چار ماہ میں 15 دہشت گردانہ حملوں سے تھرایا کشمیر

کنٹرول لائن کے محض 10 کلومیٹر دور جموں و کشمیر کے کپواڑہ ضلع میں جمعرات کی صبح دہشت گردوں نے فوجی کیمپ پر جو حملہ بولا وہ ایک طرح سے اڑی حملے کا رپیٹ تھا. پاکستانی دہشت گردوں نے اڑی کی طرز پر اس فدائین حملے میں ایک بھارتی کیپٹن سمیت تین جوان شہید ہو گئے. جبکہ پانچ جوان زخمی ہوئے. جوابی کارروائی میں فوج نے جیش محمد کے دو دہشت گردوں کو مار گرایا. تیسرے کی تلاش جاری ہے. اڑی حملے کی طرح اس بار بھی صبح چار بجے کا یہ حملہ اسی طرح گھات لگا کر کیا گیا. فرق صرف اتنا ہے کہ اوڑی کے حملہ جاڑے اور برفباری شروع ہونے سے پہلے کیا گیا تھا اور اس بار حملے کے لئے برفباری ختم ہونے اور موسم گرما کے آغاز موسم منتخب کیا گیا.سرجیکل اسٹرائک اور نوٹ بندی کے بعد یہ دعوی کیا گیا تھا کہ دہشت گردی کی کمر توڑ دی گئی ہے اور مستقبل میں پاکستان 10 بار سوچے گا کوئی حملہ کرنے کی. پر یہاں تو الٹا ہو رہا ہے. دہشت گرد بار بار فوجی کیمپوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ہم صرف اپنی کی حفاظت کرنے میں لگے ہوئے ہیں. گزشتہ چار ماہ میں وادی میں 15 دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں اور بھارت انہیں روکنے میں بری طرح فیل ہو رہا ہے. چاہے چھتیس گڑھ کا سکما حملہ ہو یا وادی میں یہ حملہ ہو آخر کب رکے گی ہمارے جوانوں کی شہادت؟ یہ ٹھیک نہیں کہ دہشت گرد بار بار فوجی کیمپوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں. ہماری فوج کیا کر رہی ہے؟ ہر عیب مرکز یا ریاستی حکومت کے متھے مڑھنا ٹھیک نہیں ہے. آخر فوج کو تو اپنی کی حفاظت کا انتظام خود کرنا ہوتا ہے. ملٹری انٹیلی جنس کیا سورہی ہے. بار بار یہ فدائین جب چاہے جہاں چاہے فوجی کیمپوں پر حملہ کر دیتے ہیں اور ہم صرف اپنا دفاع کرنے سے خوش ہو جاتے ہیں. سب سے زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ وہ تقریبا ایک جیسے طریقے سے فوجی کیمپوں اور فوجیوں کو قافلے پر حملہ کرنے کے قابل ہیں. کپواڑہ میں بھی دہشت گردوں نے صبح فوجی کیمپ پر دھاوا بولا. وہ سیکورٹی کی پہلی دیوار اس لئے بھیدنے میں کامیاب رہے، کیونکہ ایک تو صبح کا دھندلکا تھا اور دوسرے شاید سیکورٹی کے انتظامات اتنے نہیں تھے جتنے ہونے چاہئے تھے. یہ تو تحقیقات سے ہی پتہ چلے گا کہ سیکورٹی میں کس سطح پر چوک ہوئی، لیکن اس کا جواب دینا ہی چاہئے کہ آخر چوکسی میں کمی کی صورت بار بار کیوں سامنے آ رہے ہیں؟ یہ توشکر ادا کریں رشی کمار کا جس نے بیحد جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو دہشت گردوں کو مار گرایا جبکہ تیسرے کو زخمی کر دیا.آرہ (بہار) کے رشی کمار گنر سنتری کی ڈیوٹی پر تھے. وہ فیلڈ آرٹلری رجمنٹ میں آٹھ سال سے گنر کے عہدے پر تعینات ہیں. وہ کیمپ کے پچھلے گیٹ پر تعینات تھے. تصادم کے بعد دہشت گرد جب پیچھے کے دروازے سے بھاگنے لگے تو رشی ان کے انتہائی قریب تھے. دہشت گردوں کی نظر جیسے ہی رشی پر پڑی انہوں نے گولیوں کی بوچھار کردی. رشی پر دہشت گردوں نے فائر کیا پر وہ بلٹ پروف ہیلمٹ کی بدولت گولی سے تو بچ گئے لیکن وہ زمین پر گر پڑے. دہشت گردوں نے سمجھا کہ ان کا کام تمام ہو گیا، پر رشی نے فورا سنبھل کر دو دہشت گردوں کو ڈھیر کر دیا. فائرنگ کے دوران ہی رشی کی گولیاں ختم ہو گئیں. ایسے میں تیسرے دہشت گرد سے بچتے ہوئے بنکر کی طرف دوڑے. وہاں سے انہوں نے دوسری رائفل اٹھائی. انہیں ہاتھوں اور پیروں میں کئی مقامات پر چوٹیں لگی ہوئی تھیں. زخمی ہونے کے باوجود رشی نے تیسرے دہشت گرد پر فائر کیا. تیسرے دہشت گرد کو بھی گولی لگنے کی خبر ہے.کشمیر میں موجودہ صورت حال کے لئے سرحد پار کی حمایت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ باہر سے زیادہ اندرونی دہشت گردسرگرم ہوئے ہیں اور کارروائیوں کو انجام دے رہے ہیں. لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ صورت حال 1989 کی سمت میں جا رہی ہے تو غلط نہیں ہوگا. جموں و کشمیر کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی کے دہلی کے دورے اور تین ماہ کا سامان مانگنے کے بعد مرکز کی سرگرمی تو بڑھی ہے پر حکومت کی کشمیر نیتی آخر ہے کیا؟ 80 ہزار کروڑ کا پیکج دینے سے معاملہ سلجھنے والا نہیں. وادی کے اندر علیحدگی پسندوں اورپتھربازوں کا راج چل رہا ہے اور سرحد پار سے دہشت گردوں کا. کشمیر میں جیسے حالات ہیں انہیں دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہے کہ دہشت گردانہ حملوں سے آئے دن دو چار ہو رہے جوانوں کو ہر حال میں محفوظ بنانے کے پختہ انتظامات کئے جائیں. اس سب کے علاوہ پتھربازوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے. بدقسمتی سے کپواڑہ میں بھی یہی ہوا. یہی سمجھنا مشکل ہے کہ جب آرمی چیف بھی یہ مان رہے ہیں کہ پتھرباز دہشت گردوں کے مددگار ہیں تب پھر ملک کی سیاسی قیادت تمام بات کو ایک آواز سے دہرا کیوں نہیں پا رہے ہیں؟ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ دہشت گردوں کے مددگار پتھربازوں کی مذمت۔تنقید کرنے کے بجائے الٹا فوج اور حفاظتی دستوں کے لیے تحمل برتنے کاسبق پڑھایا جا رہا ہے. مسئلہ کا حل کچھ ڈرامائی اور جادوئی کارروائیوں اور ٹی وی کی بحث سے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مسئلہ ٹھوس نیتی ،اقدامات سے ہی قابو کیا جاسکتا ہے جس کا ابھی تک مودی حکومت نے مظاہرہ نہیں کیا ہے.
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟