جیل میں سربجیت سنگھ پر ہوئے حملہ کے چشم دید گواہ تھے۔ پاکستان سرکار کو اندیشہ تھا کرپال سنگھ کی رہائی کے بعد سربجیت پر ہوئے حملہ کا سچ سامنے آجائے گا اس لئے ایک سازش کے تحت کرپال سنگھ کا قتل کیا گیا۔ دراصل پاکستان کی کوٹ لکھپت جیل قبر گاہ بن کر رہ گئی ہے۔ یہاں پچھلے تین برسوں میں تین ہندوستانیوں کا بے رحمانہ قتل ہوا ۔جنوری2013 ء میں جموں و کشمیر کے پونچھ کے باشندے جیمل سنگھ کی اسی جیل میں قیدیوں کی پیٹ پیٹ کر ہتیا کردی تھی۔ سربجیت سنگھ کو بھی کوٹ لکھپت جیل میں حملہ کرکے مار دیا گیا تھا ۔ اندیشہ ہے کہ اب کرپال کو بھی جیل میں پیٹ پیٹ کر ہی مارا گیا ہے۔ پاکستان سرکار نے جیمل سنگھ کی موت کے اسباب دل کا دورہ پڑنا بتائے ہیں ۔ اب وہ کرپال سنگھ کی موت بھی دل کا دورہ پڑنے سے بتائی جا رہی ہے۔ لاش کی حالت دیکھ کر کرپال سنگھ کے رشتے داروں نے پاکستان کے خلاف جم کر نعرے بازی کی۔ خاندان نے کرپال سنگھ کے قتل کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لاش کے چہرے اور جسم پر چوٹ کے نشان ہیں۔ جیل میں مرے کرپال سنگھ کی لاش کے ساتھ آئے سامان میں ایک خط بھی ملا ہے جو اس نے موت سے پہلے اپنے گھر والوں کو لکھا تھا لیکن ڈاک میں ڈال نہیں پایا۔خط میں وہ خاندان سے اپیل کررہا تھا کہ اس سے ملنے آؤ یا اسے یہاں سے نکالنے کے لئے کوئی وکیل کرو۔ وہ بے قصور ہے اور اسے جبراً پھنسایا جارہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟