کشمیر میں فوج کو بلا وجہ بدنام کرنے کی سازش

جموں و کشمیر کے علاقہ ہندواڑہ میں چار شہریوں کی موت کے بعد بھڑکے تشدد کی آگ میں پورا کشمیر اب جھلسنے لگا ہے۔ ہندباڑہ میں تشدد کے واقعات کے بعد سے حالات کشیدہ بنے ہوئے ہیں۔ احتیاطاً انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی ہے۔ وہیں لوگوں کی آمدورفت پر بھی روک لگا دی گئی ہے۔ کپواڑہ ضلع کے ہندواڑہ میں ہوئی فائرنگ میں چار لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ غور طلب ہے کہ ہندواڑہ کے ایک جوان پر مبینہ طور سے ایک طالبہ کے ساتھ چھیڑ خانی کا الزام لگا تھا۔ اس کے بعد ناراض لوگوں نے جم کر ہنگامہ کیا جس کے چلتے فوج کو فائرننگ کرنی پڑی تھی۔ اس میں ایک ابھرتے ہوئے کرکٹر سمیت چارلوگوں کی موت ہوگئی تھی، جس کے بعد معاملہ نے طول پکڑ لیا۔ کچھ لوگوں نے ایک پولیس چوکی کو آگ لگادی۔ پہلے این آئی ٹی کے تنازعہ نے وادی اور جموں کے درمیان ذہنی خلیج کو اور بڑھایا ہی ہے اسی طرح ہنڈواڑہ کے واقعات کے مرکز کے تئیں لوگوں میں ناراضگی کم ہونے کے بجائے اور بڑھی ہے۔ دلچسپ اتفاق ہے کہ حال کے واقعہ نے گمراہ کن پروپگنڈہ کی اصلیت سامنے لادی ہے۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں لوگ سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ وہاں بے روزگاری کے اشو کو لیکر پاکستان سرکار کے خلاف جم کر مظاہرے ہورہے ہیں۔ وہ بے روزگاری کے اشو کو لیکر پاکستان سرکار کو جم کر کوس رہے ہیں کیونکہ وہاں جو بھی تھوڑی بہت سرکاری نوکریاں نکلتی ہیں ان میں بھی پاکستان کے دیگر علاقوں سے بے روزگاروں کو بھردیا جاتا ہے۔ ان مظاہروں نے مقبوضہ کشمیر کی بدحال زندگی کی حقیقت اجاگر کردی ہے۔ ادھر ہندواڑہ میں ہوا واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ فوج کو بے وجہ ویلن کے طور پر پیش کرنا کتنا آسان ہے۔ فوج کی طرف سے جاری ویڈیو سے ایک بات تو صاف ہے کہ افواہ پھیلانے والی مشینری نے بنا کسی بات کے ایک بات کا بتنگڑ رچ دیا ہے۔
خود متاثرہ کا کہنا ہے فوج کے کسی جوان نے اس کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہیں کی تھی۔ اس کا کہنا تو یہ ہے ایک مقامی لڑکے نے اس کا بیگ چھیننے کی کوشش کی اور اس کے ساتھیوں نے ہی اسے چوٹ پہنچائی تھی۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ’کوئی کرے کوئی بھرے‘ چار بے قصور اس جھوٹ کا شکار ہوئے اور فوج کو بلا وجہ ویلن بنا دیا گیا۔ کشمیر میں یہ علیحدگی پسند جن کو پاکستان سے پوری مدد ملتی ہے ایسی افواہیں پھیلا کر ہندوستان کے خلاف ماحول بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ اب جب محبوبہ مفتی نے جموں کشمیر کی کمان سنبھالی ہے امید کی جاتی ہے کہ وہ ان علیحدگی پسندوں اور افواہ پھیلانے والوں کو کنٹرول کریں گی۔ویسے بھی یہ معاملہ صوبے میں لاء اینڈ آرڈر سے وابستہ ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟