نتیش کمار کا سنگھ ۔بھاجپا مکت نعرہ

بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے پارٹی صدر بننے کے بعد اپنے پہلے پبلک پروگرام میں دیش کو آر ایس ایس اور بھاجپا سے نجات دلانے کا نعرہ دیا ہے۔ دراصل نتیش دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ اب صرف بہار کے وزیر اعلی نہیں بلکہ ایک قومی لیڈر کے طور پر ابھر رہے ہیں اور وزیر اعظم بننے کے لائق ہیں۔ ابھی تک اپوزیشن پارٹی کانگریس کو نشانے پر رکھ کر الگ مورچہ بنانے کی بات کیا کرتے تھے لیکن اب وہ تجزیہ بدل گیا لگتا ہے۔ حالانکہ نتیش نے یہ اشارہ تو ابھی نہیں دیا کہ کن پارٹیوں کو ایک جھنڈے کے نیچے لانے کی کوشش ہونی چاہئے لیکن ظاہر ہے کہ ان کی مراد سماجوادی آئیڈیالوجی میں یقین کرنے والی اور کچھ بڑی علاقائی پارٹیوں کو جوڑنے میں ہوگی۔ ویسے بتادیں کہ یہ پہلا موقعہ نہیں کہ جب الگ مورچہ بنانے کی بات اٹھی ہو۔ کئی بار ایسی کوشش ہوچکی ہے۔ کچھ موقعوں پر تو ایسے اتحادوں کو مرکزی اقتدار سنبھالنے کا موقعہ بھی ملتا مگر حقیقت یہ ہے کہ نظریہ اور برتاؤ میں اتنی کامیابی نہیں ہوسکی۔ دراصل پہلے لوک سبھا چناؤ کے وقت ملائم سنگھ یادو نے بھی تمام چھوٹی پارٹیوں کو چھوڑ کر بھاجپا اور کانگریس کے سامنے تیسرا مورچہ کی شکل میں ایک طاقتور چیلنج پیش کرنے کی پہل کی تھی لیکن وہ سرے نہیں چڑھ سکی۔اب نتیش کمار بھاجپا کا ہوا دکھا کر سبھی پارٹیوں کو جوڑنے کی بات کررہے ہیں۔یقینی طور سے اس کے پیچھے دو بڑی وجہ ہوسکتی ہیں۔ پہلے بہار اسمبلی چناؤ میں بنے اتحاد کا اثر اور دوسرا بڑے سیاستداں پرشانت کشور ۔ گزشتہ برس مشن بہار میں نتیش کمار کو این ڈی اے پر بڑی بڑھت دلانے والے حکمت عملی ساز پرشانت کشور نے اب بہار کے وزیر اعلی کے لئے مشن 2019 کی کہانی لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اگلے لوک سبھا چناؤ میں تین سال باقی ہیں لیکن امکانی چناؤ جنگ کو نتیش بنام مودی میں تبدیل کرنے کی تیاری ابھی سے شروع ہوگئی ہے۔ اس سلسلے میں نتیش بھاجپا کے راشٹرواد کے جواب میں مذہب اور سیکولرازم اور سماجی انصاف کی پچ پر بیٹنگ کرتے دکھائی دیں گے۔ اس کے لئے پچھلے لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کو کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دینے والے پرشانت نے نتیش کو سنگھ مکت اور بھاجپا مکت بھارت کا نعرہ دیا ہے۔ پہلی بار جب جنتا دل (یو) کی کمان سنبھال کر مرکز کی سیاست میں مودی مخالف سیاست کا مرکز بننے کی کوششوں میں لگے نتیش 5 ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کے بعد بھاجپا مخالف طاقتوں کو متحد کرنے کی مہم چھیڑیں گے ایسے میں سوال کھڑا ہورہا ہے کہ بھاجپا مکت دیش کی بات کرنے والے نتیش کمار کے ساتھ آئے گا کون؟ اگلے سال بہار کے پڑوسی راجیہ اترپردیش میں اسمبلی چناؤ ہونے ہیں نتیش کی نظر یہاں کے چناؤ پر لگنی فطری ہی ہے۔ یہاں بھاجپا کے خلاف دو پارٹیاں ہیں سپا اور بسپا۔ یہ دونوں پارٹیاں نتیش کی اپیل پر ایک اسٹیج پر آئیں گی یہ ممکن نہیں لگتا۔ یہی صورتحال لیفٹ پارٹیوں کی ہے۔ وہ کئی ریاستوں میں مضبوط تو ہیں لیکن وہاں ان کی مخالفت بھاجپا و علاقائی پارٹیوں کے ساتھ ہے۔ بنگال میں ممتا بنرجی اور لیفٹ پارٹیاں آمنے سامنے ہیں۔ جے للتا اور کروناندھی ایک دوسرے کے کٹر حریف ہیں۔ کیرل میں تو نتیش کی ساتھی پارٹی کانگریس اور لیفٹ پارٹیاں بالکل آمنے سامنے ہیں۔ ایسے میں ممکن نہیں لگتا کہ بھاجپا کی مخالفت کے نام پر نتیش کے ساتھ آ پائیں گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہر علاقائی پارٹی یا پھر کانگریس ۔ بھاجپا سے الگ پارٹی کے اپنے تجزیئے ہیں۔ سب نے ذات ،علاقائیت ،طبقات وغیرہ کے وجود کے نام پر اپنا مینڈیٹ بنا رکھا ہے اس لئے جب وہ ایک ساتھ ہوتی ہیں تو ان کے مفادات ٹکرانے لگتا ہیں۔ نتیش کمار خد اس سے پہلے بھاجپا کے تعاون سے اقتدار میں رہ چکے ہیں۔ ایسے میں متبادل سیاست کا نظریہ تب تک ہی مستقل حیثیت نہیں لے سکتا جب تک اپوزیشن پارٹیاں اپنے سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر ایک بڑے اصول کے لئے عہد بند نہیں ہوتیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟