اس مرتبہ یہ جنگ ہے: فرانسیسی صدر فرانسیوااولاندو!

دنیا کی فیشن و گلیمر کی راجدھانی پیرس کی شام جمعہ( ہمارے لئے سنیچرصبح سویرے) آتنکی حملے سے لہو لہان ہوگئی۔ اے۔کے 47 اور فدائی بیلٹ کا سہارا لے کر دنیا کی سب سے خونخوار دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کے 18 دہشت گردوں نے 6 مقامات پر حملہ بول کر129 لوگوں کو مار دیا۔ 300 سے زائد کو زخمی کردیا۔ بتادیں کہ اسے عالمی جنگ کے بعد پیرس پر سب سے بڑا حملہ بتایا جارہا ہے۔ 13 نومبر 2015 ء کو ہوا یہ حملہ ممبئی کے 26 نومبر 2008ء کے آتنکی حملے سے ملتا جلتا تھا۔دہشت گردوں نے ریستوراں میں کھانا کھا رہے لوگوں کو، بار میں شوق فرما رہے لوگوں اور اسٹیڈیم کے باہر تابڑ توڑ حملے کئے۔ واردات کے بعد سے فرانس میں ایمرجنسی لگادی گئی ہے۔ واردات کے ایک چشم دید گواہ نے بتایا کہ وہاں ایک حملہ آور شام میں اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گردوں کے خلاف فرانسیسی فوج کے حملوں کا ذکرکررہا تھا۔ واردات کی جگہ شارلی ایبدو میگزین کے دفتر سے محض200 میٹر کی دوری پر ہے، جہاں اسی سال ماہ جنوری میں جہادیوں نے حملہ کیا تھا۔ بم دھماکے کے وقت فرانس کے صدر فرانسیوا اولاندو بھی اسٹیڈیم میں فرانس بنام جرمنی فٹبال میچ دیکھ رہے تھے۔ چشم دید گواہوں نے بتایا کہ اسٹیڈیم کے پاس حملہ آور چلا چلا کر اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ ایک چشم دید جو بٹان لان میں ایک راک کنسرٹ کے وقت موجود تھا ، نے بتایا کہ وہ سبھی کو ایک ایک کر مار رہے تھے۔ شام کا بدلہ لینے کی بات بول رہے تھے۔ سب سے بے رحمانہ حملہ بتاکلا تھیٹر میں ہوا۔ اے ۔ کے47 سے مسلح چار دہشت گرد اللہ اکبر کہتے ہوئے تھیٹر میں گھسے اور اندھا دھند گولیاں چلاتے رہے اور 89 لوگوں کو مار ڈالا۔ فرانس میں پہلی بار اتنا خوفناک حملہ کیا گیا ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ فرانس میں ہی کیوں بار بار آتنکی حملے کررہے ہیں؟ دراصل فرانس دہشت گردوں کے نشانے پر اس لئے ہے کیونکہ آئی ایس کے خلاف جنگ میں وہ اتحادی فوج کے ساتھ شامل ہے۔ یہ پچھلے سال ستمبر سے ہی شام اور عراق میں سرگرم دہشت گرد تنظیم آئی ایس کے خلاف ہوائی حملے کررہا ہے۔ کچھ دن پہلے فرانسیسی صدر اولاندو نے اعلان کیا تھا کہ وہ آئی ایس سے لڑنے کے لئے اپنے سب سے بڑے جنگی جہاز’’ شارل دیگال‘‘کو بھی بھیجے گا۔ فرانس نے اس برس شام میں بھی کئی ہوائی حملے کر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ 2015 میں ہی آئی ایس نے فرانس میں پانچ حملے کئے ہیں۔ 7 جنوری 2015کوپیرس ایک کارٹون میگز ین ’شارلی ایبدو‘ کے دفتر میں ہوئے آتنکی حملے میں20 لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ کچھ نقاب پوش میگزین کے دفتر میں گھس کر اندھا دھن گولیاں چلانے لگے تھے۔
حملے میں چار چیف کارٹونسٹ اور چیف ایڈیٹر کی موت ہوگئی تھی۔ ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا کہ 3 فروری کو نیس میں ایک یہودی کمیونٹی سینٹر کی رکھوالے کرتے ہوئے تین فوجیوں پر حملہ ہوا لیکن اس حملے میں کسی کی جان نہیں گئی۔ 19 اپریل کو ایک الجیریائی یہودی نے دو گرجا گھروں پر حملے کئے جس میں ایک خاتون کی موت ہوگئی تھی۔26 جون کو مشرقی فرانس کی ایک گیس فیکٹری میں دن دہاڑے مشتبہ اسلامی حملہ آوروں نے ایک شخص کا گلا کاٹ دیا جبکہ دو دیگر لوگوں کو دھماکوں سے زخمی کردیا۔ 21 اگست کو بھاری ہتیاروں سے مسلح ایک آتنکی نے ایمسڈریم جا رہی ایک ہائی اسپیڈ ٹرین میں فائرننگ کی تھی جس میں چار لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ فرانس کے صدر فرانسیوا الاندو نے خبردار کرتے ہوئے اپنے رد عمل میں کہا کہ آئی ایس کے آتنکیوں کی فوج نے جنگ کا اعلان کیا ہے۔ ہم اب ایسا جواب دیں گے جس میں کسی پر رحم نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے بے رحم طریقے سے بدلہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا یہ فرانس پر نہیں پوری انسانیت پر حملہ ہے۔ ایسی طاقتوں کے خلاف سب کو متحد ہوجانا چاہئے۔ امریکی صدر براک اوبامہ نے اسے بزدلانہ حملہ بتایا جبکہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا اس حملے سے صاف ہوگیا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے آتنک واد سے خطرہ بڑھ رہا ہے۔ پیرس میں قتل عام کے خلاف مسلم دنیا بھی فرانس کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے حالانکہ مغربی ملکوں میں مسلمانوں میں ڈر ہے کہ کہیں لوگ پھر سے انہیں نشانہ بنانا نہ شروع کردیں، جیسے امریکہ میں 9/11 حملوں کے بعد بنایا تھا۔سنیچر کو فرانس میں حملہ اتنا ہی اہمیت رکھتا ہے جتنا نیویارک 9/11 حملے کی امریکہ کے لئے اہمیت تھی۔ کچھ دن پہلے آئی ایس نے ایک روسی مسافر طیارے کو سنائی میں مار گرایا تھا۔ اب پیرس میں یہ حملہ کیا ہے۔ لڑائی بڑھنے کے پورے آثار ہیں اس حملے سے امریکہ کو بھی اپنی حکمت عملی بدلنی ہوگی۔ اب اسے روس و اسد کا ساتھ دینا چاہئے۔ آئی ایس دنیا کی سب سے خونخوار خطرناک تنظیم بن گئی ہے اور سبھی دیشوں کو اس کے خلاف متحدہ ہوکر جواب دینا ہوگا۔
پیرس حملوں سے بھارت کے لئے بھی کچھ سبق ہے۔ جب بھی آتنکی واردات ہوتی ہے میڈیا کا رول اہم ہوجاتا ہے۔ فرانسیسی میڈیا نے یہ دکھایا ہے کہ میڈیا ایسے موقعوں پر کس ذمہ داری سے کام کرتا ہے۔ اخباروں میں کوئی خونی فوٹو نہیں شائع ہوا اور نہ ہی ٹی وی چینلوں پر ایسی تصویریں دکھائی گئیں۔ سبھی کوریج کا محض ایک مقصد اور توجہ تھی کہ اتحاد دکھاؤں اور دہشت گردی کو ہراؤ۔ اخبار ’لی پیرسمن‘ ہو یا وسطی لیفٹ نظریئے والے اخبارات ہوں سبھی نے دیش کے خلاف حملہ جنگ بتایا گیا ہے۔ آئی ایس کے خلاف فرانس جو بھی کرے اس میں پورا دیش اس کے ساتھ ہے۔ اسٹیڈیم میں بھگدڑ مچانے کے لئے دہشت گردوں نے تین دھماکے کئے۔ اسٹیڈیم میں اس وقت فرانس کے صدر سمیت80 ہزار لوگ موجود تھے۔ سب نے پورا میچ دیکھا اور پھر اسٹڈیم میں آکر قومی گیت گایا اور ضبط رکھتے ہوئے قطار میں باہر نکلے۔ شہر میں مدد کے لئے ریستوراں ،ہوٹلوں کو ہسپتالوں میں تبدیل کردیا گیا اور زخمیوں کو طبی امداد پہنچائی گئی۔ آئی ایس کے خلاف مہم کی شروعات کرنے والے صدر اولاندو کو اپوزیشن نے بھی پوری حمایت دی۔ اپوزیشن کے لیڈر رگوبرڈ نے کہا کہ پورا دیش صدر کے ساتھ ہے۔ یہ اتحاد ایسے وقت میں دکھائی دیا ہے جب فرانس میں 50 سال بعد صوبائی چناؤ ہورہے ہیں۔ نہ کوئی بیان بازی ہوئی نہ صدر سے استعفیٰ مانگا گیا اور نہ ہی سرکار کی خفیہ ایجنسیوں کی چوک یا خامیوں کا ذکر کیا گیا نہ احتجاج میں کوئی بیان درج کیا گیا۔ ہم مشکل کی اس گھڑی میں فرانس کے ساتھ ہیں اور متوفی لوگوں کے خاندانوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟