سشما سوراج کاتہران۔ماسکو دورہ

وزیر خارجہ محترمہ سشما سوراج کی ایران اور روسی و چینی لیڈروں سے ملاقاتیں کئی نقطہ نظر سے اہمیت کی حامل ہیں۔ چاہے معاملہ ایران سے تیل کا رہا ہو یا پھر چین سے اظہرمسعود معاملہ اٹھانے کا رہا ہو ، بین الاقوامی پالیسیاں کسی اخلاقیاتی اوراصولی کے بجائے جنگ و سیاسی مفادات پر ہوتی ہیں۔مسعود اظہر کے معاملے میں چین سے پاکستان کے تئیں جھکاؤ کو اسی سلسلے میں دیکھنا ہوگا۔ لمبے وقت سے دہشت گرد سے لڑ رہے بھارت کا ہمیشہ سے یہی خیال رہا ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے بین الاقوامی برادری کو اس پر دوہرا روخ ختم کرنا ہوگا۔ روس ، بھارت اور چین کے وزراء خارج کی ماسکو میں ہوئی چوٹی ملاقات میں وزیر خارجہ محترمہ سشما سوراج نے دیش کے اسی موقف کو دوہرایا اور آگاہ کیا کہ دہشت گردی پر دوہرہ رخ ان کے لئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے خطرناک ہوسکتا ہے۔ اس لئے ہمیں اس بات سے ضرور تشفی حاصل ہوئی ہے کہ سشما جی نے ماسکو میں اکھٹے ہوئے وزراء خارجہ کی میٹنگ سے الگ چین کے وزیر خارجہ وانگ وی سے الگ مل کر اپنا اعتراض درج کرایا۔ مسعود اظہر اور لکھوی کے معاملے میں بھارت کی بین الاقوامی کوششوں کو چین نظرانداز کرتا رہا ہے اور ایسا کرنے کے پیچھے صاف طور پر پاکستان کو حمایت دینا ہے۔جب ممبئی میں 26/11 کا دہشت گرد حملہ ہوا تھا اور بھارت پاکستان کے دہشت گردی کے اڈوں پر نشانہ لگانے کی سوچ رہا تھا تب بھی چین کے نمائندے بغیر بلائے بھارت آئے تھے اور امن اور صبر سے کام لینے کی صلاح دے گئے تھے۔ اسی حملے کے سلسلے میں جب لکھوی کی رہائی کی بھارت نے مخالفت کی تھی تو بھی چین نے پاکستان کی حمایت کی تھی۔ حال ہی میں پٹھانکوٹ میں ہوئے حملہ کے اہم سازشی اور جیش محمد کے سرغنہ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی آتنکی ہٹ لسٹ میں ڈالنے کی کوشش کی تو اسے صرف اس لئے ناکام کردیا گیا کیونکہ چین نے اس پر ویٹو کردیا تھا۔ اس لئے یہ اچھا ہے کہ سشما جی نے چین کو بھارت کے نقطہ نظر سے واقف کرادیا ہے۔ ماسکو سے پہلے سشما جی ایران کی راجدھانی تہران گئی تھیں۔ ایران بھارت کے لئے کئی معنوں میں بہت اہم ہے۔ ایران کے نیوکلیائی پروگرام کے خلاف مغربی دیشوں کی اقتصادی پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد ایران کے ساتھ توانائی سیکٹر میں تعلقات کے فروغ کے لئے تیل و گیس سیکٹر سمیت پیٹرو مصنوعات اور کھاد سیکٹر میں ایران کے لئے بہت اہم ہے۔ سشما سوراج نے ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای کے مشیر علی اکبر ولایتی، وزیر خارجہ جواد شریف سے سبھی اشوز پر تبادلہ خیالات کئے۔ بھارت۔ ایران سے تیل کی درآمدات بڑھانے کا بھی خواہشمند ہے جو فی الحال 350000 بیرل فی یومیہ کھپت ہے۔ ایران کی سرحد افغانستان و پاکستان سے لگی ہوئی ہے۔ ایرانی لیڈروں نے علاقائی اشوز خاص طور پر افغانستان اور آتنک واد کی چنوتی پر بھی بھارت کے ساتھ قریبی تبادلہ خیال کی امید ظاہر کی۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے سشما سوراج سے کہا بھارت اور ایران کے درمیان تاریخی طور پر بیحد گہرے کلچرل تعلقات رہے ہیں اس سے دونوں ملکوں کے بیچ سیاحت اور عوام کے درمیان روابط کی بہتر سانجھے داری بڑھانے کا راستہ بن سکتا ہے۔ بھارت اور ایران نے چاؤہار پروجیکٹ کی پیشرفت کا بھی جائزہ لیا۔ بھارت اور ایران میں اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ اس پروجیکٹ کے لئے کمرشل ٹھیکہ اور چاؤہاربندرگاہ کے لئے 15 کروڑ ڈالر کے مالی خرچ کے طور پر جلد دستخط کئے جائیں گے۔ کل ملا کر چاہے اشو دہشت گردی کا رہا ہو یا بھارت کی توانائی ضرورتوں کا رہا ہو سشما سوراج کا دورہ کامیاب رہا۔ ایران سے بھارت کے رشتے ہمیشہ سے اچھے رہے ہیں اور کچھ وقت بعد وزیر اعظم کا بھی ایران جانے کا پروگرام ہے۔ سشما جی نے صحیح گراؤنڈ ورک کیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟