بھارت مسلمانوں کیلئے بہترین دیش ہے!

جمعیت علمائے ہند کے سکریٹری جنرل و نامور اسلامی پیشوا مولانا محمود مدنی نے ہمیشہ صحیح بات کہی ہے۔ ہم ان کا احترام کرتے ہیں اس لئے نہیں کہ وہ کسی کی حمایت کرتے ہیں بلکہ اس لئے کہ انہیں جو صحیح لگتا ہے وہ بے دھڑک کہہ دیتے ہیں، بیشک کسی کو اچھا لگے یا برا۔ عدم بداشت پر چھڑی بحث کے درمیان منگلوار کو مولانا مدنی نے کہا کہ مسلمانوں کے لئے بھارت سے بہتر کوئی دیش نہیں ہے۔ 
مدنی نے پیرس میں آتنکی وادی حملے کے سلسلے میں یوپی کے وزیر اعظم خاں کے تبصرے پر مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جہاد کا وقت ہے۔ آتنکی حملوں کو کسی بھی صورت میں جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت ہونی چاہئے۔ بقول مدنی صاحب آئی ایس جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف دہلی سمیت ملک کے 75 شہروں میں مسلم تنظیموں نے احتجاج کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے دیش میں غریبی ،تعلیم کا نہ ملنا جیسے مسائل ہیں۔ وقتاً فوقتاً کشیدگی بھی پھیلتی ہے لیکن کچھ ہی وقت کیلئے ہوتی ہے۔ لوگ آپس میں پھرسے مل جاتے ہیں۔ یہاں کی مٹی ہی کچھ الگ قسم کی ہے جس میں سب کیلئے پیار بسا ہوا ہے۔ مدنی نے کہا مسلمانوں کیلئے دنیا میں بھارت سے بہتر کوئی دوسرا دیش نہیں ہے۔ اس دیش میں مختلف مذاہب کے درمیان آپسی بھائی چارہ پوری دنیا کو راغب کرتا ہے۔ انہوں نے پیرس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کے نام پر معصوموں کا قتل کرنا اسلام کا بیجا استعمال ہے۔جانے انجانے میں ہوئے ان واقعات کو اسلام سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے، جو مناسب نہیں ہے۔ دہشت گرد دنیا بھر میں مسلمانوں کے لئے تکلیف دہ حالات پیدا کررہے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات کو اسلام پر حملہ کرنے کا بہانہ بنا لیا گیا ہے۔ 
وقتاً فوقتاً مولانا مدنی اپنی بات اٹھاتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے بجنور کے قصبے کرتپور میں ایک مذہبی پروگرام میں مولانا مدنی نے کہا کہ کسی دشمن نے اسلام کو بدنام نہیں کیا بلکہ اس کے گناہگار ہم خود ہیں۔ انہوں نے کہا اسلام کی دہشت گردی کی ساکھ بنانے کے قصوروار مسلمان ہی ہیں۔ مسلمان اگر 20 سال کی تعلیم کا ایجنڈا طے کرلیں اور یہ سوچ ہیں کہ بھوکے پیٹ سو کر بھی بچوں کو تعلیم یافتہ بنائیں گے، تو یقیناًجن کے دلوں میں مسلمان کے لئے نفرت ہے وہ بھی محبت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا راستہ صحیح نہیں ہے۔ سماج میں ہماری ساکھ بگاڑنے والا کوئی دشمن نہیں، بلکہ دہشت گردی کی یہ ساکھ ہم نے خود بنائی ہے۔ ہم مولانا محمود مدنی کے خیالات کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہمارے مسلمان بھائی ان کی باتوں پر غورکر کے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟