کیا آپ کو پورا پیٹرول مل رہا ہے

پیٹرول پمپ پر ایندھن بھرواتے ہوئے آپ بھلے ہی میٹر پر نظر جمائے رکھیں لیکن تیل کی چوری کرنے والے آپ کی ناک کے نیچے ہی تیل چرا رہے ہیں۔ حال ہی میں لکھنؤ میں ایک تکنیک کے بوتے پیٹرول کی چوری کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ کھلے عام ہونے والی اس لوٹ کو روکنے کی سمت میں ہماری تیل کمپنیاں اتنی سنجیدہ نہیں دکھائی دیتیں جتنی ہونی چاہئیں۔ خلاصہ ہوا ہے کہ لکھنؤ میں چپ سے گھٹ تولی کرنے والے پیٹرول پمپ مالک ہر مہینے 200 کروڑ روپے سے زیادہ کی کمائی ناجائز طریقے سے کررہے تھے۔ یہ اعدادو شمار اس سے چار گنا زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ ایس ٹی ایف کے افسروں نے اندازہ لگایا ہے کہ ہر ایک ضلع میں ہر تیسرا شخص کم تولی کا شکار ہوا ہے۔ ایس ٹی ایف کے مطابق لکھنؤ میں آدھے سے زیادہ پیٹرول پمپ کم تول کر پیٹرول بیچ رہے ہیں۔ اکیلے لکھنؤ میں ہی 182 پیٹرول پمپ ہیں۔ریمورٹ ڈیوائز سے پیٹرول ۔ڈیزل کی چوری کرنے والے لکھنؤ کے ساتوں پیٹرول پمپوں کے لائسنس معطل کر دئے گئے ہیں۔ گراہوں سے تو پوری قیمت وصولی جاتی ہے لیکن پیٹرول ۔ ڈیزل کم ڈالا جاتا ہے۔ محض تین ہزارروپے کی ایک چپ مشین میں لگاکر پیٹرول پمپ والے ہر روز 40 سے 50 ہزار روپے تک کی اوپری کمائی کرتے تھے۔ مہینے میں یہ تعداد 12 سے15 لاکھ روپے تک بنتی ہے۔ چپ سپلائی کرنے والے ماسٹر مائنڈ رویندر کے مطابق 1000 سے زیادہ پمپوں پر ایسی چپ لگائی گئی ہیں۔ رویندر نے اعتراف کیا ہے کہ یہ چپ پمپ کی ڈسپنسنگ مشین میں لگتی ہے اور ریموٹ سے مشین میں نکلنے والا تیل 6 فیصد کم ہوسکتا ہے۔ ایک لیٹر کی جگہ 940 مربع گرام پیٹرول ملتا ہے یعنی ہر لیٹر پر 60 ملی لیٹر کا نقصان پیٹرول پمپ کی گرین سرکٹ میں چپ لگا کر دھاندلی سے کیا جارہا تھا۔ یہ دو طرح کی ہیں ایک ریموٹ سے اور دوسری چپ کورڈ نمبر سے چلتی ہے۔ گرین سرکٹ سے چپ لگاکر کھیل کرتے تھے۔ چپ 200 میٹر دوری سے بھی ریموٹ سگنل پکڑتی ہے۔ دھاندلی میں 2 سے3 لوگ شامل ہوتے تھے۔ پمپ پر ایک شخص تیل ڈالتا تو دوسرا کیش بیگ کے ساتھ ریموٹ بھی رکھتا تھا ریموٹ کے بٹن دبتے ہی تیل گرنا بند ہوجاتا تھا لیکن مشین کے ڈسپلے پر تیل اور پیسے کا میٹر پوری رفتار سے چلتا رہتا ہے۔ چپ چالو ہوتے ہی پیٹرول ڈلیوری کی رفتار بڑھا دیتی ہے جس سے مشین کے میٹر پر پیٹرول سپلائی اور ریٹ تو دکھائی دیتا ہے لیکن اصل میں پیٹرول کم پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ گورکھ دھندہ صرف لکھنؤ میں ہی چل رہا ہے؟ دیش کے دیگر حصوں میں بھی تو یہ چلتا ہوں گا۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس نہ تو کوئی مشینری ایسی ہے نہ ہی کوئی محکمہ جو ایسی چوری کو پکڑ سکے۔ اب امید کی جائے کہ شاید سرکار اور تیل کمپنیوں کی آنکھیں کھلیں گی اور صارفین کو چوری سے بچایا جاسکے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟