دہشت گردی کی تشریح طے ہو مودی کی اقوام متحدہ میں اپیل!

دنیا کواچھی اور بری دہشت گردی میں کوئی فرق نہ کرنے کی ہندوستانی کی مسلسل آگاہی پر اب تک کن آنکھیوں سے دیکھ رہے بڑے ملکوں کو پیرس پر حملوں نے ضرور جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہوگا۔ وزیر اعظم نریندر مودی تمام بین الاقوامی اسٹیجز پر دہشت گردی کی عالمی تشریح طے کرکے اس کے خلاف ایک آواز اور طاقت کے ساتھ لڑنے کی بات مسلسل اٹھاتے رہے ہیں۔ اپنے دورۂ برطانیہ کے دوران وہاں کے ممبران پارلیمنٹ کو خطاب کرتے ہوئے بھی صاف طور پر کہا کہ دنیا کے سامنے اس وقت دو بڑے مسائل ہیں دہشت گردی اور گلوبل وارمنگ۔ اس وارننگ کے 24 گھنٹے کے بعد ہی پیرس پر دہشت گردانہ حملہ ہوگیا۔وزیر اعظم نے سنیچر کو اقوام متحدہ سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ دہشت گردی کی تشریح جلد طے کرے، ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔ پاکستان کا نام لئے بغیر انہوں نے کہا دہشت گردی کی تشریح طے کرنے سے دنیا کو یہ پتہ چل جائے گا کہ کون دہشت گردی کی حمایت کررہا ہے اور کون اس کے خلاف ہے۔ ممبئی حملے کے طرز پر فرانس میں ہوئے آتنکی حملوں کے بعد دنیا کے لئے مودی اور بھارت کی آواز کو اب لمبے وقت تک نظرانداز کرنا مشکل ہوگا۔ دہشت گردی کی خونخوار شکل نے دیش ہی نہیں بلکہ برصغیر کی حدود کو بھی پارکرلیا ہے۔ایسے میں ذمہ دار ملک دہشت گردی کے خلاف کھل کر سامنے آنے میں اپنا نفع اور نقصان ضرور دیکھیں گے اور اگر ایسا نہیں کیا تو یہ ان کی بھاری بھول ہوگی۔ نریندر مودی کی وارننگ کا اثر بھی ہوتا دکھائی پڑرہا ہے۔ ترکی کے انتالیہ شہر میں ہوئی جی 24- چوٹی کانفرنس میں پیرس حملوں کا اشو چھایا رہا۔ جہاں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بار پھر دہشت گردی سے لڑنے کے لئے متحدہ طور پر عالمی سطح پر کوششوں کی اپیل کی ہے وہیں اس دورہ چوٹی کانفرنس کے اختتام پر ایک ریزولوشن پاس کیا گیا جس میں آئی ایس کو نیست و نابود کرنے کا عظم ظاہر کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بانکیمون نے کہا ہے کہ وہ جلد ہی اقوام متحدہ کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے ایک وسیع پلان سونپیں گے۔ آئی ایس کے ذریعے بڑی طاقتوں کو نشانہ بنانے کے اس کے حوصلے میں ہی دراصل اس کے خاتمے کا امکان بھی چھپا ہوا ہے۔ آخرطالبان اور القاعدہ جیسی بے رحم تنظیمیں اسی طرح کمزور ہوئی ہیں۔ پیرس حملوں کی دنیا بھر میں جس طرح سے مذمت ہورہی ہے اس سے تو یہ طے کہ آئی ایس کے خلاف کارروائی کے حق میں حمایت بڑھے گی۔امریکہ بھی اب اپنی دوہری چالوں سے پرہیز کرے گا لیکن مشکل یہ بھی ہے کہ چاہے وہ آئی ایس ہو یا دیگر دہشت گرد تنظیمیں ہوں ان کے خلاف عالمی سطح پر کارروائی میں وہ اتحاد دکھائیں نہیں دے رہا ہے جس کی توقع کی جاتی ہے۔ مثلاً ایران آئی ایس سے تو بیشک لڑ رہا ہے لیکن اس خیمے میں وہ نظر نہیں آنا چاہتا جس میں امریکہ ہو۔ اس جنگ میں روس اور امریکہ کے ایجنڈے میں بھی فرق ہے۔ امریکہ جہاں سارے حقائق کے باوجود اپنے افغان مفادات کے پیش نظر پاکستان کو قصوروار ماننے سے انکارکرتا نظرآرہا ہے وہیں آئی ایس کو ختم کرنے کے ساتھ شام کے صدر بشارالاسد کو بھی ہٹانا چاہتا ہے، وہیں روس کا اسد کے تئیں رویہ نرم ہے۔ اس سے بھی دہشت گردی کے خلاف لڑائی کمزور پڑتی ہے۔ بھارت میں بھلے ہی دہشت گردی پاکستان اسپانسر ہے لیکن اس کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ آئی ایس نے پیرس پر حملہ ٹھیک اسی انداز پر کیا ہے جس طرح لشکر طیبہ نے ممبئی میں کیا تھا۔وزیر اعظم نریندر مودی نے اقوام متحدہ کے ممبر ممالک سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ جلد از جلد بین الاقوامی دہشت گردی پر ایک بڑے معاہدے کا ریزولوشن پاس کرے ۔ وزیر اعظم نے کہا میں چاہتا ہوں کہ اقوام متحدہ اپنی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر بغیر تاخیر کئے دہشت گردی کی تشریح طے کرے تاکہ ہم جان سکیں کہ کون دہشت گردی کی حمایت میں ہے اور کون دہشت گردوں کی مدد کررہا ہے اور کون اسے فروغ دے رہا ہے۔یہ بھی کہ دہشت گردی کا نشانہ کون لوگ بن رہے ہیں اور کون دہشت گردی کے خلاف ہیں اور کون انسانیت کیلئے اپنی قربانی دے رہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟