پاکستان اپنے نیوکلیائی ہتھیاروں کو محفوظ رکھنے میں اہل ہے

سال 2014ء میں پشاور ہے فوجی اسکول پر طالبان دہشت گردوں کے حملے کے بعد ایسی خبر نہیں آئی جس میں کہا گیا ہے کہ وہاں ایک بھی آتنکی تنظیم نہیں بچی جبکہ سچ یہ ہے کہ وہاں دہشت گرد تنظیموں کا دخل نہ صرف پاک فوج اور سکیورٹی ایجنسیوں تک ہے بلکہ سینئر فوجی افسروں کے کنبوں اور ثالثی کے سطح پر فوجی افسروں کے درمیان اٹھنابیٹھنا ہے۔ اس خطرناک صورت میں دنیا پاکستان کے نیوکلیائی ہتھیاروں کی حفاظت کو لیکر فکر مند ہو تو یہ فطری ہی ہے۔ ان نیوکلیائی ہتھیاروں کی حفاظت یقینی کرنی ہوگی۔ اس کے پہلے دیر ہوجائے۔ امریکہ نامور اخبار ’دی نیویارک ٹائمس‘ میں افغانستان کے سابق سکیورٹی ڈائریکٹر جنرل رحمت اللہ نبیل نے ایک مضمون لکھا ہے میں اس کے اہم حصے پیش کررہا ہوں۔ جیسے ہی کسی آتنکی تنظیم کا تعلق پاکستان سے ہونے کی باتیں سامنے آتی ہیں تو سبھی دیشوں کو ایک ہی فکر ستاتی ہے کہ اس کے یہاں نیوکلیائی ہتھیار بھی ہیں کہیں وہ دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ کچھ دن پہلے یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ اگر پاکستان اپنے نیوکلیائی ہتھیارمحفوظ نہیں رکھ سکتا تو امریکہ ان پر اپنا کنٹرول کر لے گا۔وہ کچھ سال پہلے کی بات تھی لیکن موجودہ دور میں بھی ایسا ہی ہے۔ پاکستان میں نواز شریف سرکار کمزور پڑتی جارہی ہے اور پاک فوج اور جہادی تنظیم روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہیں۔ نواز شریف اور پاک فوج کے آپسی تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔ پاکستان عالمی جہاد کا اڈہ بن گیا ہے جہاں سے برائی پنپتی ہے۔ پاکستان وہ دیش ہے جہاں فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیاں علاقائی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے آتنکی تنظیموں کا استعمال کرتی ہیں۔ ان کے افسر یہ دعوی کرتے نہیں تھکتے کہ ان کے نیوکلیائی ہتھیار پوری طرح محفوظ ہیں۔ دنیا کو پتہ ہے پاکستان کے پاس120 سے زیادہ نیوکلیائی ہتھیار ہیں۔ پاکستان پانچواں ایسا دیش ہے جس کے پاس برطانیہ سے بھی زیادہ نیوکلیائی ہتھیار ہیں۔ صرف یہ نہیں پاکستان کی تاریخ رہی ہے ایران اور نارتھ کوریا جیسے ملکوں کو نیوکلیائی تکنیک دینے اور لینے کی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ جب نیوکلیائی عدم پھیلاؤ کو لیکر کوئی پالیسی بنائے تو پاکستان کو ہی اولین ترجیح میں رکھے۔ پاکستان سینکڑوں آتنکی اور کٹر پسند تنظیموں کا اڈہ ہے اور تقریباً دیش کے سبھی راجیوں میں اس کی سرگرمیاں ہیں ،خاص طور پر پنجاب علاقہ جہاں اس کے فوجی ونیوکلیائی سینٹرہیں۔ لشکر طیبہ جیسی آتنکی تنظیموں کے بڑھتے اثر و فوج اور سکیورٹی ایجنسیوں یہاں تک کہ سینئر فوجی افسروں کے خاندانوں میں ان کا بڑھتا دخل اب دنیا نظر انداز نہیں کرسکتی۔ خود پاک سرکار کی الگ الگ ایجنسیاں بھی تسلیم کرچکی ہیں کہ ان کے نیوکلیائی املاک خطرے میں ہیں۔ کچھ کرنا ہوگا کہیں دیر نہ ہوجائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟