ہوا میں زہر تو گھلا لیکن پچھلے سال سے کم!

راجدھانی دہلی میں دیوالی کے موقع پر لگتا ہے کہ لوگوں میں بیداری آئی ہے اور ان کو یہ سمجھ آئی کہ زیادہ پٹاخے چلانے سے آب و ہوا آلودہ ہوتی ہے جس سے سبھی کو نقصان ہوتا ہے۔بیشک اس بار بھی دیوالی کے موقع پر آتش بازی سے راجدھانی کی ہوا میں خوب زہر گھلا ۔ عالم یہ تھا کہ جمعرات صبح آسمان میں فضائی آلودگی کے چلتے ذرات کی ہلکی چادر دیکھنے کو ملی۔ اس کے باوجود سکون دینے والی بات یہ رہی کہ پچھلے سال کی دیوالی کے مقابلے آلودگی کی سطح کم رہی اور سطح اس بار نیچے رہی۔
اس سال دیوالی پر ہوا کی رفتار پچھلے سالوں کے مقابلے میں کچھ تیز تھی جس کے نتیجے میں حالات کچھ بہتر نظر آئے۔ دہلی سرکار بھی دعوی کررہی ہے کہ پٹاخوں کے خلاف چلائی گئی ہم کی وجہ سے آلودگی میں کمی آئی۔ حالانکہ دہلی سرکار کے اس دعوے کو لیکر مرکزی اور دہلی سرکار کے دعوؤں میں اختلاف بھی دیکھنے کو ملا۔ مرکزی زمینی سائنس وزارت کے ادارے صفرکی رپورٹ کے مطابق دہلی یونیورسٹی کے آس پاس کے علاقے میں دیوالی کی رات آلودگی میں 20 گنا تک اضافہ درج کیا گیا جبکہ دہلی آلودگی کنٹرول کمیٹی نے گزشتہ چھ سالوں میں دیوالی کے موقع پر راجدھانی میں آلودگی کم ہونے کا دعوی کیا ہے۔دہلی سرکار کے دعوے کو اس حقیقت سے بھی تقویت ملتی ہے کہ دہلی پر اس بار گزشتہ سال کے مقابلے پٹاخوں کی فروخت میں کمی دیکھی گئی۔ 
یہ قریب 20 فیصدی بتائی جاتی ہے۔ حالانکہ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی بتایا گیا کہ اس بار پٹاخوں کی بکری دیوالی کے دنوں اور وہ بھی شام کے بعد ہی ہوئی۔ پٹاخوں کے ایک بڑے ویاپاری نے بتایا کہ گزشتہ سال کے مقابلے اس بار 20 سے25 فیصدی پٹاخوں کی بکری کم رہی۔
دیوالی سے ایک دن پہلے تک تو دوکاندار اسی بات کو لیکر ڈرے ہوئے تھے کہ جو پٹاخے ان کے پاس ہیں وہ بھی بک پائیں گے یا نہیں؟ لیکن دیوالی کی رات کو پٹاخوں کی بکری کافی ہوئی۔ ویسے بھی اس سال پٹاخوں کی قیمتوں میں لگ بھگ 15فیصدی اضافہ بھی ہوا۔ یہ دکھ کی بات ہے کہ تمام کوششوں کے باوجود کچھ لوگ اب بھی زیادہ پٹاخے چلانے سے پرہیز نہیں کرتے اور ان کی غلطی کا خمیازہ پورے سماج کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ان سب کے بیچ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس بار بھی ہر سال کی طرح رات 10 بجے کے بعد بھی پٹاخے جلائے گئے۔ سپریم کورٹ نے صاف حکم دے رکھا ہے کہ رات10 بجے کے بعد پٹاخے نہ چلیں ،پر اس پر عمل بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ پھر بھی ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں اور پٹاخوں کی تعداد گھٹانے کی سمت میں مسلسل کوششیں جاری رکھنی ہوں گی۔ ہوا کو صاف کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟